انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب نے خراب سروس ریکارڈ رکھنے والے تمام ایس ایچ اوز کو ان کے عہدوں سے ہٹا کر ان کی رپورٹیں سنٹرل پولیس آفس بھجوانے کا حکم دیا ہے اورکہا ہے کہ ایسے افسران جن کے خلاف کرمنل کیسز زیر سماعت ہیں انہیں ایس ایچ اوز تعینات نہ کیا جائے۔ بلاشبہ تھانوں کے کلچر کو بنانے اور بگاڑنے میں پولیس کے ایس ایچ اوز کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔ ایس ایچ او کے بارے میں تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جتنے اختیارات اس کے پاس ہیں اتنے کسی بھی سرکاری اہلکار کے پاس نہیں ،یہی وجہ ہے کہ یہ تھانوں میں لگ کر من مانیاں کرتے ہیںاور جھوٹے سچے مقدمات قائم کر کے ان میں ایسے قانونی سقم رکھ دیتے ہیں کہ شہریوں کو انصاف کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت پولیس کے محکمے میں اصلاحات کی ضرورت ہے، پی ٹی آئی نے اقتدار میں آنے کے بعد عوام سے پولیس کے محکمے کو سیدھا کرنے کا وعدہ کیا تھا جو ابھی تک ایفا نہیں ہوا۔ آج بھی تھانوں کا کلچر پہلے جیسا ہی ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کی طرف سے اقدامات کے ساتھ ساتھ اس محکمے کے بڑے افسروں کو بھی چاہیے کہ اپنے محکمے کا قبلہ درست کریں ۔ تھانہ کلچر میں تبدیلی لائیں اور تھانوں کو عوام دوست بنائیں۔ تھانوں کوبد عنوان، کالی بھیڑوں سے چھٹکارا دلا کر ان میں نیک نام تفتیشی افسروں اور ایس ایچ اوز کا تقرر کیا جائے تا کہ عوام ضرورت کے وقت اپنی شکایات درج کرانے کے لئے بلا خوف تھانوں کا رخ کر سکیں۔