خرچہ ہندوستان کااورچرچہ کشمیروپاکستان کا کے مصداق ڈونلڈ ٹرمپ نے مودی کی ایسی کی تیسی کردی۔ٹرمپ نے یہ کہتے ہوئے کہ کشمیر بہت پرانا مسئلہ، اب تک حل ہوجانا چاہئے تھا ایک بارپھرپاکستان اور بھارت کوثالثی کی پیشکش کردی ۔نئی دہلی میں پریس کانفرنس میں ٹرمپ کاکہناتھاکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کیلئے تیار ہوں۔ ٹرمپ کاموقع بہ موقع مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لئے اپنی ثالثی کی بھی پیشکش کر رہے ہیںجوایک طرف ا س امرپرگواہی ہے کہ بھارت کے موقف کے علیٰ الرغم کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں بلکہ متنازع اور حل طلب مسئلہ ہے َ،دوسری طرف ٹرمپ کایہ کہناکہ کشمیربہت پرانامسئلہ ہے اوراسے اب تک حل ہوجاناچاہئے تھاکشمیریوں کاحوصلہ بڑھارہا ہے ۔ ٹرمپ آج تک تین بار پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع کشمیر پر ثالثی کی پیش کش کر چکے ہیں۔ بھارت دہشت گردی کی ذیل میں کشمیری حریت پسندوں کو بھی شامل کرنا چاہتا ہے۔ جو 72برس قبل سے اقوام متحدہ میں بطور حریت پسند زیر بحث ہیں۔ کشمیر کے مظلوم گزشتہ چھ ماہ سے بھارتی کرفیو میں محصور ہیں۔ٹرمپ کے دورہ بھارت کے دوران مقبوضہ وادی کشمیرکے محاصرے کو 206روز مکمل ہو گئے اور ٹرمپ کی آمد سے کچھ روز قبل ہی کشمیری نوجوانوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر کرفیو کی خلاف ورزی کر کے گھروں سے باہر نکل کر مظاہرے کئے جس میں شہادتوں، زخمی اور گرفتار ہو ہیں۔ کشمیر کی صورتحال بد سے بد ترین ہوتی چلی جا رہی ہے اس دوران ٹرمپ کاموقع بہ موقع مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لئے اپنی ثالثی کی بھی پیشکش کر رہے ہیںجواس امرپرگاہی ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں بلکہ متنازع اور حل طلب مسئلہ ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارتی سرزمین پر کھڑے ہو کر یہ کہناکہ پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بہت اچھے ہیں اسے مودی اوربھارتی عوام کی پیشانیاں پسینے سے تر ہو گئیں۔تاہم اس پرپاکستان کوخوش نہیں ہوناچاہئے کیوںکہ امریکہ بھارت پروان چڑھ رہے تعلقات ٹرمپ اورامریکی کوسمجھنے کے لئے ہمارے لئے کافی ووافی ہیں۔ پاکستان کو امریکہ بھارت بڑھتے تعلقات میں اپنی سلامتی کو لاحق خطرات کا مقابلہ کرنا ہوگااور پاکستان کو امریکہ سے ضرورت سے زیادہ توقعات نہیں رکھنے چاہئے۔ ٹرمپ دہلی میں ہی تھاکہ بی جے پی ،آرایس ایس غنڈوں اوربھارتی فورسز مل کر دہلی میںمسلمانوں کے گھروں اوران کی عبادت گاہوںپر حملے کر رہے ہی تھے جبکہ ان کی املاک کو بھی جلا دیا گیا ،دہلی میںمسلم اکثریتی علاقے کاردام پوری میں بی جے پی ، آرایس ایس کے غنڈوں اوربھارتی فورسزنے مسلمانوں بستیوں کی بستیاں جلا کر بھسم کردی ہیں۔ مسلم اکثریتی علاقوں میں حملوں کیلئے پٹرول بموں کا استعمال بھی کیا جارہا ہے ۔ گوکل پوری میں جامع مسجد و جامعہ عربیہ مدنیہ کو جلا کر شہید کردیا گیا، انتہاپسند ہندو اشوک نگر میں ایک مسجد پر بھی حملہ آور ہوئے اور اس کے مینار سے سپیکر اتار کر نیچے پھینکتے ہوئے اپنے جھنڈے لہرا دیئے ۔اب تک دوردرجن سے زائدمسلمان شہیدجبکہ سینکڑوں زخمی ہوچکے ہیں۔ دیش کے غداروں کو، گولی مارو جیسے نعرے بلندہورہے ہیں۔دہلی کے متاثرہ علاقوں میں کرفیو نافذ کرتے ہوئے شہر کی شمال مشرقی سرحد کو سیل کردیا گیا ہے ۔ دوسری جانب شہر کی انتہائی خراب صورتحال کے پیش نظر نئی دہلی حکام نے شہر بھر کے ہسپتالوں کے عملے کو الرٹ کردیا ہے جبکہ فائر بریگیڈ حکام کو پولیس سے رابطہ رکھنے اور متاثرہ مقامات پر فوری طور پر پہنچنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کاعذاب وعتاب میں شکارہونے کودیکھ کربھی ٹرمپ نے چپ سادھ لی اورمتنازع شہریت ترمیمی قانون کے خلاف بھارتی مسلمان احتجاج کررہے ہیں اس پر تبصرہ کرنے سے ٹرمپ نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں اس مسئلہ پر تبصرہ نہیں کروں گا، میں یہ معاملہ بھارت پر چھوڑتا ہوں۔اسی سے ٹرمپ اورامریکہ کے دل میں اس پھانس کاپتاچلتاہے کہ جوان کے قلوب میں موجودہے اوراسی پھانس کے تناظرمیںہمیں ٹرمپ کاکشمیرپرثالثی اورپاکستان کی تعریفوں کودیکھناچاہئے۔ یہ حقیقت اب بھارت پر عیاں ہے کہ کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دے کر ہڑپ کرنے اور پاکستان کو بنگلا دیش اور نیپال کی سطح پر دبائو میں رکھنے، بعض صورتحال میں اس کی سلامتی و بقا کے درپے ہو کر اسلحے کی دوڑ میں پاکستان کو بہت پیچھے چھوڑنے کی جو خواہش دل تاریک میں بسائی ہوئی ہے۔اس کے نتائج الٹ نکل رہے ہیں۔ امر واقعہ تو یہ ہی ہے کہ بھارت کی علاقائی بالادستی کی خواہش اور کشمیر کو ہمیشہ کے لئے بھارت میں شامل رکھنے کے لئے، اس نے اپنی 70فیصد بدترین غربت کو نظرانداز کر کے اسلحے کے ڈھیر لگانے کی پالیسی جاری رکھی ہوئی ہے۔اسی کا تو نتیجہ ہے کہ پاکستان کی دفاعی صلاحیت اس کے مقابل معیار میں بلند تر ہوتی گئی حتی کہ وہ بھارت سے زیادہ بہتر دینے والی ایٹمی طاقت بن گیا۔مسئلہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر رضامندی کے بغیر بھارت خود کو سنبھالنے میں ہی لگا رہے گا اور پاکستان بھارتی ہمسایوں سے بھی بالآخر معمول کے تعلق قائم رکھنے اور جنوبی ایشیا کو بھارت کے ناقابلِ قبول اثر سے محفوظ رکھنے کی پوزیشن میں ہو گا۔نہ جانے بھارت کی آنے والی نسلوں میں کونسی پیڑی اتنی خوش قسمت ہو گی کہ وہ اس کھلے راز کو سمجھ کر خود کو اس کے مطابق، بھارتی تشخص کو بحال کر کے، دنیا کے ساتھ انسانیت کے مانے گئے اصولوں کے مطابق چلنے کا اہل بن سکے۔ باقی امریکہ جمہوریت سے زیادہ جس طرح سرمایہ داری اور کاری میں پھنس گیا ہے، اس کے عوام کو بھی غور کرنا ہے کہ ابراہم کا امریکہ کدھر جا رہا ہے؟ ہر ذی شعورانسان اس امرسے خوف واقف ہے کہ جنوبی ایشیا میں امریکہ بھارت کا سب سے بڑا سرپرست اور مربی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ اس خطے میں اپنے سیاسی اور تجارتی حریف چین کو نیچا دکھانے کے لئے بھارت کو اس کے مقابلے میں کھڑا کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور دوسری یہ کہ ایک ارب سے زائد آبادی والا بھارت دنیا میں مہلک ترین امریکی ساختہ اسلحے اور سامان تجارت کی سب سے بڑی منڈی اور امریکہ کے لئے مال بنانے کا بہترین ذریعہ ہے۔بھارت اور امریکہ کے درمیان ہونے والے جنگی آلات کے معاہدے کے تناظر میں بھی ٹرمپ کی کشمیرپرثالثی کی پیشکش اورپاکستان کے امریکی تعریفوں کوسمجھناہوگا ۔