دو تین سال پہلے ایک ترک ڈرامہ سیریز’’چھوٹی سی قیامت‘‘ اردو ڈبنگ کے ساتھ پاکستانی چینل پر دیکھی۔کہانی اور پروڈکشن غیر معمولی نہیں تھی، مگر اس کا بنیادی آئیڈیا بڑا شاندار اور پراثر تھا۔ ہر قسط میں نئی کہانی ملتی تھی۔ زندگی کے مختلف کرداروں کو فوکس کیا گیا تھا، کوئی سرکاری ملازم، تاجر، ہسپتال کی نرس، ڈاکٹر، گارڈ، ڈرائیور اور اسی طرح مختلف شعبوں کے عام لوگ۔زندگی کے تیز رفتار سفر میں مصروف یہ لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوتے ، کسی کے پاس سر کھجانے کی بھی فرصت نہ ہوتی، ایسے میں اچانک ایک پراسرار فرشتہ صورت کردار ان کے پاس آ کر انہیں خبردار کرتا ہے کہ اللہ کے بندے تمہارے پاس وقت زیادہ نہیں اور کسی بھی وقت یہ سفر ختم ہونے والا ہے۔بہت سے کرداروں کو باقاعدہ اس نے چوبیس گھنٹوں، اڑتالیس گھنٹوں یا کسی کو بارہ گھنٹوں کی وارننگ بھی دی کہ صرف اتنا وقت بچا ہے ، اپنے حساب کتاب کلیئر کر لو،اپنی بیلنس شیٹ صاف کرلو۔ بعض قسطوں میں وہ پراسرار شخص کسی کردار کو آ کر یہ سمجھاتا ہے کہ ہر چیز نے فنا ہونا ہے، اس کے اشارے تمہیں رب تعالیٰ دن رات دکھاتا رہتا ہے، مگر اللہ کے بندے تم لوگ سمجھتے نہیں، چیزیں(برتن وغیرہ)گر کر ٹوٹتی ہیں، بھیڑ، بکریاں مرجاتی ہیں، تمہارے آس پاس کے لوگ دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ انسان اپنی دھن میں مست لگا ہے۔ ظلم کرتا ہے، ان کی تلافی نہیںکر پاتا۔ زیادتی سے باز نہیں آتا ۔ کہانی میں مختلف طریقوں سے یہ بھی سمجھایا گیا کہ جن کرداروں نے ظلم کر رکھا تھا، کسی سے قرضہ لیا تھا، حق مارا ہوا تھا، وہ سب دنیا سے جانے کے بعد شدیدمشکل کا شکار ہیں۔ یہ ترک ڈرامہ واقعی ہلا دینے والا تھا۔ یوٹیوب پر اس کی قسطیں پڑی ہیں، دیکھی جا سکتی ہیں۔اسے دیکھتے ہوئے یہی خیال آتا کہ ہم بھی اپنی بیلنس شیٹ کی فکر کریں۔ زندگی ہی میں تلافی کر لیں اور کچھ آگے کی منزل کے لئے بھی کر گزریں۔افسوس روزمرہ زندگی کے معمولات سب بھلا دیتے ہیں۔ آگے کی منزل کی خبر یا فکر کس کو ہو؟بس اپنے ’’آج ‘‘ہی میں الجھے رہتے ہیں۔ بعض خبریں مگر آدمی کو جھنجھوڑ دیتی ہیں۔بھارتی اداکار عرفان خان کے انتقال کی خبر بھی ایسی ہی ہلا دینے والی ہے۔ عرفان خان بالی وڈ فلم انڈسٹری کے چند سب سے شائستہ، ڈیسنٹ اور غیر متنازع لوگوں میں سے ایک تھے، جن کا کبھی کوئی سکینڈل نہیں بنا۔ انہوں نے خود کو سیکولر ظاہر کرنے کے لئے خواہ مخواہ ہندو کلچر کا حصہ بننے سے بھی گریز کیا۔اداکار کمال کے تھے اور بہت سی اچھی معیاری فلموں میں کام کیا۔ مجھے اصل دھچکا عرفان خان کی اس تحریر سے لگا جو انہوں نے کینسر کا شکار ہوجانے کے بعدلکھی۔ یہ وائرل ہوئی اور اس کے بہت سی زبانوں میں تراجم بھی ہوئے۔برادرم حسنین جمال نے اس خط کا آزاد ترجمہ کیا۔اس ترجمہ کو مزید آزاد بناتے ہوئے چند اقتباسات قارئین سے شیئر کرتا ہوں۔ عرفان خان لکھتے ہیں : کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی کی آنکھ اس جھٹکے سے کھلتی ہے جو زندگی جگانے کے لئے دیتی ہے۔وہ ہڑبڑا کر اٹھ جاتا ہے۔پچھلے پندرہ دنوں سے میری زندگی ایک سسپنس والی کہانی بن گئی۔ اندازہ نہیں تھا کہ(اپنی فلم کے لئے) انوکھی کہانیوں کا پیچھا کرتے کرتے میں خود ایک انوکھی بیماری کے پنجوں میں پھنس جاؤں گا۔ ابھی تھوڑے دنوں پہلے ہی مجھے اپنے نیورو اینڈوکرائن (آنتوں سے متعلق) کینسر کے بارے میں پتا چلا۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کے مریض پوری دنیا میں بہت ہی کم ہیں، نہ ہونے کے برابر۔ مریض نہیں ہیں تو اس پہ تحقیق بھی ویسے نہیں ہوئی جیسے ہونی چاہئے تھی۔ڈاکٹروں کے پاس دوسری بیماریوں کی نسبت اس کے بارے میں کم معلومات ہیں، علاج کامیاب ہو گا یا نہیں، یہ بھی سب ہوا میں ہے، اور میں... میں بس دواؤں اور تجربوں کے کھیل کا ایک حصہ ہوں۔ ’’یہ میرا کھیل نہیں تھا بھائی۔ میں تو ایک فل سپیڈ والی بلٹ ٹرین میں سوار تھا۔ میرے تو خواب تھے، کچھ کام تھے جو کرنے تھے۔ کچھ خواہشیں تھیں، کچھ ٹارگٹ تھے، کچھ تمنائیں تھیں، آرزوئیں تھیں، اور میں بالکل ان کے درمیان لٹکا ہوا تھا۔ اب ایسا ہی ہوا ہے کہ ایسی ٹرین میں سفر کرتے اچانک کوئی پیچھے سے آ کر کندھا تھپتھپائے ۔ مڑ کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ٹکٹ چیکر ہے۔ وہ کہتا ہے ،’’تمہارا سٹاپ آنے والا ہے بابو، چلو اب نیچے اترو‘‘۔ہم پریشان ہو کرجواب دیں،’’نہیں نہیں بھائی میاں، میری منزل ابھی دور ہے یار‘‘۔ اور پھر ٹکٹ چیکر سمجھانے والے انداز میں کہے :''نہ، یہی ہے۔ سٹاپ تو بس یہی ہے۔ ہو جاتا ہے، کبھی کبھی ایسا بھی ہو جاتا ہے‘‘۔اس اچانک پن میں پھنس کے مجھے سمجھ آ گئی کہ ہم سب کس طرح سمندر کی بے رحم لہروں کے اوپر تیرتے ایک چھوٹے سے لکڑی کے ٹکڑے کی طرح ہیں۔ بے یقینی کی ہر بڑی لہر کے آگے ہم تو بس اپنے چھوٹے سے وجود کو سنبھالنے میں لگے رہتے ہیں۔ اس سے کم نہ اس سے زیادہ۔ ’’اس مصیبت میں پھنسنے کے بعد ایک دن جب میں ڈرا سہما ہوا ہسپتال جا رہا تھا تو میں نے اپنے بیٹے سے ایویں بڑبڑاتے ہوئے کہا کہ مجھے اس وقت اپنے آپ سے کچھ نہیں چاہئے، ہاں بس اتنا ضرور ہے کہ یار اس عذاب سے میں اس طرح نہ گزروں جیسے اب اس وقت گزر رہا ہوں۔ مجھے اپنا سکون اپنا اطمینان واپس چاہئے۔ یہ جو ڈر، جو خوف، جو پریشانیاں میرے کندھوں پہ چڑھی بیٹھی ہیں میں انہیں اٹھا کے پھینک دینا چاہتا ہوں، میں ایسی قابل رحم قسم کی ہونق حالت میں اب مزید نہیں رہنا چاہتا۔ اس بیماری کا شکار ہونے کے بعد میری واحد خواہش یہی تھی۔ اور پھر اپنی تکلیف کی طرف میرا دھیان چلا گیا۔ مطلب اتنے عرصے سے میں بس اپنی تکلیف جھیل رہا تھا، برداشت کر رہا تھا، درد کی شدت کا احساس کر رہا تھا، لیکن اس پوری مدت میں کوئی بھی چیز اسے ختم نہیں کر پا رہی تھی۔ کوئی ہمدردی، پیار بھرے بول، کوئی ہمت بندھانے والی بات، کچھ بھی نہیں! اس وقت پتا ہے کیسا لگتا تھا؟ جیسے پوری کائنات صرف ایک چیز کا روپ دھار چکی ہے ، درد، خوفناک درد۔ وہ درد جو ہر چیز سے بڑا ہے! ’’ ہر چیز سے مایوس ہو کر تھکا ہارا، بے حال جب میں ہسپتال کے اندر داخل ہو رہا تھا تو سامنے کی طرف میری نظر پڑی۔ ادھر لارڈز کرکٹ گراؤنڈ تھا۔ وہ لارڈز جسے دیکھنا میرے بچپن کی سب سے بڑی حسرت تھا۔ اور اب اس تکلیف کے دوران وہاں لگا ویوین رچرڈز کا ایک بڑا سا ہنستا ہوا پوسٹر بھی مجھے اپنی طرف کھینچ نہیں سکا۔ دنیا تو جیسے اب میرے کام کی رہ ہی نہیں گئی تھی۔ خیر، اس ہسپتال میں ایک کوما وارڈ بھی تھا۔ وہ سارے مریض جو لمبے عرصے کے لیے ہوش اور بے ہوشی بلکہ زندگی اور موت کے درمیان لٹکے ہوتے تھے، وہ ادھر رکھے جاتے تھے، اوپر، بالکل میرے وارڈ کے اوپر والے کمرے میں۔ ایک دن میں اپنے کمرے کی بالکونی میں کھڑا تھا تو جیسے ایک جھماکا ہوا۔ گیم آف لائف اور گیم آف ڈیتھ کے بیچ میں ہے کیا؟ ایک سڑک؟ (کرکٹ کو گیم آف لائف بھی کہتے ہیں) ایک طرف ایک ہسپتال ہے اور اس کے بالکل سامنے دوسری طرف ایک سٹیڈیم، اور دونوں میں کھیلے جانے والے کھیل کی ایک چیز کامن ہے ، بے یقینی۔ نہ لارڈز سٹیڈیم میں پتہ ہے کہ اگلی گیند پہ کیا ہو گا، نہ ہسپتال میں اگلی سانس کا پتہ ہے۔ کامل بے یقینی۔ یہ فیلنگ جیسے میرے اندر اتر گئی۔ ’’اب مجھے کائنات کی وسعت، اس کی طاقت اور اس کا نظام، سب کچھ کہیں نہ کہیں سمجھ آنا شروع ہو گئے تھے۔ سمجھو کہ بس جو چیز یقینی ہے وہ بے یقینی ہے۔ یعنی بے یقینی کے علاوہ اس پوری کائنات میں کچھ بھی ایسا نہیں جسے یقینی کہا جا سکے۔ اب جب سبھی بے یقینی کے بہاؤ میں ہیں تو میں کیا اور میری بے یقینی کیا؟ مجھے تو بس اپنی باقی رہ جانے والی طاقت کو سنبھالنا ہے اور اپنے حصے کا کھیل اچھے سے کھیلنا ہے، دیٹس اٹ!‘‘ عرفان خان نے سچ کہا۔ پورا کھیل ہی بے یقینی کا ہے۔کسی کو نہیں معلوم کہ اس کا آخری سٹاپ کیا ہے ؟ اپنی طرف سے وہ لمبی چوڑی پلاننگ میں مصروف ہے، مستقبل کے دل خوش کن منصوبے، پانچ سات، دس پندرہ، بیس پچیس سال آگے کے منصوبے۔ یہ کروں گا، وہ کروں گا، پلاٹ ، گھر، بچوں کو سیٹل کرانا، ان کی شادیاں وغیرہ۔ پھر آخری دنوں میں سکون سے ، ہر کام نمٹا کر آخرت کی تیار ی کروں گا، حج کروں گا، ڈاڑھی رکھ لوں گا،تمام وقت عبادت میں گزاروں گا، وغیرہ وغیرہ۔ یہ نہیں معلوم کہ سفر اچانک بھی ختم کرنا پڑ سکتا ہے۔ آخری سٹاپ ہمارے منصوبوں سے بہت پہلے بھی آ سکتا ہے۔ کامیاب تب وہی ہے ، جس نے زندگی کی دوڑمیں دوسرے کاموں کے ساتھ آگے کی تیاری بھی کر رکھی تھی۔ اس کے پاس کچھ ایسا ہے جو پیش کیا جا سکے۔ ترک ڈرامہ نگار نے سچ کہا تھا کہ نشانیاں ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں۔ چیزیں ٹوٹتی ہیں، ہنستے مسکراتے، مہکتے، چہکتے لوگ یکایک چلے جاتے ہیں۔ بلٹ ٹرین کو اچانک رکنا پڑتا ہے، وہ ہم میں سے کسی کا بھی سٹاپ بن سکتا ہے، آخری سٹاپ۔