لگ بھگ چار برس تو ہونے کو ہیں لیکن لگتا ہے یہ جیسے کل کی بات ہو ،بڑ ے سے ہال میںپچیس تیس افراد میزوں کے گرد کرسیاں ڈالے بیٹھے تھے اور سامنے ایک خوبصورت ترک نوجوان ترکی زبان میں ہم سے مخاطب تھا،یہ ترکی کا سرحدی شہر ریحانلی تھا جس کے دوسری طرف خون آشام بشار یوں نے غارت گری مچارکھی تھی ،شامی فوجوں کی کوشش تھی حکومت مخالف یا تو بارود کی بارش سے اپنی نسلوں سمیت جھلس جائیں یا پھر شام چھوڑدیں ،لاکھوں کی تعداد میں مجبور بے بس شامی گھر بار چھوڑ کر ترکی میں داخل ہوگئے تھے ترکی نے ایثار کا مظاہرہ کرکے ان کے لئے سرحدیں کھول دی تھیں چھتیس لاکھ شامی مہاجرین ترکی میں اور جانے کتنے لاکھ سرحدی کیمپوں میں تھے ،ترکی کے راسخ العقیدہ مسلمانوں کی این جی او آئی ایچ ایچ جسے ترکی’’ ای ہاہا‘‘کہتے ہیںشامیوں کی مدد کے لئے کمربستہ تھی ان کی کوشش تھی کہ ان کے مسائل کم سے کم ہوںریحانلی انکی امدادی سرگرمیوں کا بیس کیمپ تھااور وہ سنجیدہ ترک نوجوان اس کیمپ کا نگراں تھا ،اسکے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ بہت کم مسکراتا ہے اس نے جو کچھ دیکھ رکھا ہے کہ اس کے بعد تو شائد اسے مسکرانا ہی بھول جانا چاہئے تھا لیکن یہ جذبے تو قدرت نے انسان کی فطرت میں رکھے ہیں وہ بھی کبھی کبھار مسکرا ہی لیتا ہوگامیں نے تو ریحانلی کے مہاجر اسپتال میں دونوں ٹانگیں کٹوا کر بستر پر پڑی بہادر بیٹی کو بھی مسکراتے دیکھا ہے ۔ ای ہاہا کا وہ ذمہ دار ایک ترک مترجم کی مدد سے ہمیں شامی مہاجرین کی مشکلات اور مہاجر کیمپوں کے مسائل بتا نے لگاکہ ریحانلی شہر سے قریب شام کے علاقے میں ترک فوج نے حفاظتی حصار میں بفرزون قائم کر کھا ہے جہاں شامی مہاجرین کے کیمپ ہیں میرا ان کیمپوں میں آنا جانا رہتا ہے کام کی نوعیت ایسی تھی کہ مجھے وہاں ایک دفتر کی ضرورت پڑ گئی جس کے لئے یہاں سے ایک کنٹینر وہاں پہنچا دیا گیا کنٹینروہاں پہنچنے کے بعد ایک شامی بھائی میرے پاس آیا لیکن میرے آس پاس لوگ دیکھ کر چپ کھڑا رہا میں ایک دو بار اسکی جانب متوجہ بھی ہوا لیکن اس نے کچھ نہ کہا آخر کا ر میرے پوچھنے پر اس نے کہا کہ وہ علیحدگی میں کوئی بات کرنا چاہتا ہے میں اسے ایک طرف لے گیا وہ ہچکچاتے ہوئے مجھ سے کہنے لگا کہ کیا آپ اپنا یہ دفتر مجھے ایک دن کے لئے دے سکتے ہیں ؟ اس کے سوال پر میںزرا حیران ہوا کہ اسے دفتر کی ضرورت کیوں پڑ گئی میں نے اسے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس خیمہ نہیں ہے ؟ اس نے بتایا کہ خیمہ ہے جس میں بیوی بچوں کے ساتھ رہ رہا ہوں لیکن مجھے بس ایک دن کے لئے یہ دفتر چاہئے اسکے لہجے میں عاجزی اور لجاجت تھی میں نے اسکے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور نرمی سے کریدا تو اسکی آنکھیں چھلک پڑیں ،وہ نظریں نیچی کرکے ہچکچاتے ہوئے کہنے لگا خیمہ چھوٹا ہے لیکن گزارہ ہورہا ہے لیکن وہاں پرائیویسی نہیں میں اور میری بیوی اپنے آپ کو مار کر جی رہے ہیں ہم ونوں انسان ہیں وہ میرا لبا س ہے لیکن میں اسے پہن نہیں سکاہم ایک عرصے سے ایک دوسرے کے قریب نہیں ہوسکے اور ایسے رہ رہے ہیں جیسے دو بہن بھائی رہتے ہیں ۔۔۔ای ہاہا کے اسی نوجوان نے بتایا کہ بشار کی فوجوں کے محاصرے میں ایک شہر کا حال یہ ہوگیا تھا کہ لوگ بھوک سے پتے گھاس کھانے پر مجبور ہوگئے تھے وہ نہ رہے توانہوں نے کسی ذریعے سے علماء کرا م تک سوال پہنچایاہم سے اب بھوک برداشت نہیں ہوتی ،پتے اور درختوں کی نرم شاخیں ختم ہوچکی ہیں کیا اس حالت میں زندہ رہنے کے لئے ہمیں بلیاں کھانے کی اجازت ہے ؟مجھے اس نوجوان کی گفتگو اور سننے والوں کی آنکھیں نہیں بھولتیں میں اندر سے لرز کر رہ گیا میری ریڑھ کی ہڈی میں جیسے چیونٹیاں رینگ رہی ہوں مجھے اس روز شدت سے احساس ہوا کہ وطن اور آزاد وطن کیسی نعمت ہے مجھے اس روز صحیح معنوں میں علم ہوا کہ کشمیری فلسطینی آزادی کے لئے نسلیں کیوں قربان کر رہے ہیں ا س روز پاکستان کی محبت نے مجھے جیسے کبھی ختم نہ ہونے والے ٹرانس میں لے لیا مجھے احساس ہوا کہ میں آزاد اور محفوظ وطن میں ہوں۔ مانتا ہوں کہ پاکستان میں بہت نہیں بہت زیادہ مسائل ہیں لیکن اس کے باوجود آزاد ہونے کا احساس ہی الگ ہے یہ اتنا پرکشش اور طاقتور ہے کہ آپکو ادھر ادھرہونے نہیں دیتا اگرچہ کہ کچھ قوتیں ہمیں ادھر ادھر کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہی جہاں موقع ملے وطن سے بیزاری کا تیزاب چھڑکنے سے باز نہیں آتیں، پاکستان کی پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی پشتون تحفظ موومنٹ پر مجھے شدید تحفظات ہیں یہ پلیٹ فارم ملک دشمن قوتوں نے یرغمال بنا رکھاہے ایسا نہیں ہے تو پی ٹی ایم قیادت اپنی آستینوں میںموجود وطن دشمن سانپ سنپولئے جھاڑ کیوں نہیں دیتی ؟ پی ٹی ایم یور پ کے آرگنائزر فضل الرحمان آفریدی یورپی ممالک میں پاکستان کے خلاف مظاہروںکا آرگنائزر ہے یہ شخص مانو کھجوریہ نامی بھارتی صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہتاہے کہ پاکستان نے پشتونوں کو استعمال کرکے کشمیر پر جارحیت کی اور بھارت میں تخریبی کارروائیوں میں بھی پشتونوں کو استعمال کیا ۔۔۔ ’’انکشاف‘‘ کے بعد یہ دور کی کوڑی لاتا ہے کہ پاکستان آرمی نے یہ سب کچھ خود کو مضبوط کرنے اوربجٹ بڑھانے کے لئے کیا۔۔۔اس شخص نے اس انٹرویو میں وہ سب کچھ کہا جو الطاف حسین کہتا پھرتاہے یوں لگ رہا تھا کہ نئی دہلی نے پی ٹی ایم کے اس ذمہ دار کے منہ میں اپنی زبان ڈال رکھی ہے ،پی ٹی ایم یورپ کے اس آرگنائزر نے جو قے کرنی تھی کی لیکن اس پربھی پی ٹی ایم کی قیادت نے وہی خاموشی اختیار کئے رکھی جو اسکا وتیر ہ ہے مجھے اس سوال کا جواب نہیں ملتا کہ آخر پی ٹی ایم کے دسترخوان پر وطن دشمن ہی کیوں بیٹھے ملتے ہیں ؟ ان کے ہذیان پر پی ٹی ایم گرفت کیوں نہیں کرتی ؟ پی ٹی ایم کسی ایک ذمہ دار کا نام بتائے جسے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی پر شوکازہی دیا گیا ہو…چلیں شوکاز کو جانے دیں ایسے کسی بیان کی مذمت ہی دکھا دیں کہ جس کے بعد پی ٹی ایم کو مشکوک نظروں سے نہ دیکھا جائے ؟ اسی قومیت کے زہریلے خنجر نے اکہتر میں ہمارا ایک بازو کاٹ ڈالا تھا اب دوبارہ یہی ترکیب آزمائی جارہی ہے سادہ لوح پشتونوں کو دھوکا دے کر اپنے وطن کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے پاکستانی پشتونوں کی اس سرحدی پٹی کو پھرسے گرم کیا جارہا ہے کہ سرحد پار کی یہی چاہ ہے کہ دہلی اور اسکے سرپرستوں کوکم سے کم غیر مستحکم اور اپنے آپ سے نبردآزما پاکستان چاہئے!!