خسارے کی معیشت پاکستان کو ورثے میں ملی تھی۔ تقسیم ِ ہند سے پہلے کیے گئے سروے آف انڈیا میں یہ واضح ہوچکا تھا کہ پانی اور زرخیز مٹی کے علاوہ یہاں کچھ نہیں۔ چنانچہ، تاج برطانیہ نے یہاں کھیتی باڑی کو فروغ دیا۔ جنگلات کاٹ کر رقبے نکالے اور انہیں سیراب کرنے کے لیے دریائوں سے نہریں نکالیں۔ گندم بڑی فصل تھی ، اس لیے بجٹ بھی اس کی کٹائی پر بنتا تھا۔ نئے رقبے یا تو بیچے گئے یا پھر تاج برطانیہ سے وفاداری پر انعام میں دیے گئے۔ جاگیریں اور خانقاہوں کو ہبہ کی گئی زمینیں وراثتی کردی گئیں ۔ دریا خالی ہوئے تو ان کے ذریعے صدیوں سے ہونے والی تجارت بھی ختم ہوگئی۔ نقل و حمل کے لیے ریل گاڑی استعمال کی گئی جس کے ایندھن کا انتظام بلوچستان میں کوئلے کی کانوں سے کیا گیا۔ اس نظام سے تاجِ برطانیہ کو فائدہ ہوا کہ یہاں پیدا ہونے والا غلہ نہ صرف شاہی فوج، جس کا تین چوتھائی پنجاب اور ملحقہ قبائلی علاقوں سے بھرتی کیا جاتا تھا ، کی ضروریات پوری ہوتی تھیں بلکہ وافر غلہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی سپلائی ہوتا تھا۔ معاشرے میں امن و امان کے لیے جا گیرداری نظام کو مضبوط کیا گیا۔ جاگیردار وں کے پاس نہ صرف مجسٹریسی اختیارات تھے بلکہ محصولات کی ذمہ داری بھی انہیں کی تھی۔ تقسیم ہند اور پاکستان بننے کے بعد بھی یہ نظام نہ صرف قائم و دائم رہا بلکہ بھاری قرضوں اور تین مشرقی دریاوں کی قربانی سے سے بنائے گئے ڈیموں کی تعمیر سے اسے مزید وسعت دی گئی۔ اگر سرد جنگ نہ ہوتی اور امریکہ ہماری معیشت کو سہارا نہ دیتا تو ملک کب کا دیوالیہ ہوچکا ہوتا کہ معاشی طور پر اس کے پاس اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی سکت ہی نہ تھی۔ جنگلات کا صفایا ایک تو نہری نظام کے اطلاق سے ہوا تھا، دوسری نوے کی دہائی میں شمالی اور قبائلی علاقہ جات میں بھی پہاڑوں کی چوٹیاں ویران کردی گئیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ دریاوں میں سال کے زیادہ تر حصے میں پانی سرے سے موجود نہیں ہوتا۔ ان کے کے دامن میں موجود قدرتی جھیلیں پانی سے خالی ہیں تو تازہ مچھلی اور لائیو سٹاک بھی مفقود ہے۔ ڈیم اور بیراج بننے سے پہلے دریائے سندھ تھل کے مقام پر بارہ میل کی چوڑائی میں چینلوں کی صورت میں بہتا تھا ، سیلاب کے بعد فصلیں کاشت ہوتی تھیں، قدرتی جھیلوں میں پلنے والی مچھلی اور مویشی پلتے تھے۔ یہی صورتحال دیگر دریاوں کی بھی تھی۔ غذائی تحفظ اور پائیدار معیشت بہتے دریاوں کا خاصہ تھی۔ سندھ ڈیلٹا ، جہاں اب مشکل سے پانی پہنچتا ہے اور اور اوسطاً تین سے چھ ارب ڈالر معیشت کی استعداد رکھتا ہے ، سارا سال بہتے دریاوں کے طفیل آباد تھا۔ دریاوں کا دامن سکڑا ہے تو وہاں (کچے کے علاقوں میں ) زمینوں پر قبضے ہوئے ہیں، بچے کھچے جنگلات کاٹ کر زراعت کاری کی گئی ہے لیکن ڈیزل مہنگا ہونے سے یہ کام بھی گھاٹے کا سودا بن گیا ہے۔ مون سون کے دوران حاصل ہونے والا پانی کے راستے میں جنگلات کی صورت میں کوئی رکاوٹ نہیں تو قدرت کا یہ تحفہ دنوں اور ہفتوں میں چیختا اور چنگھاڑتا، انسانی آبادیوں کو پھلانگتا، مویشوں کو بہاتا اور فصلوں کو روندتا، بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے۔ ڈیم مٹی سے اٹ گئے ہیں تو نہریں کتنا عرصہ چلیں گی۔ اگر چلیں بھی تو کہاں کہاں پانی دیں گیکہ چولستان اور تھل جیسے صحراوں میں زراعت کو فروغ دینے کی مہم ابھی تک جاری ہے اورپانی کے معاملے میں جس کی لاٹھی اور اسکی بھینس والا فارمولا چل رہا ہے۔ ڈیم کیا بننے ہیں ، زمینوں کی خریدار ی اور رہائشی کالونیوں کی تعمیر تک ہی معاملہ محدود رہے گا۔ کمرشل زراعت کو سپورٹ کرنے کے لیے سبسڈی دی جارہی ہے! دنیا کو یہ بتایا جارہا ہے کہ غذائی تحفظ کے لیے ایسا کیا جارہا ہے۔ نہری پانی کمیا ب ہے، بجلی اور ڈیزل مہنگا ہے غذائی اجناس تو مہنگی ہی ہونگی۔ غذائی خود کفالت کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ غذائی تحفظ بھی حاصل ہوگا۔ یوں زراعت کی مد میں دی جانیوالی بارہ ارب روپے کی سبسڈی ایک سیاسی رشوت کے سوا کچھ نہیں۔ خسارے کی معیشت کو دوام بخشنے کے لیے مخصوص قسم کی سیاست چاہیے ۔ اسکی بنیاد بھی اسی وقت رکھ دی گئی تھی جب زراعت کو پائیدار ستوں سے ہٹاکر کمرشل بنیادوں پر استوار کیا گیا۔ ڈیم بنانے اور صنعتوں کے قیام کے لیے قرضوں کی فراہمی سے لیکر ان قرضوں کی ادائیکی تک کے عمل میں ان سیاسی پارٹیوں کا ایک مخصوص کردار ہے۔ اصل نقطہ یہ ہے کہ بجٹ بنے ، مخصوص مد میں خرچ کے لیے پیسے کا انتظام ہو ، بڑھتی آبادی کی ضروریات پورا کرنے کے نام پرقرض لیا جائے اور بس۔ اب سیاسی پارٹیاں سیاست کو کیا رنگ دیتی ہیں اور عوام کو اس میں کیسی الجھاتی ہیں، ا س میں وہ مگر آزاد ہیں۔ خسارے پر چلنے والی معیشت منافہ بخش سیاست کو جنم نہیں دے سکتی۔ بجٹ سیشن کے دوران ہونے والی ہنگامہ آرائی اور بد زبانی اس کا واضح ثبوت ہے۔ اگرچہ سمجھوتا ہوگیا اور وقتی طور پر معاملات کو سنبھال لیا گیا ہے لیکن عقلمند کے لیے اشارہ ہی کافی ہے۔ یعنی سیاسی اشرافیہ شدید اخلاقی بحران کا شکار ہوچکی ہے۔ اتنی اندھی ہوچکی ہے کہ اب اسے معاشرتی اقدار کی تمیز نہیں رہی۔ اخلاقی بحران اتنا شدید ہوچکا ہے کہ نہ اسے اپنی عزت کی پرواہ ہے نہ دوسروں کی۔ اگر مسئلے کو جڑ سے نہ اکھاڑ پھینگا گیا تو شاید بڑھتی سیاسی ناچاقی کے اثرات محض میدانِ سیاست میں اکھاڑ پچھاڑ تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ سٹریٹیجک معاملات بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔ پچھلے تین سالوں میں سفارتی میدان میں لگنے والے جھٹکے اس حقیقت کا بین ثبوت ہیں۔