سٹیٹ بنک نے آئندہ دو ماہ کے لیے ہفتہ کے روز جو مانیٹری پالیسی جاری کی ہے اس کے مطابق جولائی تا مئی مالی سال 2018ء میں جاری کھاتوں کا خسارہ بڑھ کر 16ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے جو کہ گزشتہ برس اس مدت کے دوران 11.1ارب ڈالر تھا جبکہ مہنگائی کی شرح جو ماہ جون میں 5.2تھی خدشہ ہے کہ مالی سال 2019ء کے لیے عمومی مہنگائی کے 6فیصد سالانہ ہدف سے تجاوز کر سکتی ہے۔ گورنر سٹیٹ بنک کا کہنا تھا کہ اب تک معاملات ادھار لے کر چلاتے آ رہے ہیں لیکن اسے جاری رکھنا مشکل ہے اس لیے شرح سود 6.5فیصد سے بڑھا کر 7.5فیصد کی گئی ہے تاکہ طلب کے دبائو کو کم کیا جا سکے۔ مانیٹری پالیسی کے مطابق درآمدات کی ادائیگیوں کے لیے ملکی خزانہ میں ڈالر کم ہے۔ سٹیٹ بنک کی جانب سے دیے گئے اعداد و شمار اس امر کے غماز ہیں کہ ہماری معاشی و مالی حالت اچھی نہیں ہے اور اس میں عوام کے لیے کوئی خوشخبری نہیں ہے ‘دوسری جانب روپے کی قدر میں کمی بھی مہنگائی کا باعث بنی ہے اس طرح خسارے کا بڑھ کر 16ارب ڈالر کی حد تک پہنچ جانا خوشگوار مالی مستقبل کی نشاندہی نہیں کرتا۔ان تمام مالی مشکلات اور مہنگائی کا بوجھ بالآخر عام آدمی کے ناتواں کندھوں پر آن گرتا ہے لہٰذا اس کے لیے ضروری ہے کہ درآمدات پر انحصار کم کر کے برآمدات بڑھانے پر توجہ دی جائے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بنک کی طرف سے 12لاکھ 40ہزار روپے تک کی درآمدات پر پیشگی ادائیگی کی سہولت کے باعث پاکستانیوں نے 75کھرب کی اشیا باہر سے منگوائی ہیں اور بنک نے اب یہ سہولت واپس لے کر اچھا قدم اٹھایا ہے۔ دوسرے ڈالر اور روپے کی مبادلہ پالیسی میں ایسا توازن پیدا کیا جانا چاہیے جس سے روپے کی قدر میں کمی نہ ہو اور عوام کو کم سے کم مہنگائی کا سامنا کرنا پڑے۔