جمہوریت کے اہرمن کے سامنے سجدہ ریز ہوکر ووٹ کی بھیک مانگنے کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ آپ آج پاکستان کی لبرل، سیکولر، کیمونسٹ اور دیگر مذہبی جماعتوں کے منشور اٹھا کر دیکھ لیں، ان سب کے بیرونی ورق اوپر سے پھاڑ دیں، آپ کو سوائے چند ایک سطور کے کسی میں کوئی جوہری فرق نظر نہیں آئے گا۔ سب کے سب دنیا کے گرد گھومتے ہیں۔ وہ دنیا جسے میرے آقا سید الانبیاء ﷺنے مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت قرار دیا ہے۔ آپﷺ نے اسے ایک عارضی مقام، ایک پڑاؤ سے تشبیہ دی ہے۔ دنیا اور اس میں انسان کی بے ثباتی کی اس سے بہتر مثال آج تک کسی فلاسفر، شاعر یا نابغہ روزگار دانشور نے نہیں دی۔ آپ ﷺنے فرمایا ’’عابرالسبیل‘‘۔ جدید دنیا کے حوالے سے اس کا بہترین ترجمہ ٹرانزٹ لاؤنج " "Transit Lounge ہے۔ عرب ’’عابرالسبیل‘‘ کو وہ پڑاؤ کہتے تھے جہاں دور سے آنے والے مسافر کچھ دیر کے لیے سستانے کوٹھہرتے، درختوں کی چھائوں میں آرام کرتے اور پانی وغیرہ پی کر آگے نکل جاتے۔ آج کی دنیا کے سفر میں اس کی مثال، وہ ایئرپورٹ، بس اڈہ یا ریلوے اسٹیشن ہیں، جہاں آپ ایک سمت سے آتے ہیں اور پھر اگلی منزل کے لیے بس، ٹرین یا جہاز پر سوار ہو جاتے ہیں۔ آنے والوں کو بخوبی علم ہے کہ وہ کہاں سے آرہے ہیں اور اگلی منزل سے بھی وہ آشنا ہیں۔ وہ آدمی جو دنیا کے دھندوں اور اس کو اپنی ترقی کا مقصود بنائے ہوئے ہوتا ہے، اس میں اور اللہ پر کامل ایمان رکھنے والے آدمی میں صرف یہی ایک بنیادی فرق ہوتا ہے کہ اللہ اور انبیائﷺ کی باتوں پر یقین رکھنے والوں کا پختہ تصور یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک متعین مقام یعنی عالم ارواح سے اللہ کے اذن سے دنیا میں بھیجے گئے ہیں اور اسی کے حکم سے جب، جس وقت اور جیسے وہ چاہے گا اگلی منزل کی طرف روانہ ہو جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے لئے اس دنیا کی حیثیت ایک ’’پڑاؤ‘‘ جیسی ہوتی ہے وہ اس میں اتنا ہی دل لگاتے ہیں، اپنے لیے اتنی ہی سہولیات اکٹھی کرتے ہیں جتنی ان کی دانست میں زندہ رہنے اور آرام دہ زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔ وہ یہ سہولتیں نہ ملنے پر اپنا جی نہیں جلاتے، کڑھتے نہیں، بلکہ سجدہ شکر ادا کرتے ہیں اور صبر و نماز کے ساتھ اللہ کی مدد طلب کرتے ہیں۔ جبکہ دنیا میں الجھے ہوئے شخص کی مثال اس سے بالکل الٹ ہے۔ وہ ہر روز اس ’’پڑاؤ‘‘ یا ’’ٹرانزٹ لاؤنج‘‘ کی آرائش و خوبصورتی میں اضافے کی تگ و دو کرتا رہتا ہے۔ اپنے ماحول کو ضرورت سے زیادہ خوش رنگ، جاذب نظر بنا تا ہے، کھیل تماشے کا سامان مہیا کرتا ہے، دولت اس قدر جمع کر لیتا ہے کہ آنے والی کئی نسلوں کے لئے کافی ہوتی ہے۔ وہ جب یہ سب کچھ کر رہا ہوتا ہے تو اس کے منہ سے ایک ہی فقرہ نکلتا ہے، ہم نے دنیا کو جنت بنا دیا ہے، جنت بھی اس سے زیادہ کیا خوبصورت اور آرام دہ ہوگی۔ یہی وہ ایمان و یقین ہے جو ان لوگوں کا اس دنیا پر ہوتا ہے اور انہیں کبھی بھی یقین و ایمان کی وہ دولت حاصل نہیں ہوپاتی کہ وہ اللہ کی جنت، اس کی نعمتوں اور اس کے ماحول کو اس دنیا کی جنت پر فوقیت دے سکیں۔ دنیا کو جنت بنانے کا یہی خواب ہے جو جدید جمہوری سیاست کا مرکزی نکتہ اور جدید مغربی طرز زندگی کا آئیڈیل ہے۔ گزشتہ دو سو سال کی جمہوری سیاست جن آدرشوں پر قائم ہے اور جیسے حکمرانوں کو اپنا آئیڈیل سمجھتی ہے ان کا بنیادی مقصد اپنے ملک کو مادی ترقی کے بام عروج پر پہنچانا ہے۔ اس راستے میں ایمان، اخلاق، انسانیت، جو بھی آئے اسے روندتے ہوئے گزر جانا چاہیے۔ اپنی دنیا خوبصورت بنانے کے لیے افریقہ میں بچے قحط سے مر جائیں لیکن ان کے کھیت آپ کے لیے قیمتی فصلیں (Cash Crops ) اگاتے رہیں، عراق میں لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن جائیں، لیکن ان کے تیل کے کنووں سے آپ کے ملکوں تک پائپ لائن چلتی رہے۔ دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ اور کامیاب جمہوری ملک میں انسانی ترقی کی بنیاد کسی دوسرے ملک یا معاشرے کے استحصال پر رکھی گئی ہے۔ لیتھیم اور ٹیٹالین دو ایسی دھاتیں ہیں جن سے کمپیوٹر، موبائل، ٹیلی وژن چلتے اور جہاز نیویگیشن سسٹم کی وجہ سے فضا میں بلند ہوتے ہیں۔ ان دونوں دھاتوں سے دنیا کے ہر جمہوری ترقی یافتہ ملک کی جدید معیشت رواں دواں ہے۔ لیکن جن افریقی ملکوں اور افغانستان میں یہ دھاتیں پیدا ہوتی ہیں وہاں کئی دہائیوں سے جنگ مسلط کی گئی، لاکھوں لوگوں کو ہلاک کیا گیا اور شہر کے شہر برباد کیے گئے ہیں تاکہ ان دھاتوں کا سستا حصول ممکن بنایا جا سکے۔ ان تمام ملکوں میں جمہوری سیاست کی علمبردار پارٹیاں جب اپنا منشور پیش کرتی ہے تو پیرس، لندن، اوسلو، برسلز اور نیویارک کو دلکش بنانے، ان کے شہریوں کو شاندار سہولیات بہم پہنچانے کی بات کرتی ہیں لیکن اس خوشحالی کی قیمت جو غریب ملک اور معاشرے اٹھاتے ہیں ان کا ذکر تک نہیں ہوتا۔ بلکہ ان تمام سیاسی جماعتوں کے منشوروں میں اپنے ہی ملک کے ان اداروں اور طبقات کا بھی ذکر تک نہیں ہوتا جو اس دنیاوی ترقی کے پہیوں تلے روندے جاتے ہیں۔ ان میں خاندان کا ادارہ، ماں باپ کی عزت و احترام، اولاد کی پرورش کا بوجھ، یہ سب تیز رفتار ترقی کی بلٹ ٹرین کے پہیوں تلے کچلے جا چکے ہیں۔ خوفناک اعداد و شمار ہیں، ان کے والدین جو اولڈ ایج ہوم میں ہیں، ان بچوں کے جو بغیر باپ کے نام سے پیدا ہوئے اور کفالت کے لئے اداروں کو دے دیے گئے اور خاندانی زندگی جو انسانی معاشرت کی بنیاد ہے اس کا وجود تک ختم ہو گیا۔ کیوں کہ ان تمام اقدار و روایات پر عمل درآمد کا کوئی دنیاوی اور مادی فائدہ نہیں بلکہ اس کا اجر آخرت میں رکھا گیا ہے، اور آخرت کا خانہ تو جمہوری انتخابی سیاست کا حصہ نہیں ہے۔کون ہے آج کی دنیا میں جو آخرت میں سرخروئی کے نام پر انتخابی سیاست کرتا ہے، شاید کوئی بھی نہیں۔ مدتوں پہلے ہماری انفرادی زندگیوں سے آہستہ آہستہ آخرت کا خانہ خارج ہوا اور اب سیاست سے بھی اسے دیس نکالا مل چکا ہے۔ پاکستان کی جمہوری سیاست بھی اب اپنے اس مادی تصور کے معراج پر پہنچ چکی ہے، جہاں لبرل، سیکولر اور مذہبی سیاسی جماعتوں کے ووٹ کی بھیک مانگنے کے لیے دلکش نعرے صرف اور صرف دنیا کے گرد گھومتے ہیں۔ معاشرتی زوال تو صدیوں سے مسلمان معاشرے میں موجود چلا آرہا ہے کہ ہم اسی شخص کو ہی کامیاب سمجھتے ہیں جس کا گھر، کاروبار، ملازمت اور سرمایہ بہتر ہو، جس کی اولادیں اپنی تعلیم، پیشے اور شادی میں کامیاب ہوں، جس کی معاشرتی اور سیاسی زندگی پررونق ہو، لیکن اس کے مقابلے میں چند لوگ ایسے ضرور تھے اور آج بھی ہیں جو یہ آواز لگاتے ہیں کہ یہ دنیا ایک ٹرانزٹ لاؤنج ہے، یہ پڑاؤ ہے، اصل کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے۔ قرآن پاک کی آیات اور رسول اللہ کی احادیث میں مجھے کہیں یہ ترغیب نظر نہیں آئی کہ اگر تم اسلام قبول کر لو گے تو تمہاری زندگی میں مالی آسودگی، اور مادی آسائش آجائے گی، بلکہ قرآن تو ایمان والوں کی آزمائش سے بھرا پڑا ہے۔ لیکن ووٹ کی بھیک بھی کیا بری چیز ہے، ووٹرز جس طرح کی صدا لگانے پر ووٹ کی بھیک دیتے ہیں، مذہبی جماعتیں بھی وہی صدا لگانے پر مجبور ہو چکی ہیں۔ سڑکیں بنائیں گے، ہسپتال کھولیں گے، ڈیم بنائیں گے، سکول قائم کریں گے۔ ہر سیکولر اور مذہبی پارٹی کے منشور کے آغاز میں اللہ کے دین کی بالادستی حصول برکت کے لئے رکھ دی گئی ہے۔ رسول اکرمﷺکی بیعت سے لے کر حضرت ابوبکرؓ ، حضرت عمرؓ ، حضرت عثمانؓاور حضرت علی رضی اللہ علیہم اجمعین کی بیعت کے الفاظ نکال کر دیکھ لیں ان میں سے دنیا کی خوشحالی اور ترقی سے متعلق ایسا ایک بھی مطالبہ یا وعدہ شامل نہیں ہوگا جو ان پارٹیوں کے منشور میں دیا گیا ہے۔ یہ خسارے کی سیاست ہے، اور میرا اللہ انہیں سب سے زیادہ ناکام اور خسارے میں رہنے والا بتاتا ہے۔ ’’کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں، وہ کہ جن کی سعی و جدوجہد دنیا کی زندگی میں ہی گم ہو کر رہ گئی اور وہ یہ سمجھتے رہے کہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں‘‘ (الکھف 104)۔ یعنی وہ لوگ جنہوں نے دنیا کی کامیابیوں اور خوشحالیوں ہی کو اپنا مقصود بنا لیا۔ وہ دنیا میں اپنی کامیابیوں کو ہی اصل کامیابی سمجھتے رہے۔ لیکن اس آیت کے بعد والی آیت میں جو وعید ہے، جس خسارے کا تذکرہ ہے وہ ڈرا دینے والا ہے۔ اللہ پر ایمان رکھنے والا یہ پڑھ کر خوف سے کانپ اٹھتا ہے ’’یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات ماننے سے انکار کیا اور انہوں نے اللہ کے سامنے پیش ہونے کا یقین نہ کیا۔ اس لئے ان کے سارے اعمال ضائع ہو گئے اور قیامت کے دن ہم ان کا کوئی وزن شمار نہیں کریں گے‘‘ (الکھف 105)۔ اعمال کے ضائع ہونے کا ذکر قران میں دو جگہ پر آیا ہے ایک اگر آپ رسول اکرمؐ کے سامنے بلند آواز سے بولو گے تو ضائع ہو جائیں گے اور دوسرا یہاں جب آپ کی ساری دوڑ دھوپ کا مقصد دنیا کی کامیابی اور خوشحالی کے گرد گھومنے لگے۔ ووٹ کی بھیک بھی کیا لعنت ہے، ووٹروں سے دنیاوی کامیابی و خوشحالی کے وعدے کیے جاتے ہیں، اور اسی دنیا کو جنت بنانے کے خواب دکھائے جاتے ہیں۔ ہے نہ یہ خسارے کی سیاست اور اس سیاست میں کسی لبرل، سیکولر اور مذہبی جماعت کے منشور میں کوئی جوہری فرق موجود نہیں۔