سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے ۔ لیکن مسافر نواز صرف لوگ تھوڑی ہوتے ہیں ۔ہر جگہ کا اپنا حسن اور اپنی خوبصورتی ہوا کرتی ہے ۔ تا حد نظرصحرا کا اپنا جمال ہے اورپہاڑی راستوں کا اپنا حسن ۔ بدلتے منظر ،رچی بسی تاریخ ،مٹی سے جڑی تہذیب۔ بولیوں اور آب و ہوا میں گھلا ہوا تمدن ۔یہ سب وہ پڑاؤ، وہ سرائیں بلکہ خواب سرا ئیں ہیں جہاں مسافر تا دیر قیام کرتے ہیں۔ خدا کی بنائی ہوئی مخلوق، ان کے رسم و رواج ، انکے رہن سہن ، ان کے در و دیوار، ان کے کھانے اور کپڑے، ان کے دکھ اور سکھ ۔کیا کچھ نہیں دیکھنے ،سوچنے اور سمجھنے کو ۔کسی مسافر کی دل بستگی کو کیا یہ مسافر نواز کم ہیں؟۔ کون لوگ ہوتے ہیں ،پتہ نہیں جو ان شہروں سے سرسری گزر جاتے ہیں جہاں قدم قدم پر خزانے دفن ہیں یاہر موڑ سے کوئی تاریخ وابستہ ہے۔ یہ تحریر تو اودے پور اور راجستھان کے سفر سے متعلق ہے لیکن پس منظر کے لیے یہ ذکرکرتا چلوں کہ میرا2019 تک ہندوستان سات آٹھ بار جانا ہوا ہے اوردہلی ،لکھنؤ ،متھرا ،آگرہ ،ممبئی ،سہارن پور ،دیوبند ،تھانہ بھون ،جلال آباد ،گنگوہ ،نانوتہ ،اودے پور، اجمیر، جے پور ،جودھ پور، پٹیالہ، چندی گڑھ،جالندھر ، امرتسر ،انبالہ سمیت کافی چھوٹے بڑے ہندوستانی شہروں میں جاچکا ہوں۔ٹرین یا بس کے سفر کے دوران جن شہروں سے گزرنا ہوا وہ ان کے علاوہ ہیں۔ 1998میں پہلی بار بھارت کے سفر سے اب تک ان میں سے کچھ شہروں میں ایک بار اور بعض شہروں میں بار بار جانے کا موقع ملا ۔میرا ارادہ ہے کہ ان دیگر سفروں کی روداد بھی کسی وقت لکھوں۔ دہلی بھی ان شہروں میں ہے جن میں میرا کئی بار جانا ہوا ہے۔پرانی دلی تو بذات خود ایک مکمل شہر ہے اور اس نگار کے اپنے نقش اور اپنے رنگ ہیں۔نئی دہلی بھی اپنی وسعت ۔ رنگارنگی اور مختلف خد وخال میں ایک بڑا شہر ہے۔اس کی ملحقہ نئی آبادیوں مثلاــ نوئیڈا (جہاں باکمال ناول نگار قرت العین حیدر رہتی تھیں)اور غازی آباد کی بات کریں تو انہیں دیکھنے کے لیے بھی پورا پورا دن درکار ہے۔یہی حال بستی نظام الدین کا ہے جسے دیکھنے اور قریبی عمارات کی سیر کے لیے ایک دن ناکافی ہے۔ بستی نظام الدین سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء کی بسائی ہوئی اور انہی کے نام سے منسوب بستی ہے۔پرانی دلی سے کوئی قریب قریب20کلو میٹر دور ۔لیکن اس وقت کا تصور کریں جب یہ بسی ہوگی تو اس وقت کے ذرائع آمد و رفت اور آبادی کے لحاظ سے گویا کوسوں دور۔میں مغل دور کی دلی اور شاہجہان آباد کا ذکر نہیں کررہا۔اکبر سے بھی تین صدیوں پہلے کا ذکر کر رہا ہوں۔ذرا تیرھویں صدی کی دلی اور مضافات کا تصور کریں۔شاید اس وقت نظام الدین کے قریب ترین بستی مہرولی رہی ہوگی اور نزدیک ترین عمارت قطب مینار جس کی اس وقت ابتدائی تین منزلیں ہی تعمیر ہوسکی تھیں۔حشرات الارض سے بھرے ایک مہیب ویرانے اور درندوں سے بھرے ایک ہولناک جنگل کے علاوہ کیا رکھا تھا اس زمین میں جب ایک درویش نے یہاں کٹیا بسائی اور چراغ روشن کیا۔لیکن ایک نظام الدین پر کیا موقوف۔ہر جگہ اہل دل نے ویرانوں ہی کو آباد کیاہے۔ نظام الدین اولیائ۔ذرا اس لفظ ’ ’ اولیاء ‘‘ پر غور کریں۔یہ جمع کا صیغہ ایک شخص کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔اولیاء دراصل ولی کی جمع ہے چنانچہ ایک شخص کے لیے استعمال نہیں ہوسکتا۔لیکن درحقیقت یہ لفظ یہاں جمع کے طور پر نہیں، صیغۂ مبالغہ کے طور پر استعمال ہوا ہے یعنی بہت بڑا ولی۔اردو کے علاقائی لہجوں میں اور پنجابی میں بھی عوامی زبان میں یہ چلن معروف ہے۔ کہا جاتا ہے وہ شخص بڑا اولیاء ہے۔ یعنی بڑا ولی ہے۔شاید اس علاقائی محاورے کی اردو میں کچھ مثالیں اور بھی مل سکیں۔کیا زبان و ادب کے ماہرین توجہ فرمائیں گے ؟ اوراب یہ بستی نظام الدین بذات خود بے شمار تاریخی عمارات کی کہکشاں ہے۔درگاہ حضرت نظام الدین کی طرف چلیں تو تنگ بازار میں بائیں ہاتھ غالب کا مزار ہے۔اس کی بغل میں مزار کی کسٹوڈین غالب اکیڈمی ہے، جہاں ہر بار دلی آمد پر میں کئی ادبی پروگراموں میں شرکت کرچکا ہوں۔درگاہ کے اندرکیسے کیسے آفتاب مٹی اوڑھے سو رہے ہیں۔ مٹی کی ڈھیریوں تلے پورا شہر آباد ہے اور زیر خاک بھی چراغوں کا ایک قبیلہ روشن ہے۔ اک میرا ٹھکانہ ہے تہ چادر افلاک اک میرا محلہ پسِ دیوار فنا ہے (احسان دانش) درگاہ کے علاوہ بھی اسی علاقے میں ہمایوں کا مقبرہ ( جو مجھے تاج محل کی ابتدائی شکل محسوس ہوتی ہے )،مقبرہ عبد الرحیم خان خاناں(جی ہاں وہی معروف سخی اور کشادہ دست خانخاناں)،مقبرہ عیسیٰ خان، باؤلی نظام الدین وغیرہ موجود ہیں۔کچھ فاصلے پر قطب مینار، مسجد قوت الاسلام، لوٹس ٹیمپل وغیرہ بھی ہیں لیکن ان کا ذکر کسی اور وقت سہی ۔ نومبر 2006کے جس سفر کا ذکر میں کررہا ہوں اس میں میزبان ہمیں ائیرپورٹ سے سیدھے بستی نظام الدین میں راج دُوت ہوٹل لے آئے جہاں انہوں نے ہم سب کے قیام کا انتظام کیا ہوا تھا۔راج دُوت یعنی سفیر۔متوسط انداز کا یہ ہوٹل میرا جانا پہچانا تھا میں پہلے بھی اس میں ٹھہر چکا تھا۔اور مجھے وہ جملہ بھی یاد تھا جو پہلی بار ٹھہرنے پر ہوٹل کے مالک ، ہنس مکھ اور خوش مزاج لالہ جی نے مجھ سے کہا تھا۔انہیں معلوم ہواکہ میں پاکستان سے آیا ہوں اور مشاعروں میں شرکت کروں گا تو پہلے تو انہوں نے مشاعروں سے اپنی دل چسپی کا اظہار کیا اور بتایا کہ جوش ملیح آبادی سمیت بہت سے نامور شاعر یہاں ٹھہرتے رہے ہیں۔پھر انہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولے ۔’ ’ میرے یہاں آرام سے رہیے گا۔سارے بھائی صاحب یہیں ٹھہرتے ہیں ۔ اور حلال کی چنتا بھی مت کیجیے گا ۔ میں سارا گوشت بھائی صاحبوں سے خریدتا ہوں ‘‘ ۔ بھائی صاحب کی یہ تعریف اتنی نئی اور بے ساختہ تھی کہ میری ہنسی نکل گئی اور ساری فکر واقعی دور ہوگئی ۔اب میں اور امجد اسلام امجد صاحب اس سفرمیں یہاں پہنچے تو لالہ جی موجود تھے اور انہوں نے بھر پور انداز میںہمارا سواگت بھی کیا ۔ اب یاد نہیں عازم گروندر سنگھ کوہلی ہمیں ائیر پورٹ لینے آئے تھے یا یا ہوٹل پہنچے تھے۔گروندر کوہلی دہلی میں مقیم سکھ سردار ہیں ۔ہندوستان کے اردو شاعروں میں نمایاں ہیں اور بین الاقوامی مشاعروں میں بھی شرکت کرتے رہتے ہیں۔امجد صاحب سے کوہلی کی پرانی دوستی ہے اور سچ یہ ہے کہ اس بے تکلف ،خوش مزاج اورہنس مکھ سردار نے میرے دل میں بھی گھر کر لیا۔ جلد ہی گپ شپ اور جملے بازی نے ابتدائی تعارف کی جگہ لے لی اوراندازہ ہوگیا کہ آگے کا راجستھان کا سفر کوہلی کے ساتھ بہت مزے کا گزرنے والا ہے ۔اس شام کی ایک بات اب بھی یاد آتی ہے تو اپنی حماقت پر شرمندہ ہوجاتا ہوں۔چائے پر میں نے اپنے لیے سگریٹ نکالی تو ایک سگریٹ بڑے خلوص سے گروندر کوہلی کو بھی پیش کردی۔کوہلی نے پہلے سگریٹ کو دیکھا پھر مجھے،پھر امجد صاحب کو ،پھرایک بار میرے چہرے کو غور سے دیکھا۔پھر ایک منٹ خاموشی کے بعد اس گھمبیر لہجے میں کہا ۔ ’ ’ سعود بھائی ۔ مجھے تو یہ سگریٹ تم نے پیش کردی ہے ۔ خدا کے لیے کسی اور سردار کو پیش نہ کردینا۔بڑی مار پڑے گی ‘‘ ۔اب بندہ بے خیالی کو کتنی ملامت کرے کہ علم تو تھاکہ سکھ مذہب میں تمباکو نوشی سختی سے ممنوع ہے لیکن اس وقت ذہن سے نکل گیا تھا۔لیکن اس ڈانٹ کے بعد ہمیشہ یاد رہا۔