سید محمد لطیف (شمس العلما،خان بہادر ،جج)’’ تاریخ لاہور‘‘میں’’بادشاہی مسجد‘‘کے عنوان کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ:’’اس مسجد کا پتھر دراصل داراشکوہ نے اپنے روحانی پیشو ا حضرت میاں میرؒ کی قبر پر مقبرہ تعمیر کرنے کے لیے اکٹھا کیا تھا۔اس سے قبل کہ وہ اپنے منصوبہ کو عملی جامہ پہناتا،اس کے چالاک بھائی اورنگ زیب نے تخت وتاج سنبھالتے ہی اسے موت کے گھاٹ اتار دیا اور سارے پتھر اور سازوسامان کو قبضہ میں لے کر اپنے نام سے تعمیر ہونے والی مسجد کی تعمیر میں استعمال کر لیا‘‘۔کنہیا لال ہندی اپنی معروف تصنیف’’تاریخ لاہور‘‘میں’’بادشاہی مسجد‘‘کے عنوان کے تحت لکھتا ہے کہ :’’باعث تعمیر اس مسجد عالی شان کا یہ ہوا کہ بہ وقت سلطنت شاہ جہاں بادشاہ کے جب پنجاب کی حکومت داراشکوہ کو تفویض ہوئی تو اس نے عمارتیں بہت (تعمیر) کیں ۔پہلے چوک بنوایا ،پھر عالی شان عمارت اپنے دادا مرشد میاں میر بالا پیرؒ کے روضے کی تعمیر کی۔پھر مُلّا شاہ قادری ؒاپنے مرشد کا روضہ بنوایا جس کے احاطے میں اب موضع میاں میر ایک گاؤںآبادہے۔اس عمارت کے اختتام پر پتھر بہت بڑھ رہا تھا اور اس کا ارادہ تھا کہ چوک دارا شاہ سے میاں میر کے مقبرے تک ایک سڑک سنگِ سرخ کی ایسی مصفّاوپاکیزہ بنوائے کہ روز سلام کے واسطے پا برہنہ وہاں جایا اور آیا کرے اور اس سڑک پر سوائے شہزادے کے اور کوئی آمدورفت نہ کرے ۔یہ ارادہ ابھی پورا ہونے نہیںپایا تھا کہ عالم گیر اورنگ زیب نے باپ پر غالب آکر اس کو قید کر لیا اور داراشکوہ، اپنے بھائی ،کو قتل کر ادیا اور حکم دیا کہ موجود پتھر کی ایک جامع مسجد بنائی جائے۔اور فدائی خاں کو کہ (کو) مسجد کی تعمیر کا مہتمم مقرر کیا۔اس نے بہ کمالِ جاں فشانی اس مسجد کو بنوایا‘‘۔ بعض تذکرہ نگار جیسے ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی اور نقوش’’لاہور نمبر‘‘نے مذکورہ معتبر اور مسلمہ مؤرخین کی آراء کے برعکس نقطہ نظر بھی اختیار کیا ہے۔اس سلسلے میں نقوش کے مضمون نگار نے زیادہ تفصیل میں جانے کی سعی کی ہے۔انہوںنے’’حضرت میاں میرؒ‘‘کے عنوان کے تحت، اس ضمن میںلکھا ہے کہ ’’سنگ سرخ کی وجہ سے حضرت میاں میرؒ کے روضہ اور بادشاہی مسجد کا تعلق بتایا جاتا ہے،عام روایت یہی ہے اور اسی کو مصنف’’تاریخ لاہور‘‘،’’تحقیقات چشتی‘‘،’’ہسڑی آف لاہور‘‘نے بھی لکھا ہے کہ داراشکوہ نے اپنے پیشوا حضرت میاں میرؒ کے مزار کی تعمیر کے لیے جو سنگ سرخ جمع کیا تھا، جب عالمگیر نے داراشکوہ کا خاتمہ کر دیا تو اس نے یہ پتھر یہاں سے اُٹھوا کر شاہی مسجد کی عمارت میں صرف کر دیا۔ لیکن یہ روایت اس لیے غلط ہے کہ حضرت میاں میرؒ کا انتقال ۱۶۳۵ء میں ہوا تھا۔داراشکوہ کا قتل۱۶۵۹ء کے اواخر میں ہوتا ہے۔کیا۲۴۔۲۵سال کے عرصہ میں وہ ان کا مزار تعمیر نہ کرا سکتا تھا اور پتھر اس نے یونہی رکھ چھوڑا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ حضرت میاں میر ؒ کا مزار داراشکوہ کی زندگی ہی میںاس کے اہتمام سے تیا رہو چکا تھا،جیسا کہ لاہور کے نامور محقق مولانا علم الدین سالک ایم اے لکھتے ہیں کہ اس عمارت کی وضع بالکل شاہ جہانی عمارات سے ملتی ہے،وہی نقش ونگار،وہی رنگ آمیز یاں۔ایسی حالت میں یہ کہنا کہ مزار حضرت میاں میرؒ کا تمام پتھر بادشاہی مسجد کی عمارت میں صرف کیا گیا،حقیقت سے دور ہے‘‘۔’’نقوش لاہور‘‘کے فاضل مقالہ نگار یہ اعتراف سو فیصد درست ہے کہ حضرت میاں میرؒ کا مزار داراشکوہ کی زندگی میں اُسی کے اہتمام سے تیار ہو چکا تھا ۔دیگر معتبر مؤرخین اور مسلمہ تاریخ نگار بھی اس پر متفق ہیں،اس میں ہر گز دو آراء نہیں ہیں۔تاہم خانقاہ کی جو عمارتیں داراشکوہ کے قتل کے سبب بچ رہیں، ان میں سے بعض کی تکمیل اورنگ زیب کے ہاتھوں بھی عمل میں آئی۔دراصل یہ پتھر’’سنگ سرخ‘‘جس کے بارے میں لکھا جا رہا ہے کہ و ہ بادشاہی مسجد کی تعمیر کے لیے وہاں سے اُٹھوا کر شاہی قلعہ کے غرب میں لایا گیا۔داراشکوہ اس پتھرسے،قلعہ سے لے کر حضرت کے مزارتک ایک ایسی کشادہ اور خوبصورت سڑک تعمیر کروانا چاہتاتھا جس پر وہ روزانہ پیادہ پا مزار پُرانوار پر حاضری دینے کی سعادت حاصل کر سکے ۔ اس عظیم منصوبے کے لیے کثیر التعداد’’سنگ سرخ اور سنگ مرمر‘‘باہر سے منگوایا۔اب یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ خانقاہ کی بنیادی ضرورت کے حوالے سے ایک خاص سطح تک کی جو تعمیرات تھیں،داراشکوہ ان کا اہتمام کر چکا تھا ۔تاہم وہ حضرت میاں میر ؒ سے،جس نوعیت کی منفرد عقیدت وارادت رکھتا تھا اس کے اظہار کے لیے جو توسیعی منصوبے اُس کے ذہن میں تھے، ان میں سے ایک منصوبہ’’شاہی قلعہ سے مزار شریف تک‘‘سڑک کی تعمیر کا بھی تھا۔یہ سڑک کم ازکم بھی ہوتی تو 8کلومیٹر لمبی ہوتی اور یقینا اس کی تعمیر شاہی اندازواعزاز کے ساتھ ہوتی۔نیز یہ کہ لاہو رکے نقشہ پر اس کے کیادوررَس اثرات مرتّب ہوتے اور داراشکوہ کو اس سے کیسی جاودانی میسر آتی،اس کا اندازہ لگانا زیادہ دشوار نہ ہے۔نیز یہاں یہ امر بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ حضرت میاں میرؒ کے وصال کے وقت داراشکوہ کی عمر تقریباً 20سال تھی ۔ملّا شاہ بدخشی ؒکے ہاتھ پر اس نے تقریباً 25 سال کی عمر میں بیعت کی۔داراشکوہ کو مارچ ۱۶۴۷ء میں پنجاب کی صوبیداری میسر آئی لیکن اس دورانئے میں زیادہ تر وہ شاہی دربار کے ساتھ ہی وابستہ رہا۔تاہم پنجاب کی اس صوبیداری کے سبب اسے لاہور پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے اور روحانی اشغال کو فروغ دینے کا موقع دستیاب رہا ،جس کی بنیادی وجہ حضرت میاں میرؒ کے ساتھ اس کی عقیدت وارادت تھی۔لاہور کے اس قیام کے وقت اس کی عمرتقریباً بتیس سال ہو گئی۔یقینا عمر کا یہ حصہ شعوری اور ذہنی بلوغت کے اعتبار سے بھی اہم تھا۔انہی سالوں میں حضرت میاں میرؒ کے مزار کی مناسبت سے خانقاہ کی دیگر عمارتوں کی تعمیر کے علاوہ اس نے اپنی شہرہ آفاق تصانیف ’’سفینۃ الاولیائ‘‘اور’’سکینۃ الاولیائ‘‘تحریر کی،جس کے بارے میں یہ روایت بھی ہے کہ اوّل زمانہ اس کے بعد کا ہے۔یہ دونوں کتابیں بھی بالخصوص برصغیر کی متصوفانہ تاریخ میں منفرد نوعیت کی حامل ہیں اور ان کو مستند ماخذ کا درجہ دیاجاتا ہے ۔ حضرت میاں میرؒ کے حالات جمع کرنا اور ان کو آنے والے دور کے لیے تاریخی اور تحقیقی دستاویز کے طور پربہم پہنچانا بھی کوئی کم کا رنامہ نہ ہے۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اگر داراشکوہ کی یہ تصانیف نہ ہوتیں تو شایدحضرت میاں میرؒ کے احوال سے آگاہی کے سلسلے میں محققین تشنہ رہتے۔۱۶۵۷ء میں شاہجہاں بیمار ہو کر صاحب فراش ہوا تو ناامیدی کی حالت میں اس نے قابل اعتماد درباریوں اور اعلیٰ احکام کو بُلا کر وصیّت کی کہ آئندہ کا بادشاہ داراشکوہ ہو گا ،اس کی اطاعت کی جائے۔شاہ جہاں کی بیماری اور تخت نشینی کی معرکہ آرائیوں کے حوالے سے داراشکوہ کی زندگی کے آخری سال خونی جنگوں،درماندگی او ر صحرا نوردی کی نذر بھی ہوئے،جس کا شہزادگی کے ایام میں اندازہ لگانا شاید اُس کے لیے مشکل ہوگا۔ ایک عظیم الشان سلطنت کا ولی عہد ہونے کے سبب یقینا آنیوالے دور کے لیے اس نے اپنے ذہن میں اور بھی کئی منصوبے رکھ چھوڑے ہو ں گے۔تاہم قضاوقدر کے فیصلے اپنے ہوتے ہیں۔اورنگ زیب،شجاع اور داراشکوہ کے درمیان تخت نشینی کا آخری معرکہ ۱۵؍اپریل ۱۶۵۸ء کو آگرہ سے آٹھ میل سے دور سامو گڑھ میں ہوا جس میں نہ صرف داراشکوہ کو شکست ہوئی بلکہ اس کا چند روزہ تخت وتاج بھی چھن گیااورہندوستان کی بادشاہت کا فیصلہ اورنگ زیب کے حق میں ہوگیا ۔ یوںداراشکوہ کو برصغیر کی شاہی نصیب نہ ہو سکی اور وہ ۱۶۵۹ء میں صرف 44سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہو گیا۔