میاں نواز شریف نے فرمایا ہے کہ عمران خان کا وقت پورا ہوچکا جلد انجام کو پہنچنے والے ہیں، یہ با لکل اس نجومی والی پیش گوئی ہے جو سڑک پر بد حال بیٹھا ہوتااور لوگوںکو مستقبل کے سہانے خواب دکھا رہا ہو تا ہے یا محبوب آپ کے قدموں جیسے عامل جنکو گھر سے دھکے پڑے ہوتے ہیں وہ دوسروں کے گھر آباد کرنے کا گر جاننے کے دعویدار ہوتے ہیں۔ نواز شریف خود ایک کرپشن کے مقدمے میں سزا کاٹ رہے ہیں جبکہ کچھ اور مقدمات انکے خلاف عدالتوں میں موجود ہیں۔ پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہونے اور کسی بھی سیاسی عہدے پر وہ قانوناً متمکن نہیں ہو سکتے۔یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں لیکن سیاسی قوت کے طور پر اسکے قریب قریب ضرور ہیں۔میاں صاحب بھلے اپنے اس دعوے پر یقین رکھنے کی کوئی وجہ بھی نہ بتا سکیں لیکن یہ انکی سیاسی مجبوری ہے۔ جس صورتحال میں وہ اس وقت ہیں اور انکی جماعت جس ابتلاء سے گزر رہی ہے اس میں یہی وہ واحد ترکیب ہے جس سے اپنے جماعتی ساتھیوں خصوصاً اہم عہدیداروں بشمول چھوٹے بھائی صاحب کو حوصلہ دیا جائے کہ بس صبح گیا کہ شام گیا۔یہی حکمت عملی انکے ہم خیال مسلم لیگ (ن) کے عہدیدار اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ آئے دن عمران خان اور انکی حکومت کے جانے کی تاریخیں دے رہے ہوتے ہیں۔لیکن وفاقی دارلحکومت کی آب و ہوا بتاتی ہے کہ معاملہ کچھ اور ہے ، عمران خان کا وقت جب بھی پورا ہودیگر بہت سے لوگ اپنے انجام کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔بھلے وہ کرپشن کے مقدمات کی صورت ہو یا پھر سیاسی میدان میں غلط فیصلوں کی وجہ سے ہو۔ ؑعمران خان کے حالیہ قوم سے خطاب سے تو نہیں لگتا کہ وہ کسی قسم کے دبائو کا شکار ہیں یا انہیں کوئی ایسا اشارہ ملا ہے کہ وہ انجام کے قریب ہیں۔ انکے بیان کے جس حصے کی توضیح انجام کے صورت میںکی جا رہی ہے وہ شاید انکا یہ کہنا ہے کہ چاہے میری جان چلی جائے میں ان چوروں اور ڈاکوئوں کو نہیں چھوڑوں گا۔ یہ ضرور ہے کہ وزیر اعظم نے بہت جذباتی انداز میں تقریر کی اور اسکی بنیادی وجہ کئی ماہ سے انکے خلاف جس قسم کی اپوزیشن کی طرف سے ہرزہ سرائی کی جا رہی ہے اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں انکی شمولیت کے وقت رو یہ ہے۔ یقیناً یہ تقریر ایک غصے سے بھرے ہوئے شخص کی تھی جس کے اندر کئی ماہ کا غبار جمع تھا ۔ لیکن انکا چوبیس ہزار ارب روپے کے قرض کے استعمال کے حوالے سے کمیشن کے قیام کا اعلان کوئی جذباتی فیصلہ نہیں ہے۔ اسکے لئے باقاعدہ بہت عرصے سے کام ہو رہا تھا اور اسکی تشکیل بہت سوچا سمجھا فیصلہ ہے۔ اسکا پہلا مقصد ان وجوہات کا پتہ چلانا ہے کہ اس قدر قرض حاصل کرنے کے باوجود ملک میں کسی بھی شعبے میں بہتری خصوصاً عام آدمی کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور نہ ہی ملک میں اس قرض کی رقم سے کوئی بہت بڑا منصوبہ مکمل کیا گیا۔ان قرضوں کا بنیادی مقصد یہی رہا ہے کہ ملک کی خراب معاشی صورتحال کو بہتر کیا جائے لیکن سالہا سال سے اندرونی اور بیرونی قرضوں کی بھرمار کے باوجود ملک کی معیشت خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔بیشتر بڑے ترقیاتی منصوبے سی پیک کے تحت بن رہے ہیں یا پھر غیر ملکی پرائیویٹ کمپنیاں جس میں بیشتر چین سے تعلق رکھتی ہیں سرمایہ کاری لیکر آئی ہیں۔ دوسرا مقصد ان قرضوں کے استعمال میں ہونے والی کوتاہی یا غلط منصوبہ بندی کی نشاندہی ہے تا کہ مستقبل میں اسکا تدارک کیا جا سکے۔اس دوران اگر ان قرضوں کے افراد یا اداروں کی طرف سے غلط استعمال کی نشاندہی ہوتی ہے تو اسکے معاملات متعلقہ اداروں ، جس میں ایف آئی اے اور نیب شامل ہیں انکو بھیجے جائیں۔اس کمیشن کو غیر جانبدار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ موجودہ حکومت کے پہلے سال میں لئے گئے اندرونی اور بیرونی قرضے کے استعمال کا حساب بھی کیا جائے ۔ اب کچھ بات بجٹ کے حوالے سے۔ حکومت اپنا دوسرا لیکن در اصل پہلا خالصتاً تحریک انصاف کا بجٹ پیش کر چکی ہے ۔ یہ ایک الفاظ کا گورکھ دھندا ہوتا ہے جسے آئینی ذمہ داری کے طور پر ہر حکومت کو پورا کرنا ہوتا ہے۔اس میں جو اقدامات تجویز کئے گئے ہیں ان پر ملا جلا رد عمل آ رہا ہے۔بہتری کے اقدامات پر عملدرآمد ہی بجٹ کے کامیاب ہونے کی دلیل ہو گا۔مہنگائی کی صورت اس بجٹ میںبحرحال موجود ہے۔ عوام یہ مشکل بھی سہہ لینگے اگر اسکے نتیجے میں ہم ملک کی معاشی صورتحال کو مستقل بنیادوں پر اس ڈگر پر لانے میں کامیاب ہو جائیں جہاں دوبارہ ہمیں قرض نہ لینا پڑے اور عوام کی صحت، تعلیم اور روزگار کی صورتحال میں نمایاں بہتری آئے۔حکومت کا سب سے بڑا امتحان ٹیکس وصولی کا ٹارگٹ ہے۔ اب تک ایسا نہیں ہوا کہ کوئی بھی حکومت مقرر کردہ ہدف حاصل کر پائی ہو بلکہ اسکے قریب بھی پہنچی ہو۔ یہ ضرور ہوتا ہے کہ جعلی اعداد و شمار کے ذریعے اور کچھ بڑی کمپنیوں سے دو سال تک کے ایڈوانس ٹیکس لے کر مقررہ ہدف کے قریب تر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔وزیر اعظم نے اپنے مقرر کردہ چئیرمین ایف بی آر شبّر زیدی کی حالیہ خطاب میں بھی تعریف کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ وہ ان سے ملکر صورتحال کو بہتر بنانے کی بھر پور کوشش کرینگے۔ سابق وزیر خزانہ اور پی ٹی آئی کے پوسٹر بوائے اسد عمر کے بارے میں بھی انکے یہی خیالات تھے لیکن پھر انہیں اسد عمر سے چھٹکارا پاتے ہی بنی۔ شبّر زیدی کا کام سب سے مشکل ہے ۔ پاکستان جیسے ملک میں لوگوں کو ٹیکس کی ادائیگی پر مائل کرنا وہ بھی ایف بی آر کے ایک انتہائی کرپٹ ڈھانچے کی موجودگی میں۔اگرچہ چیئرمین ایف بی آر اندر کے بھیدی ہیں لیکن دوسری طرف بھی ایک مضبوط مافیا موجود ہے جسکی جڑیں انکے ادارے کے اندر بھی ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ چھ ماہ بعد شبّرزیدی بھی اسد عمر جیسے انجام سے دوچار ہوں۔ اگریہ ہوتا ہے تو اپوزیشن کے اس دعوے کو تقویت ملے گی کی پی ٹی آئی کی حکومت کے پاس معیشت کی بہتری کا کوئی منصوبہ نہیں ہے اور عوام بھی حکومت کا گریبان پکڑنے میں حق بجانب ہونگے۔