عمران خاں خطرے کو خاطر میں لاتے کب ہیں؟ لیکن خطرہ تو موجود تھا اور ہے‘ خصوصاً1996ء کے بعد جب انہوں نے عملی سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کیا، تو وہ بہت سے اہم اور بااثر لوگوں کے لئے خطرہ بن کر آئے تھے، وہ سب جن کے لئے یہ محض سیاست میں مقابلہ بازی کا کھیل نہیں تھا بلکہ یہ ان کا کاروبار بھی تھا‘ خاندانی کاروبار میں جس پر دو خاندانوں کی اجارہ داری تھی‘ سیاست کے میدان میں نئے حریف کی شرکت تو قبول ہو سکتی تھی اور کاروبار میں بھی شاید ایک شمولیت ممکن بنائی جا سکتی تھی لیکن نئے حریف نے سیاست کو کاروبار سے الگ کرنے اور دولت و کاروبار کو اخلاقی اصول اور قانون کے مطابق بنانے کا عہد باندھا تھا، یہی عہد دشمنی کا سبب بن گیا۔ شروع میں اس کی اپیل زیادہ موثر نہیں تھی، اس لئے اسے نظرانداز کیا جاتا رہا لیکن مشرف کے مارشل لاء کے بعد احتساب کے خوف سے اجارہ دار خاندان ملک سے فرار ہو گئے اور مشرف نے اپی سیاسی پارٹی کھڑی کر لی تو 9/11کے بعد امریکہ کی سرپرستی ملنے کے نتیجے میں مشرف نے بھی اپنے کالج فیلو طارق عزیز کے ایما پر وہی کچھ شروع کر لیا جو ان سے پہلی دونوں پارٹیاں کرتی آئی تھیں‘ عدلیہ بحالی تحریک میں عمران خاں کا کردار اور اثرورسوخ بڑھنے لگ، اس نے حکومت اور سرپرست امریکہ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنی تنقید کا موضوع بنایا‘اندرون ملک اس کے اثرات ظاہر ہونے لگے‘ چیف جسٹس کے دورے اور وکلاء تحریک میں عوام کی شرکت روز افزوں تھی‘ عمران خاں نے کراچی میں ایم کیو ایم کی دہشت اور غارت گری پر کھل کر بات کی اور اس کے لندن میں فرار قائد کے خلاف انگلینڈ میں کارروائی کرنے کا اعلان کیا، تو مشرف اور ایم کیو ایم دونوں کیمپ میں کھلبلی مچ گئی کیونکہ وہ انگلینڈ میں عمران خاں کی مقبولیت اور اثرورسوخ سے واقف تھے… ’’تب پہلی بار اس کی زندگی کو براہ راست خطرہ لاحق ہوا‘‘ یہ خطرہ کسی اور طرف سے نہیں مشرف سے تھا۔ احسن رشید(مرحوم) اور راقم الحروف لاہور سے اسلام آباد جا رہے تھے‘ عمران خاں نے بنی گالہ میں چند لوگوں کو مشورے کے لئے بلوایا تھا‘ موٹروے پر بھیرہ انٹرچینج سے ذرا پہلے احسن رشید صاحب کے موبائل فون پر کال موصول ہوئی جو صاحب بھی فون کرنے والے تھے وہ بلا تمہید بولے میں آرمی آفیسر ہوں‘ اس وقت لاہور چھائونی سے بول رہا ہوں‘جو نمبر آپ کی سکرین پر ہے یہ میرا نہیں اس لئے جوابی فون بھی نہ کیجیے‘ میرا پیغام عمران خاں کے لئے ہے‘ ان کا نمبر کہیں سے لیا تھا مگر وہ نہیں مل پایا‘ عمران خاں ہمارے ہیرو ہیں‘ آپ انہیں پیغام دیں کہ ’’ان کی زندگی خطرے میں ہے‘‘قابل اعتماد حفاظتی بندوبست کو یقینی بنائیں‘ گزشتہ شب پرویز مشرف جو اپنے خاص مشاغل کے دوران حالت جوش میں تھے۔انہوں نے اپنے دوست جنرل جو ان کے ساتھ شریک تھے کہا ہے کہ ’’عمران خاں ہمارے لئے مصیبت بنتا جا رہا ہے‘ اس سے چھٹکارہ کرو یہ بہترین موقع ہے، سارا الزام الطاف حسین اور ایم کیو ایم پر آئے گا کیونکہ ان دونوںکے مابین خوب ٹھنی ہوئی تھی۔احسن رشید صاحب کو جس نمبر سے فون آیا وہ لاہور پی ٹی سی ایل کے لینڈ لائن کا تھا‘ راقم کے اصرار پر احسن صاحب نے جوابی فون کیا تو وہ نمبر لاہور چھائونی میں واقع پبلک کال آفس کا تھا‘ فون سننے والے نے کہا میں نہیں کوئی صاحب تھے جنہوں نے فون کیا، ہم انہیں نہیں جانتے‘ بنی گالہ پہنچے‘ عمران خاں کو صورت حال سے آگاہ کیا تو کہنے لگے‘ ہاں کچھ اطلاع میرے پاس بھی ہیں لیکن ہم کر ہی کیا سکتے ہیں؟ سب اللہ کے ہاتھ میں ہے‘ جو ہو گا دیکھا جائے گا‘ یہیں پر یہ موضوع ختم ہو گیا۔دوسری اطلاع بھی انہی دنوں کی تھی یہ بھی احسن رشید کو بذریعہ فون دی گئی‘ حسن اتفاق سے اس وقت بھی ہم چند دوست اکٹھے تھے یہ فون اسلام آباد سے تھا یہ بھی کوئی فوجی افسر تھے‘ بتایا گیا تھا کہ افریقہ کے کسی ملک غالباً سائوتھ افریقہ سے تین شوٹر بلوائے گئے ہیں یہ خطرہ ایم کیو ایم کی طرف سے تھا لیکن ان اطلاعات نے عمران خاں کو ذرا بھی متفکر یا متاثر نہیں کیا۔خفیہ اداروں کی اطلاعات اور معلومات اپنی جگہ جو لوگ میدان میں برسرکار ہوتے ہیں،انہیں خود بھی آنے والے حالات‘خطرات اور واقعات کا اندازہ ہونے لگتا اور بعض غیر روائتی ذرائع بھی خود بخود بروئے کار آنے لگتے ہیں۔چھٹی حس بھی حساس ہو جاتی ہے وہ بھی متنبع کرتی رہتی ہے‘ ایک غیر روائتی ذریعہ ہمارے دوست پروفیسر غنی بھی ہیں‘ ’’اسٹرالوجی‘‘ میں ان کی مہارت حیران کن ہے‘ میرے دوستوں کے بارے‘ خاص طور جن کی تاریخ پیدائش ان کے پاس محفوظ ہے وقتاً فوقتاً خاص طور پر کسی خطرے کے بارے ضرور خبردارکرتے رہتے ہیں ’’23اکتوبر‘‘ کو فون پر بات ہوئی اور انہوں نے کہا ’’آپ کو عمران خاں سے فوراً ملاقات کرنا چاہیے‘ انہیں بتائو کہ اپنا احتجاج 9نومبر کے بعد تک موخر کریں‘ اس میں بڑے خطرات ہیں‘ یہ 2013ء کے خطرے سے بہت بڑا اور ہولناک ہے نہ صرف عمران خاں کی اپنی زندگی بلکہ ہمارے وطن پاکستان کے لئے اور اس کے محافظوں کے لئے کچھ کرو‘ ضرور جائو یہ ان کا اصرار تھا مگر آئی کو کون ٹال سکتا ہے‘ بے نظیر‘ عمران خاں کا 2013ء کا حادثہ اور نہ وزیر آباد میں ہونے والا قاتلانہ حملہ‘ بے نظیر کی شہادت سے ایک دن پہلے پروفیسر غنی جاوید نے فون کیا‘ فیصل آباد تھا‘ انہوں نے عجلت میں گھبرائی آواز کے ساتھ کسی تمہید سلام دعا کے بغیر کہا‘ بے نظیر کو روکو‘ فون کرو‘ پیغام دو اس کی جان کو خطرہ ہے صرف ایک ہفتے کے لئے گھر سے کہیں نہ جائے باہر نہ نکلے‘ مگر میں بے نظیر کو کیونکر روک سکتا ہوں جان پہچان تو ہے بے تکلفی نہیں، نہ براہ راست فون کر سکتا ہوں،بے نظیر کے پاس خود اطلاعات تھیں خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے وارننگ‘ آئی ایس آئی کے سربراہ کی ملاقات اور خطرے سے آگاہی کے باوجود اس نے کوئی توجہ نہیں دی تو فون کال یا سینیٹر عباسی کے ذریعہ پیغام رسانی کی کیا اہمیت ہو سکتی تھی‘ پروفیسر صاحب کہتے تھے آج سے اگلے سات دن ستارے موت کے گھر میں المناک اور پرتشدد ہیں وہ گھر میں رک جائے تو خطرہ ٹل سکتا ہے‘ ان کے بار بار زور دیے پر بھی واقعات کی سنگینی کا کوئی ادراک نہیں تھا‘ فون پر بات چیت کو چوبیس گھنٹے نہیں گزرے تھے جب بے نظیر پر حملے کی پہلی خبر نشر ہوئی تھوڑی ہی دیر کے بعد ان کی شہادت کا اعلان کر دیا گیا‘ پہلی بار احساس ہوا کہ ایک ماہر ستارہ شناس کو تاریخ پیدائش اور وقت پیدائش اگر صحیح معلوم ہو تو وہ کس قدر خطرناک حد تک درست پیش گوئی کر سکتا ہے‘اس ہولناک واقعہ کے بعد بھی شاید تصدیق مزید کی ضرورت تھی‘ وہ تصدیق بھی اس وقت ہو گئی جب انہی صاحب نے پرویز مشرف پر 15یا 16دسمبر اور اس کے بعد 24سے 26دسمبر کو اسی طرح کے خوفناک اور خونریز حملوں کی پیش گوئی کرتے ہوئے بار بار دہرایا کہ ’’میرے منہ میں خاک میرے منہ میں خاک یہ حملے بے نظیر پر حملے سے کم خطرناک نہیں ہونگے‘ اگر قدوائی صاحب ملے تو انہیں بتا دوں گا۔