چاہے عدلیہ کتنی بھی آزاد کیوں نہ ہو‘ مگر جب فیصلہ آئے گا تو اس پر جو تبصرے ہوناہیں ان کا تعلق احتساب عدالت کے آزاد یا غیر آزاد ہونے پر نہیں ہو گا۔ فیصلہ نواز شریف کے خلاف آ گیا تو خلق خدا بھی کہے گی کہ حکومت انتقام پر اتر آئی ہے اور اس نے آمرانہ انداز اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اگر فیصلہ نواز شریف کے حق میں آ گیا تو کوئی نہیں کہے گا انصاف ہوا ہے‘ یہی کہا جائے گا کہ مک مکا ہو گیا ہے۔ مخالف تو کہیں ہی گے کہ چوروں لٹیروں کو چھوڑ دیا گیا ہے‘ اپنے بھی شاید دھیمے سروں میں یہ کہنے لگیں کہ نواز شریف یونہی خاموش نہیں تھے۔ مطلب یہ کہ اس فیصلے کے بعد کسی طرح سیاسی استحکام آتا نظر نہیں آتا۔ ویسے اس وقت جو ذہن بن رہا ہے‘ وہ دو ٹوک لفظوں میں یہی ہے کہ یہ احتساب نہیں انتقام ہے ۔ اس رائے کے پیچھے بہت ساری باتیں بیان کی جاتی ہیں۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ یا یہ خیال کہ فوج ہر صورت میں نواز شریف سے چھٹکارا چاہتی ہے‘ اس کی جو وجوہ بھی ہوں دونوں طرف کی حمایت اور مخالفت میں دلائل بیان کئے جا سکتے ہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ آپ لکیر کے کس جانب کھڑے ہیں۔ کوئی بھی اسے انصاف کے ترازو میں نہیں تول رہا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ پرانا منصوبہ ہے کہ نواز شریف اور زرداری دونوں کو سیاست بدر کر دیا جائے۔ پہلے زرداری کی جگہ بے نظیر تھیں اس منصوبے پر پرویز مشرف نے اس طرح عمل کیا کہ دونوں کو ملک میں آنے سے روکنے کا بندوبست کئے رکھا۔ دونوں ہی ایک طرح سے ملک بدر تھے جب جمہوریت ناگزیر ہو گئی تو یہ طے پایا کہ دونوں کو انتخابات کے بعد ہی ملک میں آنے دیا جائے۔ یہ منصوبہ ناکام ہوا تو کیا طوفان آیا اور اس طوفان کے ساتھ زرداری قابل قبول ہو کر بے نظیر کی جگہ آ بیٹھے۔ اور نواز شریف کو بھی روکنا ممکن نہ رہا۔ اب بھی کہا جا رہا ہے کہ یہی منصوبہ ہے کہ زرداری(پیپلز پارٹی) اور نواز شریف کے بغیر سیاست کی جائے۔ اس بار دونوں کو باہر بھیجنے کے بجائے جیل میں ڈالا جائے یا کم از کم سیاست سے بیدخل تو کر دیا جائے۔ اس پر عمل ہو رہا ہے۔ نواز شریف کے بعد زرداری کی باری ہے۔ اس پر عمل شروع ہو چکا ہے۔ وگرنہ زرداری میں تو سو عیب اس وقت بھی تھے جب وہ صدر بنے تھے۔ ان کے بارے میں دنیا میں کیا کچھ نہ کہا جاتا تھا۔ مسٹر ٹین پرسنٹ تک کی پھبتی عالمی شہرت رکھتی تھی۔ سرے محل سے لے کر سوئس اکائونٹس تک کا چرچا تھا۔ اس کے باوجود انہیں قابل قبول بنا کر نواز شریف پر ترجیح دی گئی۔ اس کایہ مطلب نہیں کہ ان لوگوں نے کوئی کرپشن نہیں کی‘ مگر اسے تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے کہ یہ سارا عمل کرپشن کو ختم کرنے کے لئے ہے۔ جس معاشرے اور نظام میں ہم جی رہے ہیں‘ اس کے اپنے قرینے ہیں۔ ویسے ظلم تو یہ ہے کہ کرپشن اب صرف مالی کرپشن تک محدود ہو کر رہ گئی ہے اور باقی ہزار طرح کی کرپشنوں پر کسی کا دھیان تک نہیں جاتا بلکہ یہ تک کہا جاتا ہے کہ اخلاقی خرابیاں یا بدعنوانیاں تو ذاتی برائیاں ہیں‘ ان کا معاشرے پر اثر نہیں پڑتا۔ 70ء میں ہم نے شور مچایا تھا کہ ایک شرابی نے ملک توڑ دیا‘ یا اس حکمران کی داشتائوں کے تذکرے ہوئے تھے۔ بس چند روز اس کے بعد ہم خاموش ہو گئے تھے اور ایک فوجی آمر کی جگہ ایک سویلین آمر کے خلاف لڑنے بیٹھ گئے تھے۔ کبھی کبھی تو شک گزرتا ہے کہ ہم جس برائی کے خلاف صف آرا ہوتے ہیں‘ اصل برائی وہ ہوتی ہی نہیں۔ اس گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ اس ملک میں ایک نئی جدوجہد کا آغاز ہونے والا ہے۔ جانے اس جدوجہد کا انجن کون ہو گا تیسری سیاسی طاقت‘ عوام یا اسٹیبلشمنٹ۔ آخر ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی تو بڑی مشکل میں ہے۔ برسوں سے منصوبہ بندی کرتی ہے‘ مقصد ملک کو بچانا ہوتا ہے‘ مگر ہوتا یہ ہے کہ ہم گھوم پھر کر دوبارہ اسی دلدل کی طرف لوٹنے لگتے ہیں جس سے بچنے کا ہم نے جتن کیا تھا۔ اس وقت ملک ایک ایسے بحران سے دوچار ہے جس سے نکلنے کے لئے کسی ایک طاقتور انجن کی ضرورت ہے اور یہ انجن ہمیں دستیاب نہیں ہے۔ گستاخی معاف ‘اگر کوئی سمجھتا ہے کہ عدلیہ ایک نئی طاقت بن کر ابھری ہے تو وہ غلطی پر ہے۔ عدلیہ نے اتنا زور لگایا ہے کہ اب اس کی اصل طاقت مفقود ہوتی دکھائی دیتی ہے ۔عدلیہ کی طاقت یہ ہے کہ لوگ اسے آخری امید کے طور پر دیکھتے ہیں‘ ہم نے اسے پہلی امید بنا دیا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ باقی ساری امیدیں دم توڑتی دکھائی دیتی ہیں اور یہ بھی وہ کام نہیں کر پا رہی جو اسے کرنا ہے۔ اس سے ایگزیکٹو کے کام لئے جائیں گے تو پھروہ کام کون کرے گا جو اس کے اصل کرنے کا ہے۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ جو کام اس نے کئے ہوں گے وہ بھی بیکار جائیں گے اور جو اس کے اصل کام ہیں ا س کے یہ ادارہ پھر قابل نہیں رہے گا اور اگر ہم سوچتے ہیں کہ فوج سے کام لیا جائے تو یہ ہم نے بار بار لیا ہے اور ہر بار منہ کی کھائی ہے۔ ہم کہہ رہے ہیں کہ اس بار ہم نے طے کر لیا ہے کہ فوج سامنے آ کر اپنا کردار ادا نہیں کرے گی اور پیچھے رہ کر آئینی اور قانونی انداز میں قومی اداروں کی پشت پناہی کرے گی۔ شاید ہم یہاں بھی غلطی پر ہیں۔ ہم نے تیسرے آپشن کے طور پر جس نئی سیاسی قوت کو آگے کیا ہے‘ بات ان کے بس میں نہ رہی تو پھر کیا ہو گا۔ ہمارے پاس کوئی آپشن باقی نہیں رہے گا۔ میں غالباً گزشتہ کالم ہی میں لکھ چکا ہوں کہ ایسے میں لوگ مارشل لاء کے خواب دیکھتے ہیں یا قومی حکومت کا سوچتے ہیں۔ دو چار اور بندوبست بھی تھے جو بدقسمتی سے اب بے کار ہو گئے ہیں۔ مثال کے طور پر اب ہم ٹیکنو کریٹ کے ماڈل کی طرف جا سکتے ہیں نہ ڈھاکہ ماڈل کی بات کر سکتے ہیں۔ یہ سب ماڈل نپٹ چکے۔ جی ہاں نپٹ چکے۔ ہم نے کیا کیا پاپڑ بیلے ہیں‘ مگر نتائج نہیں نکل پا رہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ ن لیگ مار پیٹ پر اتر آئے گی مگر پیپلز پارٹی کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ پیپلز پارٹی کے پاس‘ اس وقت ایک صوبہ ہے اور وہ خود کو بے آسرا نہیں سمجھ رہے۔ مقتدر حلقے سمجھتے ہیں کہ وہ چیلنج کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ بادی النظر میں ایسا ہو سکتا ہے‘ مگر اس کا نتیجہ وہ نہیں نکلے گا جو سوچا جا رہا ہے۔ ہم بار بار ملک کی ترقی کا راستہ کھوٹا کرتے آ رہے ہیں۔ موجودہ سیاسی بحران شروع کرنے سے پہلے ہم نے سوچا ہی نہیں تھا کہ اس کا ہماری معیشت پر کیا اثر پڑے گا۔ اس وقت ہمیں پانچ چیلنج درپیش ہیں۔ ہمیں وسائل چاہئیں۔ 1۔ قرض ادا کرنے کے لئے۔2۔ اپنی دفاعی ذمہ داریاں پورا کرنے کے لئے۔3۔ صوبوں کو ان کی خود مختاری کی قیمت دینے کے لئے۔4۔ ملک چلانے کے لئے۔5۔ ترقی کے منصوبے بنانے کے لئے۔ اس وقت ہمارے وسائل کا یہ حال ہے کہ صوبوں کو ان کا حصہ دے کر ہم صرف ایک مزید کام کر سکتے ہیں۔ ملک کا دفاع کر سکتے ہیں یا قرض ادا کر سکتے ہیں۔ دونوں اکٹھے نہیں کر سکتے۔ اس کے علاوہ ہمیں ملک چلانا بھی ہے جس کا خرچ کچھ کم نہیں ہے‘ اتنا ہی جتنا کہ دوسرے کاموں کا۔ یہ سب کرنے کے بعد ہمیں ملک کو ترقی کی راہ پر بھی ڈالنا ہے۔ وگرنہ دو چار سال میں ہمارے ہاتھ پلے کچھ بھی نہ رہے گا۔ یہ پانچ کام بیک وقت کیسے ہوں گے۔ ویسے ہی جیسے ہم جیسے ترقی پذیر ممالک کرتے ہیں۔ یہ نہیں کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں‘ مگر ہم الٹ طرف چل پڑے ہیں۔ کرپشن ختم کرنے کے لئے ترقی کا سفر روکنا کیا ضروری ہے اور اگر ہمارا خیال ہے یہ دونوں کام اکٹھے نہیں ہو سکتے ‘ تو سن لیجیے پھر ان میں سے ایک بھی نہ ہو پائے گا۔ ہم کئی ماہ سے ترقی کا پہیہ روکے بیٹھے ہیں‘ مگر کیا احتساب کر پائے۔ ہم نے اعلان کیا تھا‘ ہم قرض نہیں لیں گے‘ کیا ہم ایسا کر پائے۔ ہم ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے نکلے ہیں مگر کہتے ہیں دو‘ تین سال صبر کرنا پڑے گا۔ یہ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ اس لئے میں بار بار کہہ رہا ہوں کہ ہم بہت خطرناک موڑ پر ہیں۔ نواز شریف کی گرفتاری ایک عدالت کا فیصلہ ہی نہیں‘ اس میں ہمارے اجتماعی شعور میں برپا کئی جنگوں کی جھنکار سنائی دے رہی ہے۔ اسے لفظوں کی لڑائی سے نہیں جیتا جا سکتا۔ ابھی تک ہم لفظوں کی لڑائی لڑ رہے ہیں یا انتقام کی آگ میں جل رہے ہیں ہم سب ہی‘ کوئی ایک نہیں سب سے کیا مراد ہے چلئے رہنے دیجئے۔