فواد حسن فواد کی گرفتاری شریف خاندان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف کا پرنسپل سیکرٹری رازوں کی پٹاری ہے اور میاں صاحب ہی کے بعض معتمد خاص انہیں قابل اعتبار نہیں سمجھتے۔ ایک ممتاز کالم نگار تو انہیں ماضی میں میاں نواز شریف کا ’’مسعود محمود‘‘قرار دے چکے ہیں۔ نوجوان نسل مسعود محمود سے واقف نہیں۔ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے سوویت یونین کی کے جی بی اور ایران کی ساواک سے متاثر ہو کر ایک فیڈرل سکیورٹی فورس تشکیل دی جو صرف وزیر اعظم کو جوابدہ تھی۔ بھٹو کے دور اقتدار میں قومی خزانے پر پلنے والی اس فورس کا فرض صرف اور صرف قائد عوام کے جلسوں کی رونق بڑھانااور ان کے سیاسی مخالفین سے نمٹنا رہا۔ تحقیقات سے ثابت ہوا کہ احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان کا قتل ایف ایس ایف کا کارنامہ تھا تو مسعود محمود وعدہ معاف گواہ بن گئے اور انہوں نے عدالت عالیہ کے روبرو تسلیم کیا کہ یہ قتل قائد عوام کے حکم پر ہوا۔ بھٹو دور میں یہ پہلا سیاسی قتل نہ تھا‘ خواجہ سعد رفیق کے والد خواجہ محمد رفیق‘ بلوچستان اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر مولانا شمس الدین اور جماعت اسلامی کے درویش صفت رکن اسمبلی ڈاکٹر نذیر احمد بھی سیاسی مخالفت کی بنا پرگولی کا نشانہ بن چکے تھے لہٰذا عوام اور عدالت نے مسعود محمود کے بیان پر اعتماد کیا ویسے بھی مسعود محمود یا ایف ایس ایف کے کسی افسر و اہلکار کی احمد رضا قصوری یا نواب محمد احمد خان سے کیا دشمنی ہو سکتی تھی؟۔ ایف ایس ایف جیسی جدید ہتھیاروں اور تربیت سے آراستہ فورس کی اس کے سوا کوئی افادیت بھی نہ تھی۔ فواد حسن فواد کی گرفتاری پر میاں نواز شریف کا ردعمل سامنے آ چکا ہے یہ وہ طوطا ہے جس میں شریف برادران کے اقتدار کی جان رہی احد چیمہ کے حق میں شہباز شریف نے نعرے لگوائے اب میاں نواز شریف اور مریم نواز کی باری ہے کہ وہ فواد حسن فواد کی قومی خدمات کو خراج تحسین پیش کریں اور ایک سینئر بیورو کریٹ کی گرفتاری کو جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیں۔ اس گرفتاری سے یہ تاثر تو دور ہوا کہ میاں شہباز شریف نے فوج اور عدلیہ کے بارے میں زبان بند رکھ کر اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کا دروازہ کھول دیا ہے اور نیب کے چیئرمین کی طرف سے انتخابی امیدواروں کو گرفتار نہ کرنے کا بیان اس سلسلے کی کڑی ہے۔ میرے ذاتی خیال میں نیب نے یہ فیصلہ کر کے اپنی ساکھ اور احتساب کے عمل کو نقصان پہنچایا اور خواہ مخواہ یہ تاثر ابھرا کہ نیب کرپٹ سیاسی عناصر کے مقابلے میں پسپائی اختیار کر رہی ہے یہ بنیادی طور پر قومی لٹیروں کو راستہ دکھانے کے مترادف ہے کہ وہ احتساب سے بچنے کے لیے انتخاب کو بطور ڈھال اختیار کریں۔ عام انتخابات کے بعد ضمنی انتخاب اور پھر بلدیاتی و سینٹ انتخابات‘ جو شخص ایک مرتبہ چالیس پچاس ہزار روپے خرچ کر کے کاغذات نامزدگی داخل کر دے وہ احتساب سے بالاتر اور گرفتاری سے محفوظ۔ جمہوری ممالک میں انتخابات کے دوران عدالتیں بند ہوتی ہیں نہ احتساب کے دوسرے ادارے ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھتے ہیں۔ آج اگر ایک شخص امیدوار ہونے کی وجہ سے گرفتار نہیں ہو سکتا تو کل کلاں کو انتخاب جیت کر کیسے گرفتار ہو گا ؟تب تو وہ عوامی نمائندہ ہو گا اور اس کے خلاف کارروائی حق نمائندگی پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف قرار پائے گی۔ چیئرمین نیب کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے کہ یہ آئین‘ قانون اور عوامی امنگوں کے منافی فیصلہ ہے عام شہری اور انتخابی امیدواروں میں یہ تفریق آئندہ کئی قباحتوں کو جنم دے گی۔ میاں نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کی مشکلات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے جسے لاکھوں ڈالر خرچ کر کے سروے جاری کرنے والی کمرشل کمپنیاں کم کر سکتی ہیں نہ یہ گمراہ کن پروپیگنڈا کہ فوج ‘ خفیہ ادارے اور عدلیہ مل کر ملک و قوم کے خدمتگار‘ امانت و دیانت کے پتلے اور ہر غلطی سے مبرا مقبول عوامی سیاستدان کو بہر صورت داخل زنداں کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ سیاسی انجینئرنگ کا الزام اپنی جگہ مگر عدالتی فیصلوں کو اسٹیبلشمنٹ کے دبائو کا نتیجہ کوئی خوف خدا اور شرم و حیا سے عاری شخص قرار دے سکتا ہے۔ سپریم کورٹ ‘ جے آئی ٹی اور احتساب عدالت کے روبرو کوئی ایک گواہ‘ کاغذ کا ایک پرزہ بطور ثبوت پیش نہ کر سکنے والا شخص آخر کس برتے پر باعزت بریت کی توقع کرتا ہے۔ دھونس‘ دھاندلی اور مکروفریب کا یہ کاروبار کافی عرصہ چلتا رہا۔ کواپریٹو سکینڈل میں لون کمشن نے کلین چٹ دی اور بے نظیر بھٹو کے خلاف جسٹس قیوم نواز شریف کی مرضی کے فیصلے کرتے رہے مگر وقت سدا ایک سا نہیں رکھتا اب نہ وہ عدالتیں ہیں نہ جسٹس قیوم اور افضل لون جیسے جج اور نہ جہانگیر کرامت اور کیانی جیسے جرنیل جو میاں صاحب کی بھولی صورت سے دھوکہ کھا کر قومی اداروں کے ساتھ کھڑے ہونے سے انکار کر دیں۔ اگرچہ یہ خبر ابھی کنفرم نہیں مگر آصف علی زرداری کا دعویٰ ہے کہ میاں صاحب برطانیہ میں سیاسی پناہ لے چکے ہیں خبر درست ہے تو پھر میاں صاحب کی احتساب عدالت میں درخواست بھی برطانوی محکمہ داخلہ کے سامنے اپنا کیس مضبوط بنانے کی سعی و تدبیر ہے عدالت درخواست مسترد کر کے انہیں سزا سنائے اور وہ برطانوی ادارے کے سامنے یہ موقف پیش کر سکیں کہ دیکھا! مجھے انصاف فراہم نہیں کیا جا رہا۔ حالانکہ فیصلے کے وقت ملزم کا موجود ہونا قانونی تقاضا ہے نہ فیئر ٹرائل کی بنیادی شرط۔ میاں صاحب ویسے اتنے زیادہ قانون پسند کبھی نہیں رہے کہ عدالت فیصلہ بھی ان کی مرضی سے مقررہ کردہ تاریخ پر سنائے۔اللہ تعالیٰ بیگم کلثوم نواز کو صحت عاجلہ عطا فرمائے جب میاں صاحب ستمبر 2017ء سے جون 2018ء تک ان کی علالت سے بے پروا پاکستان میں احتجاجی مہم چلا سکتے ہیں تو اب کون سا امر مانع ہے۔ فیصلہ اب انہیں یہ کرنا ہے کہ وہ پاکستان میں اپنی بچی کھچی سیاست کا دفاع کرنا چاہتے ہیں یا بیرون ملک بیٹھ کر الطاف حسین کی طرح ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف مہم جاری رکھنے کے ارادے ہیں۔ بلا شبہ مسلم لیگ (ن) کی رونقیں ان کے دم قدم سے ہیں۔ برگد کے درخت کی طرح انہوں نے شہباز شریف سمیت کسی پودے کو اپنے زیر سایہ اُگنے‘ پھلنے پھولنے دیا ہے نہ مسلم لیگی کارکنوں اور امیدواروں نے کسی اور کو قبول کیا ہے۔ اسی سبب مسلم لیگ(ن) کی انتخابی مہم پھیکی اور پھسپھسی ہے اور انتخابی محاذ پر صرف عمران خان اور بلاول بھٹو چھائے ہیں۔ اگر بیگم صاحبہ کی علالت یا دیگر مصلحتوں کے تحت میاں صاحب وطن واپس نہیں آتے تو مسلم لیگ کو جعلی سروے بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکیں گے۔ جن مشیروں نے میاں صاحب کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ فیصلے کے بعد وطن واپس آئیں اور امام خمینی کی طرح اپنا استقبال کرائیں وہ ان کے نادان دوست ہیں انہیں 2007ء میں وطن واپسی کا منظر بھولنا نہیں چاہیے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس وقت لوگ پرویز مشرف کی آمریت سے تنگ اور افغانستان میں امریکی حملے کے علاوہ لال مسجد آپریشن سے دکھی تھے مگر اب صورت حال بہت مختلف ہے۔ امام خمینی پر کرپشن کا الزام تھا نہ وہ اپنی دولت بچانے کے لیے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگا رہے تھے اور نہ اردگرد چوری کھانے والے مجنوں جمع تھے۔ میاں صاحب نے اگر برطانیہ میں پناہ نہیں لی تو بخوشی وطن واپس آئیں اور اپنے وعدے کے مطابق قانون کا سامنا کریں مگر یہ سوچ لیں کہ حالات 2007ء کی طرح سازگار نہیں۔نواز شریف کی متوقع سزا او ر شہباز شریف کی نیب میں پیشیوں کے بعد اُمیدوار اور کارکن اور فواد حسن فواد کی گرفتاری کے بعد کونوں کھدروں میں چھپے مسلم لیگ کے ہمدرد بیورو کریٹ‘ بھلا اپنی خیر منائیں یا میاں صاحب اور مسلم لیگ کی انتخابی کامیابی میں حصہ ڈالیں؟۔ ساہیوال کے جلسے نے مسلم لیگ کی عوامی مقبولیت کا پول کھول دیا ۔ ع آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟