شاہ محمود قریشی تحریک انصاف کے وائس چیئرمین جو سابق وزیر خارجہ ہیں‘ قومی سلامتی کے موضوعات اور حساسیت کا پورا احساس اور ادراک رکھتے ہیں‘ انہوں نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں گزشتہ روز ایوان بالا(سینٹ) میں دیے گئے وزیر خزانہ اسحق ڈار کے بیان پر گرفت کرتے ہوئے قوم کو توجہ دلائی ہے‘ قومی سلامتی کا اہم ترین واقعہ جسے ہمارے ذرائع ابلاغ نے ’’ڈائون پلے‘‘ کیا یا اسے اپنی توجہ کے قابل ہی نہیں سمجھا‘ قریشی صاحب نے کہا اسحاق ڈار وزیرِ خزانہ ہیں لیکن وہ قومی دفاع کے حساس ترین موضوع پر اچانک بات کرنا شروع کر دیتے ہیں وہ بھی غیر واضح‘ مبہم اور ادھوری‘ ایوان بالا میں اجلاس کے دوران وزیر خزانہ کے بیان کو ان کی ذاتی رائے قرار دے کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‘ یہ حکومت وقت کا سرکاری موقف ہی قرار پائے گا۔وزیر خزانہ نے کہا ہم پاکستان کے دور مار(لانگ رینج) میزائل پر کسی قسم کی پابندی‘ دبائو یا قدغن کو برداشت نہیں کریں گے لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ہمارے ایٹمی میزائل پروگرام پر کس قسم کا دبائو ڈالا جا رہا ہے اور دبائو ڈالنے والے کون ہیں؟ اس دبائو کے نتائج کیا ہیں اور اس دبائو کا کس طرح مقابلہ کیا جا رہا ہے؟ اسحق ڈار نے ایک سطری بیان میں سرسری ذکر کر کے گزرجانا چاہا لیکن اسی ایوان کے ایک رکن جناب رضا ربانی جو حکمران اتحاد سے تعلق رکھتے ہیں رضا ربانی کوئی عام سے رکن نہیں وہ سینٹ کے سابق چیئرمین اور متعدد بار مرکزی حکومت میں اہم وزارتوں کے سربراہ بھی رہے ہیں، انہوں نے اس بیان کو سنجیدگی سے لیا‘ سابق چیئرمین سینٹ نے کہا ہمارے میزائل پروگرام پر حالیہ دنوں کوئی قیاس آرائی تک نہیں ہوئی تو وزیز خزانہ نے ایسا بیان کیوں دیا؟ اس کے ساتھ ہی رضا ربانی نے ’’چین‘‘ کے بارے میں بھی سوال اٹھایا کہ چین ہمارا ہمسایہ اور دنیا بھر میں سب سے مخلص اور آزمایا ہوا دوست ہے‘ موجودہ حکومت کے عہد میں اس کے ساتھ ہمارے تعلقات خطرے میں ہیں، یہ بڑی فکر مندی کی بات ہے‘ خاص طور پر جب اسے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے ساتھ ملا کر دیکھتے ہیں۔رضا ربانی قائد اعظم محمد علی جناح کے پہلے اے ڈی سی میاں ربانی کے صاحبزادے ہیں‘انہوں نے اس حساس اور اہم مسئلہ پر غور کے لئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے‘ ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم پارلیمنٹ کے اجلاس میں آ کر پالیسی بیان دیں‘ اس حساس مسئلے پر پارلیمنٹ کا ’’ان کیمرہ‘‘ اجلاس بھی منعقد کیا جا سکتا ہے‘ بہر صورت پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا ازبس ضروری ہے۔ شاہ محمود قریشی کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ پر دستخط ہونے سے پہلے ہی اس کی تمام شرائط کو من و عن قبول کر لیا گیا ہے اور ان شرائط کے نافذ ہونے کے بعد ملک میں مہنگائی کا طوفان آ گیا ہے‘ لوگ بھوک‘افلاس اور اجناس کی کمیابی کے سبب خودکشیاں کرنے لگے ہیں‘باوجود یہ کہ ساری شرائط مان لی گئی ہیں، پھر بھی ابھی تک معاہدے پر دستخط کیوں نہیں ہو پائے، اس مسئلے کو غیر ضروری طور پر کیوں گھسیٹا جا رہا ہے‘ بظاہر اسحق ڈار اس مسئلے پر بات کرنے کے لئے غیر متعلق وزیر لگتے ہیں‘ ان موضوعات کا تعلق وزیر خارجہ سے ہو سکتا ہے یا وزیر دفاع کو اس پر بات کرنا چاہیے تھی‘ آئی ایم ایف سے معاہدہ کے تناظر میں ایٹمی پروگرام پر دبائو کے حوالے سے اسحق ڈار کا کچھ کہنا یقینا بہت اہم ہے، اس لئے اس معاہدے کی بات چیت‘ شرائط‘ خفیہ اور اعلانیہ مطالبات براہ راست وزیر خزانہ ہہی سے کئے جا رہے ہونگے‘ وزیر خارجہ اور وزیر دفاع آئی ایم ایف سے بات چیت کرنے والے وفد کا حصہ نہیں ہیں‘ چند دن پہلے راقم الحروف نے کسی قومی اخبار کے غیر اہم حصے میں ایک چھوٹی سی خبر پڑھی تھی کہ آئی ایم ایف کی طرف دور مار میزائل پروگرام پر سوال اٹھائے گئے ہیں اور میزائلوں کی رینج محدود کرنے کی شرط عائد کی ہے۔ سری لنکا کی مثال ہمارے سامنے ہے پاکستان کی طرح سری لنکا بھی سیاسی بحران کا شکار ہو کر معاشی تنگدستی میں مبتلا ہو گیا‘ہنگامے پھوٹ پڑے زندگی دشوار ہوئی تو آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑا‘ سری لنکا کو مجبور پا کر بین الاقوامی ’’بنیا‘‘ نے کڑی شرائط عائد کرنا شروع کیں‘ پاکستان کی طرح سری لنکا کو بھی بھارت کی جارحیت کا سامنا ہے، اس کے باوجود آئی ایم ایف کے مجبور کرنے پر اسے اپنی دفاعی افواج میں پچیس(25) فیصد کمی کرنا پڑی ہے‘ اسے اپنی حفاظت کے نظام کو خطرے میں ڈال کر قرض حاصل کرنا پڑا۔یہ سب دیکھتے ہوئے افواج پاکستان کے سابق لیفٹیننٹ جنرل ہارون اسلم کا وی لاگ یاد آ رہا ہے‘ غالباً عمران خاں حکومت کے خلاف سازش سے چند ہفتے پہلے یہ ’’یہ ٹیوب‘‘ پر دیکھا تھا، اب تلاش کرنے پر بھی مل نہیں پایا۔جنرل صاحب موصوف فوج کے پیشہ وارانہ امور میں بڑے ماہر اور نیک نام رہے ہیں‘ان کی باتیں ان کے تبصرے اور یو ٹیوب پر ان کے وی لاگ وسیع پیمانے پر بڑی توجہ سے سنے جاتے تھے یقینا وہ بھی جنرل امجد شعیب اور دیگر افسران کی طرح فوج شعیہ تعلقات عامہ کی طرف سے عائد پابندیوں کی نظر ہو کر خاموش کر دیے گئے۔ جنرل ہارون اسلم سفید بورڈ پر مارکر کی مدد سے جلی حروف میں لکھ کر اپنے مخاطبین کو سمجھا رہے تھے کہ پاکستان میں حکومت تبدیل کر کے (رجیم چینج) سیاسی انتشار‘ بے یقینی اور افراتفری پھیلا دی جائے گی‘ سیاسی بحران قومی صنعت اور کاروبار کو تباہ کر کے قوم کو معاشی بحران میں مبتلا کر دے گا۔ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات زور پکڑیں گے‘ قوم پرست علیحدگی پسند متحرک ہو جائیں گے‘حکومت کی تبدیلی کا الزام فوج پر ہو گا‘ سیاستدانوں کی مخالفت میں شدت‘ فوج کے خلاف پراپیگنڈہ‘ شدت پسندوں کو دشمن کی امداد‘ سیاسی بحران معاشی بدحالی کی شکل اختیار کر جائے گا‘ ہمیں معاشی بحران سے نکلنے کے لئے آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی اداروں سے رجوع کرنا پڑے گا،وہ ہمارے نازک حالات سے فائدہ اٹھائیں گے‘ بات چیت طول پکڑتی جائے گی‘ ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑیں گے‘ فوج پر لوگوں کا اعتماد متزلزل ہو گا‘ پاکستان کے دشمن چین کا گھیرائو کرنے والے سی پیک کے مخالف اکٹھے ہو کر بلوچ علیحدگی پسندوں کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ بلوچستان کو الگ کرنے اور سرحد میں انتشار دہشت گردی‘ خانہ جنگی کی حالت‘ سیاسی بحران‘ معاشی بدحالی سارے حالات مل جائیں گے تو پاکستان کو اس بحران سے نکالنے کے لئے کڑی شرائط کا سامنا ہو گا‘جس میں اولین اور اہم ترین شرط پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بندش اور اثاثہ جات بین الاقوامی نگرانی میں دینے کا مطالبہ ہو گا‘ہماری سلامتی‘سیاسی‘معاشی ‘ سلامتی کے بحرانوں کا سامنا کر رہی ہو گی تو فوج کیا کچھ کر سکے گی جبکہ اس بحران کے پس منظر میں عوام اسی کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہونگے؟جنرل ہارون اسلم نے جو کہا اپنی یادداشت کے سہارے لکھ دیا‘ جنرل موصوف کی باتیں زیادہ پرانی نہیں ہیں‘ انہوں نے یہ سب اس وقت بیان کیا جب صاحب نظر بحران کو اپنی طرف بڑھتا صاف دیکھ رہے تھے۔سابق جنرل قمر جاوید باجوہ کی سرگرمیاں اور ان کی آصف زرداری‘ نواز شریف کے ساتھ خفیہ سودے بازی‘ سب ان کی نظروں سے اوجھل نہیں رہا تھا۔حکومت کی امریکہ کی حمایت سے تبدیلی اور اسی طرح کے بحران کی پیش گوئی دس سال پہلے جنرل حمید گل بھی کر چکے تھے‘ ان کی باتیں آپ یوٹیوب میں جا کر آج بھی سن سکتے‘ دیکھ سکتے ہیں‘ آپ کو محسوس ہو گا کہ مرحوم حمید گل آج کے حالات کو آنکھوں دیکھ کر اس پر تبصرہ کر رہے ہیں‘ مسلمانوں نے اپنے دشمنوں کے ہاتھوں کھلی جنگ میں کبھی شکست نہیں کھائی خصوصا پاکستان نے کبھی نہیں، مگر جب بھی اسے ہزیمت کا سامنا ہوا، تو ہ اپنی اندرونی کمزوری‘ سیاسی انتشار اور غداری کی وجہ سے ہوا‘ مشرقی پاکستان کی علیحدگی‘90ہزار فوجیوں کی قید اسی طرح کے حالات میں غداروں‘ طالع آزمائوں مست و مدہوش جرنیلوں کا کارنامہ تھا‘حمید گل خبردار کرتے رہے‘ ہارون اسلم نے جھنجھوڑا‘ جنرل امجد شعیب نے دہائی دی عمران خاں نے سمجھایا لیکن جن آنکھوں پر ذاتی مفاد کی پٹی بندھی ہو اور ان کا مستقبل اپنے وطن سے دور اور غداری سے حاصل کی خوشحالی سے ہو، اسے کون سمجھا سکتا ہے؟ وطن سے محبت کرنے والے سابق فوجی افسران پر ڈسپلن کی پابندی نے ہونٹوں پر مہر لگا دی ہے مگر تحریک انصاف کے سربراہ سابق وزیر اعظم عمران خاں نے قوم کو بیدار کر دیا ہے‘ چاروں صوبوں کے عوام علاقائی ‘لسانی ‘ قبائلی‘ نسلی تقسیم و تفریق سے بے نیاز عمران خاں کی قیادت میں متحد ہو کر ایک قوم بن چکے ہیں، ہجوم سے قوم بننے کا عمل تیزی سے جاری ہے اور 80فیصد عوام کی نمائندگی عمران خاں کرتے نظر آتے ہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں سازش کے نتیجے میں بننے والی حکومت آئین کو توڑنے‘ قانون کو نظر انداز کرنے‘ انتخابات سے بھاگتے ہوئے عوام کی اکثریت کے خلاف حکومت کی طاقت ار وسائل کے ساتھ صف آراء ہو چکی ہے، کوئی شخص ‘ اشخاص یا ادارہ نظر نہیں آتا جو اس بحران کو سمجھ کر حل کرنے کی مخلصانہ کوشش کرے ’’مگر عدلیہ‘‘ اعلیٰ عدالت ہی آخر کار کوئی فیصلہ کن قدم اٹھا سکتی ہے ورنہ یہ قوم لڑ‘ بھڑ کر زخموں سے چور ناک میں بیٹھے دشمنوں کا آسان شکار ہو جائیگی۔ اسحق ڈار کا بیان‘ رضا ربانی کا ردعمل‘ شاہ محمود قریشی کی پریس کانفرنس‘ پاکستان میں اپنی جان سلامت لے کر بھاگ جانے والے دانشور اور بعض سابق فوجی افسران کی دہائیاں‘ کیا ایک طاقتور قوم کی آخری ہچکی کی طرح ہیں‘ جو اگرچہ بہادر اور طاقت ور تھی لیکن گہری نیند سونے میں اسے جال میں جکڑ کر بے بس کر کے دشمن کے آگے ڈال دیا گیا‘ دشمن جو چاہے اس کے ساتھ سلوک کرے۔جال میں جکڑنے اور پنجرے میں بند کرنے والے جو اپنے اپنے سے لگتے تھے‘ بھاری معاوضے کے عوض بیچ باچ کر دور نکل گئے‘ جکڑے ہوئے انسانوں میں ابھی جان باقی ہے وہ مزاحمت پر آمادہ ہیں‘ ان کے جال کی جکڑن اور پنجرے کے تالے عدلیہ توڑ سکتی ہے، دیکھا یہ ہے کہ کیا وہ اپنی قوم کی سلامتی کے لئے ان بہادروں کی جکڑن کھولنے اور پنجروں کے تالے توڑنے کے لئے آگے بڑھتی ہے یا کسی مصلحت اور خوف کا شکار ہو کر محض کفِ افسوس ملنے کے لئے بیٹھ رہتی‘ یہ فیصلے کی گھڑی ہے اور وقت بہت تھوڑا ہے۔ ع پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ