حج کا یہ خطبہ ، ایک معمول کا عام سا خطبہ تھا، یوں نہیں کہ میں حج کے خطبے کو عام سا خطبہ کہنے کی جسارت کر رہاہوں ، اپنی اہمیت اور حیثیت کے تناظر میں یہ خطبہ ہرگز عام نہیں ہو سکتا،کبھی نہیں ہو سکتا۔ پندرہ صدیاں پہلے جس جگہ رسول ِ اقدسؐ بنفسِ نفیس کھڑے ہوئے ،جہاں رسولِ اطہرؐ کے ریشمی قدم پڑے اور جو ہر عہدِ آئندہ کے لیے رہنمائی کے لیے نقشِ قدم ہوئے ، جہاںآپؐ نے سانس لیے اور خوشبوؤں کو مہک بخشی ، جہاں آپؐ کی آواز گونجی اور انسانیت نے بولنا اور سننا سیکھا، جہاں آپؐ نے خدا کا نام لیا اور آسمان مسکرا اٹھا، جہاں اونٹنی پر بیٹھ کر آپؐ نے عرب و عجم، غربت و امارت کے فاصلے مٹا دینے والا خطبہ حجۃ الوداع ارشاد فرمایا، وہاں،اس جگہ اور اس مقام پر کھڑے ہونا اور خطبہ دینا نہ کبھی عام ہو سکتا ہے اور نہ یہ خطبہ دینے والا خطیب عام ہو سکتاہے،اگر کسی کا خدا سے ایمان اٹھ نہیں گیا تووہ سمجھتا ہے کہ جسے بھی ملے، یہ سعادت ہے اور اس کے فیصلے زمیں کا کوئی شاہ نہیں ، عرش کا خدا کرتاہے ،پھر بھلا یہ معاملہ عام کیسے ہو سکتا ہے،یقینا کسی طور نہیں ہو سکتا،اس خطبے کی حیثیت اور اہمیت بھی دو طرح سے مسلم ہے۔ بطور مسلمان تو اس خطبے اور اس سے جڑی ہماری سنہری یادوں اور روایتوں کی اہمیت ہماری شہ رگوں میں گڑی اور ہماری زندگیوں سے بڑی ہے ، بطور انسان بھی مگر دنیا ا س خطبے کی اہمیت سے کبھی انکار نہیں کر سکتی۔ 15 جون1215 ء کے میگنا کارٹاکو دنیا انسانیت کے حق میں پہلی قانونی دستاویز سمجھتی ہے، جس پر اس وقت کے برطانوی بادشاہ جان نے دستخط کیے اور جس میں عوام کے لیے نام نہاد سی ہی سہی ، بہرحال چند آسانیوںنما حقوق کا تذکرہ تھا،اور شاہی دستخطوں کے باوجود جسے قانون کا حصہ بنتے بنتے 82سال لگ گئے تھے،میگنا کارٹا نامی اس مبہم و خام حقوقِ انسانی کے چارٹر سے کوئی6صدیاں پہلے اسی روشن جگہ رسالت مآب ؐنے انسانیت کو ایسا جیتا جاگتا حقیقی و جامع منشور دیا، کہ آج بھی جس کی تابناکی ماند نہیں پڑی اور آج بھی انسانیت جس سے آگے نہیں بڑھی۔ یعنی بظاہر تاریک صدیوں سے روشنی میںآگیا انسان آج بھی اس کے سامنے سر جھکانے کے سوا کوئی چارہ نہیں پاتا۔ دراصل 632ء کو ٹھیک اسی جگہ اپنی اونٹنی پر تشریف فرما ہو کر رسولِ اطہرؐ نے انسانی آزادی اور حریتِ فکر کی جو بات کی ، نسل پرستی اور مادی اونچ نیچ کی جو نفی فرمائی ، اولادِ آدم کو بحیثیت انسان جو تکریم و توقیر عطا فرمائی دنیا اس کی مثال نہیں لا سکی، بلکہ دیکھا جائے تو اسلام پر الزامات کی سنگ باری کرنے اور خود کو انسانیت کے اصلی وکیل کہلانے والے آج بھی ٹرمپ اور مودی کی صورت خطبہ حجۃ الوداع کی شقوں کے سامنے گنہگار و شرمسار ہیں۔ تو بہر صورت عام ہو کر بھی یہ خطبہ عام نہیں ہو سکتا۔یہ خطبہ سعودی ریاست کے شریک معمارمحمد بن عبدالوہاب کے خانوادے ، جسے آلِ شیخ کہا جاتا ہے ،کے ایک فرزند محمد بن حسن آلِ شیخ نے دیا، سعودی ائمہ کی ویب سائٹ کے مطابق ، امام کعبہ شیخ عبدالرحمٰن السدیس کو اس بار خطبہ دینا تھا مگران کی طبیعت کی ناسازی کے باعث شیخ محمد بن حسن کا انتخاب ہوا۔ شیخ محمد بن حسن آل شیخ کا یہ پہلا خطبہ تھا او رجس تاریخی و پر عظمت مقام پر کھڑے ہو کر انھوں نے خطبہ دیا ، اس کا اثر ان کے لہجے اور لفظوں پرصاف محسوس ہوتا تھا۔بہت دفعہ اس مقام کی ہیبت اور موقع کی مناسبت سے ان پر رقت طاری ہوئی اور لفظ لڑکھڑاتے رہے۔ خطبہ کا بنیادی تھیم اور مرکزی نقطہ رحم تھا، موضوع سے متعلق خطبے میں اتنی آیات پڑھی گئیں کہ رحمت کی رم جھم سی ہو گئی۔ خطبے میں شیخ نے اسلام کا ، اسلام کے ارکان کا تعارف کروایا، ان کے فضائل بیان کیے۔ دین اور ارکانِ دین کو اللہ کی رحمت سے تعبیر کیا۔ اللہ کی رحمت کے مظاہر اور آثار ذکر کئے ، اللہ کی رحمت پانے کے اسباب اور نتائج ذکر کیے۔حجاج کرام کے لیے یومِ عرفہ کی اہمیت اور آئندہ دنوں حاجی کے کرنے کے کام ذکر کیے۔ دعائیں کیں۔ یہاں کچھ لوگوں کو لگا کہ امام صاحب کو کشمیر اور فلسطین کے لیے بھی دعا کر دینا چاہئے تھی ،واقعی نام لے کر کر دیتے تو ہم نمود پسند لوگوں کی زیادہ تسلی ہو جاتی ، البتہ نام لیے بغیر دعا تو انھوں نے بہرحال پورے عالمِ اسلام کے لیے کی ۔ ویسے سوچئے تو ہم بھی عجب لوگ ہیں کہ حکومتوں اور قوموں کے کرنے کے کام بھی چاہتے ہیں کہ اماموں کی دعاؤں کے سپرد کرکے آرام کیا کریں۔ دعا اچھی چیز ہے اور مومن کا ہتھیار بھی، دعاکے بھی مگر کچھ آداب ہیں، رسول اللہ نے بدر کے روز دعا فرمائی تو آپ ؐ نے اس سے پہلے اپنی سب کمائی خدا کے حضور میدان میں پیش فرما دی۔ دراصل ہوا یہ ہے کہ خطبہ حج کی دعا میں کچھ ناموں کے ذکر اور عدمِ ذکر کے حوالے سے سوشل میڈیا پر کچھ دوست ذرا زیادہ آگے بھی بڑھ گئے، ظاہر ہے کہ خواہشیں اچھی ہوتی ہیں اور خاص طور پر جب اس میں کام کرنے کا ذمہ دوسروں پر ڈالا گیا ہو، لیکن اس حوالے سے حج جیسے مقدس فریضے ، لاکھوں حجاجِ کرام کے سفرِ حج کی تحقیر و تقصیر کر دینا بہرحال مناسب نہیں ہو سکتا۔ شعر بھی اچھے ہوتے ہیں مگر جب ان کا ایک واضح ہدف ہو تو پھر کم از کم اہلِ علم کے شایان نہیں کہ اس کا بوجھ اپنے نامہ اعمال میں لکھوانے لگیں،اب مثلا حج جیسے اسلام کے عظیم الشان رکن کے متعلق اور امام حج کے متعلق اقبال کا یہ شعر کہہ دینا ویسے توہمیں اچھا لگتا ہے کہ ’ایسے امام سے گزر ، ایسی نماز سے گزر ‘ لیکن سوچنا چاہئے اس کا مفہوم کیا بن جاتا ہے ، یقینا کوئی بھی نہیں کہے گا کہ حج ترک کر دیا جائے یا وہاں عرفات میں اپنا الگ امام کھڑا کر لیا جائے۔ ہمیں یاد رہنا چاہئے کہ جلدی میں جس مجمعے پر اور اس کے بندوبست پر ہم اپنا سیاسی غصہ نکالنے لگ جاتے ہیں ، یہ وہی مجمع ہے جس پر عرش پر مستوی خدا فرشتوں کے سامنے فخر کرتاہے۔ باقی سیاسی معاملات چلتے رہتے ہیں ، قوموں اور ملکوں کے حالات اور تعلقات نشیب و فراز سے گزرتے رہتے ہیں، یہ ٹھیک ہے کہ کشمیر کے حالیہ موقع پر سعودی عرب کی طرف سے بہت واضح اور دو ٹوک موقف سامنے نہیں آسکا، ہو سکتا ہے اس پر یا کسی اور بات پر ہمیں غصہ ہو ،مگر شریف برادران کے دور میں ڈالر نیچے لانے کے لیے دی جانے والی امداد ہو ، 65ء میں شاہ فیصل کا کعبہ میں رو رو کر پاکستان کے لیے دعا ئیںکرنا ہو، یا دیگر مواقع پر پاکستان اور اس کے موقف کی فراخدلانہ حمایت، یا پھر خان صاحب کے کہنے پر روڈ ٹو مکہ پراجیکٹ کے تحت پاکستانی حجاج کی پاکستان ہی سے امیگریشن کی سہولت، یہ سب بہرحال ہمیں یاد ہے یاد رکھنا بھی چاہئے، پھراصل بات یہ کہ یہ معاملہ سیاست کا نہیں ، عبادت کا ہے ، اسلام کے عظیم الشان رکن کا ہے۔ باقی رہی خطبے کے بات تو اسے معمول کا اور عام خطبہ ہم نے حج کے موقع پر دئیے جانے والے دیگر خطبوں کے مقابلے میں کہا ہے ۔ یہاں جو پرانے خطیب آتے رہے ، وہ زیادہ جامع اور حالات سے زیادہ متعلق و ہم آہنگ خطبے بھی دے چکے ہیں۔ اب آخر میں یہ دعا کہ اللہ ہم سب کو یہ خطبہ عرفات میں بیٹھ کر سننا نصیب فرمائے۔