ٹرانس جینڈر ایک مغربی اصطلاح ہے اور یہ ایک پوری تہذیب کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس تہذیب کا نام ہے، ٹرانس جینڈرہے ۔آئین پاکستان کے خلاف قانون سازی کرنے والے مغربی مزاج کے حامل اچھی طرح سمجھتے اور جانتے ہیں کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ کیاہے ۔بڑی بے حیائی کے ساتھ اسے بظاہر خواجہ سراؤں کے تحفظ کا بل کہہ کرقانونی شکل دی گئی مگر اس کے پیچھے مبینہ طور پران کا متعفن مزاج پاکستان میں ٹرانس جینڈر کی خباثت کوپھیلانے کے درپے ہے۔جب تک نہ آپ ہربات کواس کے پورے سیاق وسباق کساتھ سامنے رکھیں گے تو آپ کواصل حقائق سے آگہی نہیں ملے گی۔ اپنی پیشانی پرکلمہ طیبہ کی زینت سجائے ہوئے پاکستان کی قومی اسمبلی میں یہ کیا ہو رہا دل خون کے آنسورو رہا ہے ۔پاکستان کے قانون کی سب سے بڑی مرتب کتاب’’ آئین پاکستان‘‘ اور دستور پاکستان میں جلی حروف میں لکھاہوا ہے کہ اس مملکت خدادادمیں قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہوسکتی لیکن یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ اس کے باوجودپاکستان میں خلاف شرع قانون سازی ہورہی ہے اور اکیلے کوئی دھڑا،اس حرکت میں ملوث نہیں بلکہ پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں نون لیگ،پی ٹی آئی ،پیپلز پارٹی اوران کی حلیف دھڑوں کایہ کیادھراہے ۔ان تینوں کاشرمناک عمل اس وقت سامنے آیا کہ جب پاکستان میں ٹرانس جینڈر کاایکٹ بنادیاگیا۔کیسے ہم ایسی سیاسی جماعتوں ،لیڈروںاورحکمرانوں کوپاکستان کاخیرخواہ مانیں گے جو پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کو پامال کررہے ہوں۔کس طرح ہم تسلیم کریں گے کہ وہ ریاست پاکستان کے ساتھ مخلص ہیں ۔اعمال کے ذریعے سب کا کچا چٹھا سامنے آجاتاہے کہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کوکیسے اورکن کن بہانوں سے پامال کیا جارہا ہے اورکن کے ہاتھوں یہ پامالی ہورہی ہے۔افسوس کہ پاکستان کی نئی نسل کو کن اندھیروں کی طرف دھکیلاجارہاہے ۔ پاکستان میںاسلام کی بالادستی اورریاست مدینہ کادم بھرنے والوں کی طرف سے کس طرح کے غلاظت بھرے بل پیش کئے جاتے ہیںیاللعجب! آپ جب اس سیاہ قانون کولفظ لفظ پڑھیں گے اورپھراس کی آڑ میں ہورہی جنسی تبدیلی کے اعداوشمارسامنے رکھیں گے توآپ بلاشک وریب کہیں گے کہ یہ تو مبینہ طورپرپاکستان میں ہم جنسی پرستی کی حوصلہ افزائی کررہاہے۔ المیہ اس بات کاہے کہ اس شرمناک قانون کے خلاف صرف اورصرف ایک آوازبلند ہوتی رہی اور وہ جماعت اسلامی کے واحد سینیٹرمشتاق احمد خان کی تھی ۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے سینیٹ میںشواہد کے ساتھ کہاکہ یہ قانون اپنی موجودہ شکل میں مردوں اور عورتوں میں ہم جنس پرستی کے کلچر کو فروغ دینے کا سبب بن رہا ہے مگر افسوس یہ ہے کہ ان کی آواز نقارکانے میںطوطی کی آواز کے مترادف ثابت ہوئی اوراس پر کسی نے بھی کان نہیں دھرا۔ پاکستان میں اب تک ہوئی کارروائیوں سے صاف پتہ چل جاتاہے کہ یہ قانون قرآن اور اسلام کی تعلیمات کے صریح منافی ہے۔ پوری قوم کوجماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے واحدسینیٹر مشتاق احمد خان کا شکریہ اور ان کو خراجِ تحسین اداکرنا چاہئے کہ جنہوں نے پاکستان کی قومی اسمبلی میں ہورہی غیر اسلامی ،غیرشرعی اورغیر اخلاقی قانون سازی سے قوم کوآگہی فراہم کی ۔ساتھ ساتھ یہ ہمارے لئے تازیانہ عبرت ہے کہ ہم کن لوگوں کواپنانمایندہ بناکرقومی اسمبلی میں قوم کی نمایندگی کرنے بھیج رہے ہیں۔یہ ہمارے لئے احتساب کی گھڑی ہے کہ ہمارے ووٹ سے ایسے لوگ جب ایسی قانون سازی کریں گے جوسراسراسلام کے ساتھ متصادم ہو تو پھر ہم بھی تو شریک جرم گردانے جائیں گے ۔ ٹرانس جینڈر کایہ سیاہ قانون بنانے والے اس کی (MIS INTERPATION)کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قانون صرف اورصرف خواجہ سراؤںیا صنف مخنث زن ،مخنث مرداورمخنث مشکل کے تحفظ کے لیے بنایا گیاہے لیکن شواہد او ردستاویزی ثبوت اس کے صریح برعکس ہیں۔ حقائق یہ ہیں کہ اس ایکٹ کی آڑ میںکوئی بھی مرد ’’نادرا ‘‘کو درخواست دے کر اپنی جنس عورت کرا سکتا ہے اور کوئی بھی عورت مرد بن کر اپناشناخت بناسکتی ہے۔اس پرسب سے بڑی گواہی خود پاکستان کی وزارت داخلہ کی موجود ہے کہ اس کے اعداد وشمار کے مطابق2021 تک نادرا کو جنس تبدیلی کی28723 درخواستیں موصول ہوئیں، جن پر عمل درآمد کیا گیا۔ان میں سب سے زیادہ 16530 درخواستیں جنس مرد سے عورت میں تبدیل کرنے اور15154 درخواستیں خاتون سے مرد میں تبدیل کرنے کی تھیں۔اسی طرح مرد سے ٹرانس جینڈر بننے کے لیے نو درخواستیں موصول ہوئیں جبکہ عورت سے ٹرانس جینڈر بننے کے لیے کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی۔البتہ ٹرانس جینڈر سے مرد بننے کے لیے 21 درخواستیں اور ٹرانس جینڈر سے عورت بننے کے لیے نو درخواستیں جمع کروائی گئیں۔دیے گئے شماریات کے حساب سے مرد سے عورت بننے کی خواہش رکھنے والے درخواست گزاروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، جب کہ دوسرے نمبر پر زیادہ تعداد خواتین سے مرد بننے والے درخواست گزاروں کی ہے۔ یاد رہے کہ سال2018 میںپاکستان کی انسانی حقوق کی خاتون وزیر شیریں مزاری کی طرف سے ٹرانس جینڈر افراد کے حقوق کے تحفظ کی قراردادپیش ہوئی جوساتھ ہی منظورہوئی اوراسے باضابطہ قانونی شکل دے دی گئی ۔اس سیاہ قانون کے نفاذکے بعد صورت حال یہ ہے کہ ٹرانس جینڈر افراد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ تمام سرکاری محکموں میں اپنی اسی صنف کا اندراج کرا سکتے ہیں، جس صنف کا حامل وہ خود کو سمجھتے ہوں۔