اگر اتنا بہت سا دھواں ہے تو کہیں نہ کہیں آگ بھی ہو گی۔ عون محمد سے میں نے کہا کہ عمران خان سے میری بات کرا دے۔ وہ ایسا آدمی نہیں جو فون نہ سنے، ٹالنے کی کوشش کرے یا پھر بہانہ بنائے۔ اس نے کہا :خان صاحب ورزش کر رہے ہیں۔ عرض کیا! تو کیا؟ ان کے پاس چلے جائو۔بھاگتا ہوا وہ گیا۔ خان سے میں نے پوچھا:یہ افواہیں کیوں پھیل رہی ہیں؟ظاہر ہے کہ اشارہ طلاق کے بارے میں تھا۔ اس نے کہا: نہیں،کچھ بھی نہیں۔اخبار نویس غلط بیانی کر رہے ہیں۔ اخبار نویس نے کہا تھا کہ اختلاف بہت بڑھ گیا ہے، علیحدگی ہونے والی ہے۔ دور جاہلیت کا ذکر ہے۔ ایران کے ایک بادشاہ نے جشن منانے کافیصلہ کیا۔ نہایت اہتمام سے دوسری اقوام کے وفود مدعو کیے۔ اپنی اقوام کے کمالات، ہنر اور کامرانیوں کے تذکرے انہوں نے کیے۔ بالکل اس طرح جیسے69 19ء میں رضا شاہ پہلوی نے ایرانی بادشاہت کا تین ہزار سالہ جشن برپا کیا تھا۔ایرانی بادشاہت کے بانی کی قبر پہ کھڑے ہو کرکہا تھا: آرام کی نیند سو رہو، ہم جاگ رہے ہیں۔ یہ الگ بات کہ ٹھیک ایک عشرے کے بعد، ایرانیوں نے تخت طائوس تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا۔ بادشاہ کو کسی نے مشورہ دیا کہ عربوں کو بھی مدعو کیا جائے۔ باقاعدہ نمائندے نہ سہی، ان کے کچھ تاجرنہاوندمیں موجود ہیں، انہیں بلایا گیا۔ اپنی قوم کے محاسن پر انہوں نے بات کی۔ وفاداری، شجاعت اور مہمان نوازی۔ پھر ان میں سے ایک نے کہا: بادشاہ عدل کا تقاضا تو ہے کہ عرب قبائل کے چنے ہوئے لوگ آئیں، جس طرح دوسرے ممالک کے۔ ان سات خطیبوں کے مختصر خطبات ’’بلوغ الارب ‘‘میں درج ہیں۔ عرب ثقافت اور تاریخ پر جو بہترین کتاب مانی جاتی ہے۔ لاہور کے ایک ادارے نے ان کاخلاصہ چار جلدوں میں چھاپا ہے۔عربوں سے زیادہ فصیح کبھی کوئی نہ تھا۔ وہ کہا کرتے :بہترین کلام وہ ہے جو مختصر اور مدلل ہو۔امیر معاویہؓ کے دربار میں 200سال کی عمر پانے والے اُن کے ایک بادیہ نشین خطیب نے کہا تھا: بہترین خطیب وہ ہے، جو بات شروع کرے تو کسی موضوع کو ادھورا چھوڑ کر آگے نہ بڑھے، کھانسے نہیں اور استمدادنہ کرے۔ یعنی ’’میں یہ کہہ رہا تھا‘‘۔۔۔’’میرا مطلب یہ تھا۔۔‘‘’’ دوستو اور بھائیو‘‘ عربوں کو جن چیزوں نے قبول اسلام پر آمادہ کیا، ان میں قرآن کریم کی فصاحت بھی تھی۔ ایک ایک نقّاد اور ایک سے ایک بڑا شاعر۔شاعروں کی تحسین وہ قبائل کے فیّاض سرداروں اور تلواروں کے دستے چوم کر جنگ کے قلب میں اترنے والے بہادروں کی طرح کرتے۔ضد کے مارے، بے لچک، خود پسند،انا پر جان قربان کرنے والے، مگر دھن کے پکے اور وعدہ پورا کرنے والے۔ ان میں سے کچھ یہ کہہ کر اللہ اور اس کے سچے پیغمبر اور ان پر نازل کی جانے والی کتاب پہ ایمان لائے کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہو سکتا۔ ایرانی حکمران کے دربار میں کلام کرنے والے خطیبوں میں سے ایک نے کہا تھا: بادشاہ! حسنِ ظن ایک بھنور ہے اور بدگمانی بجائے خود ایک تحفّظ۔ عمران خان کی بات پر اخبار نویس کو شبہ کرنا چاہئے تھا۔ اس خیال سے اس کے مؤقف کو من و عن مان لیا کہ غلط بیانی وہ کیوں کرے گا۔ ممکن ہے مصالحت کی کوشش میں وہ لگا ہو۔ ممکن ہے کہ اس کوشش میں وہ مخلص اور پوری طرح منہمک بھی ہو۔ خبر دینے والے کی خبر لیکن درست ثابت ہوئی۔اس کا ذریعہ اچھا تھا، اغلباً جہانگیر ترین ۔ دونوں کے درمیان اعتماد کا رشتہ ہے۔ خان کے لہجے پر مجھے غور کرنا چاہیے تھا۔ ویسا اعتماد اس میں ہرگز نہیں تھا، جیسا کہ ہونا چاہیے۔ 14اگست 2014ء سے شروع ہونے والے دھرنے کی میں نے ڈٹ کر مخالفت کی تھی۔ اس دلیل کے ساتھ کہ کچھ بھی اس سے حاصل نہ ہو گا۔ یہ بھی کہ پختونخوا حکومت کو مثالی بنانے کی کوشش کرنا ہو گی۔ خاکساریہ بھی عرض کرتا رہا کہ چیف آف آرمی سٹاف اس کھیل میں شامل نہیں۔ کھلے عام اور خفیہ طور پر خواہ کتنی ہی تائید حاصل ہو، سپہ سالار کی تائید کے بغیر کوئی انقلاب برپا ہونے سے رہا۔ وہ روٹھ گیا اور روٹھنے میں ایک حد تک حق بجانب تھا۔ بے شک خیر خواہی سے، مگر ایک دوست کی ایسی شدید تنقید وہ کیوں گوارا کرتا۔ مشترکہ دوستوں کے سمجھانے پر بعد ازاں اس نے مجھ سے رابطہ کیا۔ کھانے پر بلایا اور اس خاتون سے ملاقات کرائی، پہلے سے، جسے میں جانتاتھا ۔ خان سے کہیں زیادہ کہ صحافت کے پیشے سے اس کا تعلق تھا اور بہت دنوں سے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کھانے میں اسے شریک نہ کیا۔ شکوہ زبان پر نہ لایا اور بیتے ہوئے ایام کی روداد بیان کی۔ کبھی کبھی، کم کم وہ حیرت انگیز جذباتی توازن کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یہ ان ایّام میں سے ایک تھا۔ دھرنے کے بارے میں، میں نے بھی کوئی بات نہ کی اور یہ کہا کہ صوبائی حکومت پر اسے پوری توجہ دینی چاہئے۔ اس سے زیادہ پارٹی کی تنظیم پر۔ خاتون کے بارے میں یہ کہا کہ وہ غیر معمولی ذہنی توانائی کی حامل ہے۔ شوکت خانم، نمل یونیورسٹی یا عمران خان فائونڈیشن،کسی کام میں اسے جھونک دو۔ فارغ رہنا اس کے لیے مشکل ہو گا۔ خان نے یہ بات اسے بتائی اور وہ شاد ہوئی۔ کبھی کبھی یہ سوچ کر ملال ہوتا ہے کہ دونوں ہی میری گزارش سمجھ نہ سکے۔ ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ رمز و کنایہ میں نہیںجو کچھ کہنا ہو، کھل کر کہنا چاہئے۔ خاص طور پران سے جو اپنے خوابوں اور خواہشات کے اسیرہوں۔ روایتی سی ایک فلم بنانے کا اس نے ارادہ کیا تو خان سے میں نے کہا کہ اسے باز رکھے۔ اس نے کہا تم خود ہی اس سے بات کرو۔ بات کی مگر بے نتیجہ رہی۔ اس وقت بھی مجھے غور کرنا چاہئے تھا، مگر نہ کیا۔ اپنے مشاغل میں آدمی الجھا رہتا ہے اور واقعات دریا میں گرنے والی ندیوں کی طرح اپنے راستوں پر بہتے چلے جاتے ہیں۔ باقی تاریخ ہے۔ خاتون نے ایک زہریلی کتاب لِکھی۔ سب کچھ اس میں غلط نہیں،بہت سی باتیں بالکل درست ہیں۔ ایک بات مگر وہ نہ سمجھ سکی۔ نفرت کے جذبے سے لکھا گیا لفظ، آخر کاربے معنی اور بے ثمر ثابت ہوتا ہے۔پورا سچ وہی لِکھ سکتا اور تصویر وہی بنا سکتا ہے کسی نہ کسی حد تک جو خود سے الگ ہو سکے۔ سب سے بڑی غلطی اس نے یہ کی کہ خان کے مخالفین سے مشورہ کیا۔ ذاتی اوروقتی فائدہ اٹھانے کی کوشش میں۔ کتابیں اس طرح نہیں لِکھی جاتیں۔ چین کے فلسفی نے کہا تھا: لکھنے والے کی مرضی ہے کہ بادشاہ بنے یا بھکاری، اقبالؔ کی لافانی عظمت کا راز یہ بھی ہے کہ اپنے عہد کے تمام تعصبات سے وہ آزاد تھے۔ وہابی نہ بریلوی، شیعہ نہ سنی۔ نوبل پرائز اگر انہیں پیش نہ کیا گیا تو اس لیے کہ وہ سچّے اور کھرے مسلمان تھے۔ ان کی فکر قرآن کریم کے اوراق سے ابھری تھی ۔ دل کی گہرائیوں سے وہ رحمتہ اللعالمینؐ، اللہ اور اس کی کتاب پر ایمان رکھتے تھے۔ وگرنہ ٹیگور سے بہت بڑھ کر تھے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نوبل انعام کے لیے کیوں زیر غور نہیں آئے، حالانکہ ان کا کردار تو بنگلہ دیش کے ڈاکٹر یونس سے بہت بڑا ہے۔ وہ سود لیا کرتے اورآخرکا ر پسپا ہو گئے۔صدیوں کے بعد ڈاکٹر صاحب نے بلا سود قرض کا نظام زندہ کر دکھایا۔ خیر اس باب میں، اقبالؔ کا مرید بھی انہیں کی طرح بے نیاز اور انہی کی طرح خورسند ہے۔ تمہید اور گریز میں بات کہیں سے کہیں نکل گئی۔ اس اخبار نویس نے اب یہ اطلاع دی ہے کہ شریف خاندان کے ساتھ 70فیصد معاملات طے پا چکے۔خفیہ طور پر سودے بازی ہو رہی ہے۔ اس اطلاع پر ہمیں غور کرنا ہو گا۔ اس لیے کہ ماضی میں کئی بار وہ درست ثابت ہو چکا۔ خاص طور پر بے نظیر بھٹو کی برطرفی اور خان صاحب کے خانگی معاملات میں۔ جی ہاں، خان صاحب لین دین کے خلاف ہیں لیکن سودا اگر ہو گا تو کسی اور کے ساتھ ہوگا۔ اگر اتنا بہت سادھواں ہے تو کہیں نہ کہیں آگ بھی ہو گی، ضرور ہو گی۔