ہم جس نبی ﷺ کی اُمت ہونے کے دعوے دار ہیں، وہ اُس معاشرے میں صادق اور امین کے لقب سے مشہور تھے، جو ہر طرح کی اخلاقی و معاشرتی برائی سے لبالب تھا۔ یہی دونوں صفات اخلاقیات کی عمارت کے دو مضبوط ستون ہیں۔ آج یہ دونوں صفات اپنی اس سوسائٹی میں خُرد بین لے کے بھی ڈھونڈیے، مفقود پائیں گے۔ ہر مہذب قوم اور سلجھے ہوئے معاشرے میں مذہب، سیاست اور تعلیم ہی کے شعبے اخلاقیات کے سب سے بڑے علم بردار ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ تینوں ادارے ریا کاری، منافقت، جھوٹ، خیانت اور جعل سازی سے آلودہ ہیں۔ مذہب، فرقہ بازی کا چورن بیچنے کا ٹھِیا بن چکا ہے… سیاست ، لُوٹ مار، اقربا پروری اور دھونس دھاندلی کی بِین پہ اَنھے واہ رقص کرتی ہے۔ تعلیم کا تو پوچھیں ہی ناں… موجودہ تعلیمی اداروں میں آپ کو چیٹر، پھٹیچر، کاروباری، عاشق، فنکار،علامہ، سب ملیں گے لیکن استاد غائب ہے۔ایک ایک ادارے کی سیر کر لیں ہر جگہ آپ کو مرضی کے ٹائم ٹیبل، اختیار کی کرسی، پسند کے کمروں پہ پانی پت جیسی جنگیں ہوتی دکھائی دیں گی۔ حضرت عائشہ ؓ سے آپ ﷺ کے اخلاق کی بابت دریافت کیا گیا تو ہماری اس عظیم اماں جی نے فرمایا: آپ ﷺ کا اخلاق قرآن ہے۔ آج بھی وہ قرآن اپنی اصلی اور خالص شکل میں ہر مسلم گھرانے، ہر کتب خانے، ہر عبادت گاہ میں موجود ہے لیکن ہم اس کی تعلیمات سے کوسوں کی دُوری پر ہیں۔ ہم ایسی عجیب و غریب قوم ہیں کہ انگریزی سیکھنے کے لیے تن من دھن کی بازی لگا دیں گے۔ مغربی جمہوریت اور قوانین کی مثالوں سے ہماری الماریاں بھری ہیں۔ دوسری قوموں کے لباس اور خوراک کی بیٹھے بٹھائے درجنوںقسمیں یاد کر لیتے ہیں۔ بچے کا نام رکھنا ہو تو عربی، فارسی، یونانی، ایرانی، خراسانی لغات کی تیراکی کر ڈالیں گے۔ جہاں کائنات کے ہر مسئلے، ہر مرض کے علاج کی حامل کتاب، قرآن کی تفہیم کی بات آتی تو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اجنبی زبان کا راگ الاپنے لگتے ہیں۔ سرسید احمد خاںجیسا مصلح اور معاملہ فہم ہندوستان کی تاریخ میں نہیں ملے گا۔ وہ قیامِ لندن کے دوران انگریزی تہذیب اور تاریخ کا گہرا مطالعے کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اخلاقی پستی ہی کسی قوم کی ترقی کے راستے میں سب سے بری رکاوٹ ہے۔ چنانچہ انھوں نے بغیر وقت ضائع کیے وہیں قوم کی اصلاح کے لیے ایک رسالہ نکالنے کا فیصلہ کیا، جس کا نام ’’تہذیب الاخلاق‘‘ رکھا، وہیں اس کا ڈیکلریشن منظور کرایا، اور واپسی پر 1870 ء میں اس کا اجرا کر دیا۔ انھوں نے مسلمان قوم میں بے شمار اخلاقی امراض کی نشان دہی کرتے ہوئے جن دو برائیوں پہ خاص طو پر توجہ مرکوز کی، وہ خوشامد اور بحث و تکرار تھیں، جن کا خاطر خواہ علاج ڈھونڈنے کی ہم نے آج تک کاوش ہی نہیں کی۔ یہ دونوں بیماریاں نہ صرف عقل، دلیل، فہم و فراست، میرٹ، معیار اور وقار کی سب سے بڑی دشمن ہیں بلکہ ہڈ حرامی، بے عملی، نالائقی، ڈُلّوپن کے باوجود، فی زمانہ مصنوعی ترقی کی مضبوط سیڑھیاں ہیں۔ آج اپنے ملک کے ایک ایک ادارے کا سروے کر لیں، ہر جگہ میرٹ منھ چھپائے پھرتا ہے، دلیل سر میں خاک ڈالے بیٹھی ہے اور خوشامد و کاسہ لیسی گھر گھر، نگر نگر پردھان بنی بیٹھی ہیں۔ پوری دنیا میں ملک کے صدر کو بھی اس کے اصل نام سے پکارا جاتا ہے، ہمارے ہاں چھوٹے سے چھوٹا افسر بھی مائی باپ، حضورِ والا، سرکار،عالی جناب جیسے جعلی القاب و آداب کی جگالی کیے بغیر بات سننے پر راضی ہی نہیں ہوتا، جی حضوری کایہ نشہ اس کے کانوں میں انڈیل دیں تو افسری مشین حرکت کے قابل ہو جاتی ہے۔ اُس کے بعد جتنا چاہے میٹھا ڈالتے جائیں اور بغیر کسی قابلیت کے بیٹھے بٹھائے تن من دَھن کی مراد پاتے جائیں۔ مالی، زبانی، جسمانی رشوت نے ہر جگہ نہلا نوازی کے دَر وا کر رکھے ہیں۔ عقابوں کے نشیمن، زاغ و زغن کی تحویل میں ہیں: ’کرسی‘ کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے جہاں تک بحث و تکرار کا تعلق ہے، اس کے عملی مظاہرے آپ کو گھروں، بازاروں، اداروں سے لے کے چوکوں چوراہوں میں ملیں گے۔ سیانے کہتے ہیں: جہاں دلیل ختم ہوتی ہے، زبانیں گز گز کی ہوتی جاتی ہیں۔ حوصلہ اور برداشت تو ویسے ہی دُم دبا کے بھاگ چکے ہیں۔ ذہنی مفلسی راج کر رہی ہے۔ پنجابی محاورے کے مصداق ’جِنّا لُچّا، اونا اُچا‘ کا کلچر عام ہوتا جاتا ہے۔ اہلِ خرد، جہلا سے متعلق ’قالو سلاما‘ کے فارمولے پر کاربند ہیں کیونکہ سرسید نے اپنے مضمون ’بحث و تکرار‘ میں اس عمل کو کتوں کی لڑائی سے تشبیہہ دی ہے۔ آج کے ٹی وی ٹاک شوز اس کا سب سے جدید اور بے دید اظہاریہ ہیں، لالہ بسمل نے ایسے مباہلوں کی شعری عکس بندی ان الفاظ میں کر رکھی ہے: اَول ہونا چاہیے ، کچھ فَول ہونا چاہیے بد تمیزی کے لیے ماحول ہونا چاہیے آگ لفظوں سے لگائی جا تو سکتی ہے مگر آپ کا لہجہ ذرا پٹرول ہونا چاہیے اخلاقیات پر ایک بڑا اثر راتوں رات امیر ہونے کے جنون نے ڈالا۔ ہم نے اگلی نسل کی سہولت کاری میںخود کو کولھو کا بَیل بنائے رکھا اور بچوں سے تجربے اور مشقت کا لطف چھین لیا۔اقدار، معیار، اَطوار سکّوں میں تُلنے لگے۔ کل رات اپنے اسی پاٹے پرانے قومی اخلاق کی بابت سوچتے سوچتے آنکھ لگ گئی۔ خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بوسیدہ و دریدہ لباس شخص، برا حال بانکے دیہاڑے، نموجھانا سرِ راہ کھڑا ہے۔ سامنے موٹا تازہ مسٹر معاشرہ اسے چھِبیاں دینے والے انداز میں کہے جا رہا ہے: ساڈے منھ تے رونق تک لَے اندرو اندری سڑ لَے ، پک لَے ہمت ای تے سانوں ڈک لَے جو بکنا ای چھیتی بک لَے شیشے کول کھلو کے اپنی لیر و لیر پوشاک تے ویکھ تُوں وڈا اخلاق تے ویکھ (ختم شد)