کشمیر فتح ہو چکا۔ جشن ترقی و کمال منایا جا چکا۔ چن چن کر سارے مخالف جیل میں ڈال دیے گئے اور آخری مرحلے کے طور پر سول اینڈ ملٹری تعلقات ایسے عروج پر پہنچ چکے‘ آرمی چیف کومدت ملازمت میں توسیع دی جاچکی۔ اب کیا باقی ہے اخبارات پر نظر ڈالئے۔ یا ٹی وی کے روبرو پل بہ پل بیٹھنے سے یہی تاثر ملتا ہے۔ ایسے میں گزشتہ دو تین روز سے میں نے یہ حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے کہ ٹی وی صرف خبروں کے لئے دیکھتا سنتا ہوں۔ تجزیوں اور تبصروں سے پرہیزکرتا ہوں۔ اخبارات کی خبریں دیکھ کر مطمئن ہو جاتا ہوں اور کالم نہیں پڑھتا تاکہ میرے ذہن میں باہر کے خیالات نہ آ سکیں۔ ہاں البتہ ان کالموں کو سنبھال کر رکھ رہا ہوں تاکہ چار چھ دن کے بعد اکٹھا پڑھ سکوں۔ انگریزی میں چھپنے والے عالمی امور پر کالم ضرور دیکھ لیتا ہوں۔ ایک عجیب کیفیت کا احساس ہوتا ہے۔ اتنے اہم واقعات ہو رہے ہیں جن کا میں نے ابتدا میں تذکرہ کیا ہے کہ ان پر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو دماغ کی چولیں ہل جاتی ہیں۔ اس پر جب تبصرے پڑھتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ یا توآپ خود بیوقوف ہیں یا بیوقوفوں کے اژدحام میں گھرے ہوئے ہیں۔ یہ میں کوئی یاسیت کی بات نہیں کر رہا۔ کسی غیر جانبدارانہ سوچ کا ماحول پیدا کرنے کا تجربہ کر رہا ہوں۔ ایک بے تعلقی یا بے نیازی میں اسے نہیں کہہ سکتا۔ کیونکہ جیسی فکر مندی اس وقت قوم کے ہر فردمیں پائی جاتی ہے ماضی میں شاید ہی اس کی مثال ملتی ہو۔ پھر وہی بات کہ سقوط ڈھاکہ کے دن یاد آتے ہیں۔ کشمیر میں بھارت کی حالیہ آئینی جارحیت پر جانے وہ دن کیوں یاد آتے ہیں۔ منہ سے بے ساختہ نکلتا ہے کیا ہم کشمیر کھو چکے ہیں کیا بھارت نے اس پر حتمی قبضہ جما لیا ہے۔ کیا دنیا کا ضمیر اسی طرح خاموش رہے گا۔ جیساکہ وہ ہے۔ ہم اس پر کیا کر پائیں گے ہم اس پر خوش ہوتے رہیں گے کہ سلامتی کونسل کے ارکان نے ایک میٹنگ کرڈالی ہے۔ اس پر تالیاں پیٹیں گے کہ 50سال کے بعد یہ مسئلہ اس عالمی ادارے کے ایوانوں میں تازہ ہو گیا ہے۔ اس ادارے نے بھی ابھی فیصلہ نہیں کیا کہ باقاعدہ اجلاس بلایا جائے بلکہ یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ ہم اس عالمی مسئلے کو باہمی طور پر مل جل کرطے کر لیں یہ بھی عجیب بات ہوئی کہ فرانس نے کھل کر ہماری مخالفت کر دی ہے۔ کس لئے؟ کیوں؟ اس لئے کہ اس بارامریکہ یا برطانیہ کی دخل اندازی مناسب نہ تھی۔ روس روایتی طور پر اسے ویٹو کرتا آیا ہے اب چین کی وجہ سے ایسا نہیں کرے گا۔ سو عالمی مقتدرہ نے فرانس کو آگے کر دیا۔ کیا چین کے ہمارے ساتھ ایسے دو طرفہ تعلقات ہیں کہ وہ اپنے ذاتی مفاد سے اٹھ کر بھی ہمارا ساتھ دے سکے گا۔ ہمارے تقاضے چین سے بھی کچھ بڑھ کر ہیں سعودی عرب اور خاص طور پر متحدہ عرب امارات بھارت کی کس طرح دلجوئی کر رہے ہیں۔ ہم نے ایرانی گیس پائپ لائن کا صرف شوشا چھوڑا ہے یا ہم سچ مچ اپنی علاقائی حکمت عملی تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے عالمی سطح پر کئی اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ کیا ہم کچھ کر پائیں گے سنا ہے عالمی عدالت انصاف میں جانے کا جو فیصلہ کابینہ نے کیا تھا وہ بھی حتمی نہیں ہے۔ ہاں بھئی سوچ سمجھ کر جانا چاہیے۔ اتنا ہی ہو جائے۔ عالمی اداروں کا بھی ایسا ہی حال ہے۔ ہمیں کیا کرنا ہے‘ جو کرنا ہے کشمیریوں نے کرنا ہے ۔بھارت بھی اسی سے خوفزدہ ہے اور دنیا بھی اس کی منتظر ہے کہ کرفیو اٹھنے کے بعد وادی کی صورت حال کیا ہوتی ہے۔ پہلے بھی جو یہ مسئلہ ہم نے 50سال بعد عالمگیر بنا دیا ہے تو اس میں ہماری حکومت کا کیا کمال ہے۔ جو کچھ کمال ہے وہ مودی کا ہے۔ نہ مودی کشمیر پر آئینی جارحیت کرتا ہے نہ مسئلہ عالمگیر بنتا۔ اب جو کرنا ہے کشمیریوں نے کرنا ہے۔ ہم بھی یہ سوچ رہے ہیں گویا یہ کہہ رہے ہیں۔ اٹھو‘ مزید قربانی دو ہم تمہاری آوازعالمی سطح تک پہنچائیں گے۔ مجھے تو نہیں لگتا کہ بات یہاں تک رک جائے گی۔ بات کس طرف بڑھے گی۔ وہ بھی شاید کسی کے پلے نہیں پڑی۔ ہم کچھ چوکس تو ہوئے ہیں مگر ابھی تک کوئی ایسی بات نہیں ہوئی جس پر ہم فخر کر سکیں۔ حضور والا یہ بات سمجھ لینے کی ہے۔ کہ اگر کشمیر سچ مچ ایک بڑے بحران کی طرف بڑھ رہا ہے تو پھر یہ بات طے ہے کہ پاکستان حالت جنگ میں ہے اور جنگ کبھی منقسم ہو کر نہیںلڑی جاتی۔ ہم نے تو گرفتاریوں کی رفتارکو مہمیز لگا دی ہے۔ اب تو ایسے مقدمات بھی ہیں جن کا تعلق کرپشن کے خلاف جنگ سے کہیں بڑھ کر ہے اب تو وہ بیانیہ بھی فوری سبب بناہے جس میں ایک لیڈر کی وہ تقریر بھی شامل ہے کہ ہم خاکم بدہن کشمیر کا سودا کر چکے ہیں۔ ایک طرف یہ گرفتاریاں دوسری طرف سختیاں‘ صرف آزادی اظہار پر ہی نہیں بلکہ کاروباری طبقے پر بھی ہماری معیشت مسلسل روبہ زوال ہے۔ اس بات کا البتہ امکان پیدا ہوا ہے کہ شاید ہم سنبھل جائیں لیکن جو نقصان ہو چکا ہے اس کا تدارک کون کرے گا ترقی کی رفتار جو 6فیصد سے زیادہ ہونا تھی اب تین فیصد سے کم ہے ہم پر عالمی دبائو کا اس قدر اثر ہے کہ ہمارے منصوبہ سازوں نے اس سال کے لئے یہ رفتار ترقی 4فیصد رکھنا چاہی تو خزانے کے مالکوں نے صاف کہہ دیا‘ ہرگز نہیں اسے2.5فیصد سے بھی کم رکھو۔ یہ ہوتی ہیں عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط گزشتہ دنوں کسی نے پوچھا یہ جو جشن ترقی و کمال منایا جا رہا ہے اس پر عالمی رائے کیا ہے ۔جھٹ عرض کیا کہ یہ جشن کسی کو راس نہیں آتا۔ ایوب خاں نے دس سال اور کوشش کی تھی اور منہ کی کھائی تھی۔ اس نے تو بہت کچھ کر رکھا تھا ان کا تو پہلا سال ہے اور وہ بھی یہ تسلی دیتے گزرا ہے کہ ابھی ہم پہلوں کے گند صاف کر رہے ہیں۔ فکر نہ کرو ہم آپ کو خطرات سے نکالیں گے غربت ہے تو کیا ہوا مہنگائی ہے تو فکر نہ کریں۔ علاج و ادویات مہنگی ہوئیں تو کوئی بات نہیں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ بس دو تین برس بات ہے پھر معیشت چوکڑیاں بھرنے لگے گی۔ عام خیال تھا کہ ایک سال گزرنے پر یہ حکومت اپنی کارگزاری گنانے کی کوئی حرکت نہیں کرے گی۔ دعاتھی: درد کی سال گرہ خیر سے گزرے گوہر آ گئی رات وہی چاند گہن ہونے کی مگر دعا قبول نہ وئی وہاں مگر عمران خان کوداد دینا پڑتی ہے کہ وہ ایسی تقاریب میں خود نہیں آئے پتانہیں بعد میں آ گئے ہوں‘ میں نے بتایا تھا کہ میں آج کل ٹی وی اخبارات سے اجتناب کر رہا ہوں کوئی ایسی کارکردگی نہیں ہے جو گنائی جاسکے صرف حوصلہ دینے کی بات ہے ایک عجیب سناٹا طاری ہے‘خدا خیر کرے۔ ایسے میں یہ قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں کہ سپہ سالار اعظم کی مدت ملازمت میں توسیع کے دن قریب آ رہے ہیں۔ یہ دن ہمارے ہاں روایتی طور پر بڑے کھچائو میں گزرتے ہیں۔ بہرحال یہ طے تھا کہ اس کے سوا چارہ کار ہی نہیں ہے جو اب ہوایہ بات میں طنزاً نہیں کہہ رہا۔ بلکہ دل کی گہرائیوں سے کہہ رہا کہ اور کوئی رستہ نہیں باقی بجا تھا۔ ایک تو وہی کہ عین منجدھار میں گھوڑے تبدیل نہیں کیا کرتے۔ دوسرے یہ کہ امریکہ میں پینٹا گون نے جس طرح 21توپوں کی سلامتی دی تھی اس کے بعد تو یہ بات یقینی تھی کہ افغانستان کی صورت حال کی وجہ سے کوئی تبدیلی مشکلات پیدا کر سکتی ہے اس وقت جیسی سول اینڈ ملٹری ہم آہنگی ہے۔ اس کا ملک پر مزید کیا اثر پڑے گا۔ اس پر فوری طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ صرف دعا کر سکتے ہیں کہ اللہ ملک کو ہر مشکل سے بچائے ہمارے ہاں دوسری بار ترقی کی ماضی قریب میں صرف ایک مثال ہے جنرل کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع ‘مشرف‘ ضیاء الحق وغیرہ کو اس صف میں نہ رکھیں۔ جنرل کیانی کا پہلا دورہ خدا نے پرسکون گزارا دوسرے دور میں بہت کچھ تھا۔ مشکلیں ہی مشکلیں۔ ایبٹ آباد اسامہ بن لادن کی دریافت‘ میمو گیٹ سلالہ کا واقعہ اور نیٹو افواج کی نقل و حرکت پر پابندی۔ سیاسی طور پر بھی یہ بات ہنگامہ خیز تھا۔ صرف فوج کی طرف سے کیری لوگر بل کی مخالفت کا واقعہ شاید ان کی پہلی مدت ملازمت کے دوران ہوا تھا آنے والے دن بہت خطرات لئے ہوئے ہیں کسی کو تو اس کا سامنا کرنا ہے۔ خدا کرے اس بار یہ تجربہ ہمارے آرمی چیف کے لئے مشکلات نہ لائے کیونکہ آپ نے دیکھا یہ مشکلات صرف چیف کے لئے نہیں ہوتیں ملک کے لئے بھی ہوتی ہیں۔ دو چار روز میڈیا کا بائیکاٹ جاری رکھتا ہوں پھر نارمل ہونے کی کوشش کروں گا ابھی تو غیر معمولی صورت حال میں لکھی ہوئی یہ چند سطریں قبول فرمائیں۔ لگتا ہے خلا میں بے وزنی کی کیفیت میں بھی آدمی ایسے ہی سوچتا ہے۔ شاید بہتر سوچتا ہے۔