اللہ تعالیٰ نے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام اس دنیا میں مبعوث فرمائے اوروہ صاحب اولاد بھی ہوئے ۔ جن کے ساتھ انبیاء کرام نے اپنی صاحبزادیوں کو منسوب فرمایا وہ یقینا عزت و عظمت والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نبی کا داماد ہونا ایک بہت بڑا مرتبہ ہے جو خوش نصیب انسانوں ہی کو نصیب ہوا ہے ۔مگر اس سلسلے میں جو خصوصیت اور جو انفرادیت حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو حاصل ہے وہ کسی کو نہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک کسی کے نکاح میں نبی کی دو بیٹیاں نہیں آئی ہیں لیکن حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں صرف نبی نہیں بلکہ نبی الانبیاء اور سید الانبیاء جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگر نکاح میں آئیں۔ قرآنی آیات اوراحادیث ِ میں آپ کے کثیرمناقب بیان ہوئے جن کا تفصیلاًذکر کرنے کے لیے ایک دفتردرکارہے ۔سردست ان سطور میں آپ کے دور خلافت کے حوالے سے کچھ معلومات قارئین تک پہنچانا مقصود ہے ۔ جب امیرالمؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی طبیعت قاتلانہ حملے کے بعد زیادہ ناساز ہو ئی توآپ نے لوگوں کے اصرار پر خلیفہ کے انتخاب کے لئے جن اشخاص کے نام پیش کیے ان میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کااسم گرامی بھی تھا ۔آپ نے خلیفہ وقت کے انتخاب کے لئے ایک شورائی کمیٹی تشکیل دی اورفرمایااس کمیٹی کی باہمی مشاورت سے خلیفہ کا انتخاب ہو گا۔اس کے بعد اتفاق رائے سے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ بطورخلیفہ منتخب ہوئے ۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے طرز حکومت میں عصر حاضر کے لیے بے شمار رہنمائی پنہاں ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ سن چوبیس ہجری کی ابتداء میں مجلس شوری کے انتخاب سے تیسرے خلیفہ راشد اور امیر المومنین منتخب ہوئے ۔ آپ کارِ خلافت شیخین کی سنت کے مطابق انجام دیتے تھے ۔آپ اپنے نظامِ حکومت میں اسلامی تشریحات کو فوقیت دیتے اور کوشاں رہتے کہ ہر شعبہ حیات میں ان ہی تعلیمات کی پیروی رہے ۔ ان قوانین اسلام کا اولین اطلاق حاکم وقت پر ہوتا۔ پھر اس کے نامزد والیان، عمال اورقضاۃ (گورنروں، وزرا اور ججوں) پر ہوتا تاکہ حکام کی سیرت اور قوانین کی پاسداری کا عمل رعایا کے لیے مشعلِ راہ بنے اور وہ قوانین کی پاسداری کریں۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا طرز حکومت، خلافت راشدہ کے باقی حکمرانوں کی طرح ہر دور میں حقیقت کے متلاشی کے لیے رہبر ورہنما ہے ۔ عصر حاضر میں بھی موجودہ حکومت جو کہ پاکستان کو ریاستِ مدینہ بنانے کی خواہش مند ہے ، کیا ہی کمال ہو کہ وہ ریاستی اصولوں، ترجیحات کے تعین اور عدل وانصاف کی فراہمی میں عہد عثمانی سے رہنمائی لے ۔ حقیقی تبدیلی کے لیے پاکستان میں حکومت وقت کو اس طرز عمل کو لازمی اپنانا چاہیے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے سابقہ اسلامی حکومتوں کی اتباع میں اسلامی دنیا کی وحدت کو برقرار رکھا۔ نظامِ عدل اور نظامِ اقتصاد میں برابری کو ملحوظ رکھا گیا۔خلافت کی ذمہ داری اٹھانے کے بعد آپ نے عصرِ فاروقی کی تمام پالیسیوں کو من و عن جاری رکھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کا یہ عمل اس بات کا شعور دلاتا ہے کہ حکومتیں قومی نوعیت کے قوانین کو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر بدلتی نہ پھریں بلکہ قومی مفاد میں وجود میں آئی طویل مدتی پالیسیز کو جاری رکھا جانا چاہیے ۔آپ کی سلطنت مختلف صوبوں میں منقسم تھی، ہر صوبے کا ایک گورنر تھا اس کو بیت المال سے تنخواہ ملتی۔ وہ اسلامی قوانین کے مطابق صوبے کا انتظام وانصرام سنبھالتا۔ گورنر کو اختیار ہوتا کہ بیت المال پر خلیفہ کی طرف سے نمائندہ مقرر نہ ہونے کی صورت میں وہ جزیہ وخراج اور تجارتی عشر کی وصولی کی نگرانی کرتا اور اسے صوبے کی ضروریات پر خرچ کرتا۔ زائد مال مدینہ میں مرکزی بیت المال کو بھیج دیتا۔ صوبے کے امرا ء سے لیکر فقرا پر خرچ کیا جاتا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں بھی فتوحات کا دائرہ برابر وسیع ہوتا رہا ۔چنانچہ آپ کے زمانہ خلافت کے پہلے سال یعنی 24ہجری میں ’’رے ‘‘ فتح ہو ا ۔رے خراسان کا ایک شہر ہے جو آجکل ایران کا دار السلطنت ہے اور اسے تہران کہتے ہیں۔ 26ہجری میں شہر سابور فتح ہوا ۔27ہجری میں جہاز کے ذریعہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بحری جہازپرلشکر لیجا کر قبرص پر حملہ کیا ۔ اس کو فتح کر لیا اور جزیہ لینے کی شرط منظور کر لی ۔ اسی 27ھ میں جرجان اور دار بجرد فتح ہوئے اور اسی سال جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح کو مصر کا گورنر بنایا تو انہوں نے مصر پہنچ کر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے حکم سے افریقہ پر حملہ کیا اور اسکو فتح کر کے ساری سلطنتوں کو حکومت اسلامیہ میں شامل کر لیا ۔اس جنگ میں اس قدر مال غنیمت مسلمانوں کو حاصل ہوا کہ ہر سپاہی کو ایک ایک ہزار دینار اور بعض روایت کے مطابق تین تین ہزار دینار ملے ۔دینار ساڑھے چار ماشہ سونے کا ایک سکہ ہوتا ہے ۔اس فتح عظیم کے بعد اسی 27ھ میں اسپین یعنی ہسپانیہ بھی فتح ہو گیا اور 29ھ میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے حکم سے بعض دوسرے ممالک بھی فتح ہوئے ۔30ھ میں جو ر، خراسان اور نیشاپور صلح کے ذریعہ فتح ہوئے ۔اسی طرح ملک ایران کے دوسرے شہر طوس ،سرخس ،مرو اور بیہق بھی صلح سے فتح ہوئے ۔ اسقدر فتوحات سے جب بے شمار مال غنیمت ہر طرف سے دار الخلافت میں پہنچنے لگا تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے لوگوں میں اس فراخ دلی سے مال تقسیم فرمایا کہ ایک ایک شخص کو ایک ایک لاکھ بدرے ملے جبکہ ایک بدرہ دس ہزار درہم کا ہوتا ہے ۔(تاریخ الخلفائ) حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ 35ھ 18 ذی الحجہ میں شہید ہوئے جبکہ آپ کی عمر بیاسی (82)سال کی تھی آپ کے جنازہ کی نماز حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے پڑھائی اور آپ حش کوکب کے مقام پر جنت البقیع میں دفن کئے گئے ۔اللہ تعالیٰ آپ کی قبرمبارک پر کروڑوں رحمتوں کا نزول فرمائے ۔آمین