جون 2020 ء میں شروع ہونے والی مون سون کی بارشوں نے ملک کا ایک تہائی حصہ شدید متاثر ہوا‘اکتوبر میں این ڈی ایم اے ایک رپورٹ جاری کی جس میں اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی کے اعداد و شمار جاری کیے جو ہوش ربا بھی تھے اور تکلیف دہ بھی۔دو سے تین ماہ کے دوران اس سیلابی آفت سے 33 ملین لوگ متاثر ہوئے‘حکومتی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سیلاب سے دس بلین امریکی ڈالر(2206 ٹریلین ڈالر)کا نقصان ہوا جس کا ازالہ کم و بیش اگلے دس سال تک ناممکن ہے۔سیلاب کے تین ماہ ہم پر کتنے بھاری گزرے‘دردناک حقائق ہیں۔این ڈی ایم اے کے مطابق اس سیلاب میں تقریباً دو ہزار لوگ لقمہ اجل بنے‘ساڑھے چھے لاکھ سے زائد حاملہ خواتین متاثر ہوئیں‘تیرہ ہزار لوگ متاثر ہوئے‘بارہ لاکھ سے زائد مال مویشی ہلاک ہوئے‘ تئیس لاکھ سے زائد گھر تباہ و برباد ہوئے اور سینکڑوں قصبے اور دیہات زیر آب آئے۔اس مشکل گھڑی میں سینکڑوں اندرونی و بیرونی این جی اوز‘ فائونڈیشنز اور اداروں نے فلاحی و ترقیاتی کام کیے جو یقینا قابلِ تحسین بھی ہیں اور قابلِ توجہ بھی مگر اس تکلیف دہ گھڑی میں الخدمت فائونڈیشن نے ہمیشہ کی طرح حیرت انگیز کام کیا‘شاید اتنا کام حکومتی ادارے اور درجنوں تنظیمیں مل کر بھی نہیں کر سکیں جو ایک الخدمت نے کیا،میرے سامنے الخدمت فائونڈیشن کی سیلابی رپورٹ پڑی ہے اور میں حیرت میں مبتلا ہوں۔ الخدمت جوہر مشکل گھڑی میں پاکستانی عوام کا سہارا بنی‘سیلاب زدگان ہوں یا زلزلہ متاثرین‘بے سہارا بچیوں کی شادی کا مسئلہ ہو یا پھر طالب علموں کے لیے اسکالر شپ کا اہتمام کرنا ہو‘یتیم بچوں کی کفالت کا معاملہ ہو یا بے گھروں کو گھر فراہم کرنا ہو،ہر جگہ ایک ہی نام نظرآتا ہے اور وہ ہے الخدمت فائونڈیشن۔میرے لیے یہ رپورٹ اس لیے بھی اہم ہے کہ سیلاب کے دوران ہم سب کی نظریں سرکار پر تھیں‘سرکاری اداروں کو اندرونی و بیرونی فنڈنگ بھی میسر تھی اور دوست ممالک سے امدادی سامان بھی منوں کے حساب سے آیا‘اس کے باوجود ایک نجی ادارے نے سرکاری اداروں سے کہیں زیادہ کام کیا‘ اس کی بنیادی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟یہ سوال بہت اہم ہے۔ الخدمت کی سیلابی رپورٹ کے مطابق سیلاب زدگان کے لیے ریلیف کا کام انتہائی تیزی سے کیا گیا‘ خوراک کی فراہمی‘ صحت کی سہولیات اور صاف پانی کی فراہمی سے لے کر خیمہ بستیوں کے قیام‘سکولوں کے قیام اور مچھر مار اسپرے تک،اس قدر کام ہے کہ اس کے لیے کئی کالم درکار ہیں۔ اس اہم ترین فلاحی ادارے نے سیلاب متاثرین کے لیے 61,758 خیمے اور ترپالیں پہنچائیں‘ 69خیمہ بستیاں آباد کیں‘ 2,296 میڈیکل کیمپس لگائے‘ 60موبائل میڈیکل یونٹس قائم کیے‘ 768,519مریضوں کو ابتدائی طبی سہولیات فراہم کیں‘ 6فیلڈ ہسپتال بنائے‘ 52,109 ہائی جین کٹ اور 321,500 مچھردانیاں فراہم کیں‘41 مختلف مقامات پر الخدمت کچن قائم کیے جہاں متاثرین کے لیے کئی ماہ تک تین وقت کا کھانا تیار ہوتا رہا‘متاثرین میں 271,140فوڈ پیکجز تقسیم کئے‘مجموعی طور پر 85,200افراد کو روزانہ دو وقت کا پکا پکایا کھانا فراہم کیا جاتا رہا۔اگر ہم صاف پانی کی بات کریں تو 13موبائل واٹر فلٹریشن پلانٹس اور 13فلٹریشن پلانٹ قائم کیے گئے‘106مقامات پر واٹر ٹینکر بھجوائے گئے‘ 205 مقامات پر واٹر سٹوریج بینک قائم کیے‘ 33,000 جیری کینز بھجوائی گئیں‘اس صاف پانی سے روزانہ 266,341 افراد مستفید ہوتے رہے۔ امدادی سرگرمیوں میں 56,220 لوگ ریسیکو کیے گئے‘43امدادی کشتیاں اور گاڑیاں سرگرم عمل رہیں‘ 62,805 رضا کار کئی ماہ بلامعاوضہ کام کرتے رہے‘مجموعی طور پر 219امدادی ٹرک متاثر علاقوں کی جانب روانہ کیے گئے۔بحالی و تعمیر ِ نو پروگرام کے تحت اس عظیم ادارے کی جانب سے 392 مکانات تعمیر کیے گئے‘1,518مکانات کی تعمیر میں معاونت کی گئی‘2,225یتیم بچوں کی کفالت کا ذمہ لیا گیا‘53مساجد اور 9سکولز از سرِ نو تعمیر کیے گئے‘8,270کسانوں کی مالی معاونت کی گئی اور 579صاف پانی کے منصوبے شروع کیے گئے۔ الخدمت کا یہ کام صرف ایک صوبے تک محدود نہیں بلکہ ان تمام اضلاع اور دیہات تک رضا کار بھیجے گئے جہاں سیلاب نے چھوٹے یا بڑے پیمانے پر متاثر کیا تھا۔یہ سیلابی رپورٹ کا سرسری جائزہ ہے‘جیسا کہ پہلے عرض کی کہ اگر اس رپورٹ کو تفصیلی زیر بحث لایا جائے تو کئی کالم درکار ہوں گے ۔یہی وجہ ہے کہ میں نے شروع میں عرض کی کہ ایک نجی ادارے کا سیلاب متاثرین کے لیے اتنا زیادہ کام قابلِ تحسین بھی ہے اور قابل توجہ بھی، کیوں کہ ہمارے سرکاری اداروں نے اس قدر تفصیلی رپورٹ تاحال شائع نہیں کی حالانکہ انہیں یہ کام سب سے پہلے کرنا چاہیے تھا‘سرکار کے پاس تو حکومتی مشینری بھی تھی اور دوست ممالک کا دستِ محبت بھی۔ الخدمت تو ایک نجی ادارہ ہے جسے جماعت اسلامی جیسی منظم جماعت چلا رہی ہے‘ برسوں اس ادارے کو میاں عبد الشکور جیسے درویش منش ہستی کی سرپرستی میسر رہی اور اس ادارے نے اپنی عمر سے کہیں زیادہ کام کیا‘1990ء میں بننے والے اس ادارے نے اس قدر کام کیا ہے کہ ادارے اتنا کام صدیوں میں کرتے ہیں۔میری اس بات کی تصدیق کے لیے حالیہ سیلابی رپورٹ کافی ہے‘میں آپ سب دوستوں سے بھی گزارش کروں گا کہ محبت کے اس سفر میں الخدمت کا سہارا بنیں کیوںکہ اس تنظیم کو کسی بی طرح کی سرکاری سرپرستی یا سرکاری فنڈنگ میسر نہیں‘یہ صرف اور صرف محبت وطن پاکستانیوں یا اوورسیز پاکستانیوں کے بھروسے پر چل رہی ہے اور یقینا چلتی رہے گی۔