200فلسطینی مسلمانوں کی شہادت اورغزہ ملبے کے ڈھیرمیں تبدیل ہونے کے بعد اتوار 16 مئی 2021کو اسلامی تعاون تنظیم یااو آئی سی کے وزرائے خارجہ کاآن لائن اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں شرکاء نے حسب سابق سرزمین انبیاء فلسطین بالخصوص غزہ پراسرائیلی جارحیت کی خوب مذمت کی۔اس طرزعمل پریہ کہناہرگز بے جانہ ہو گا کہ ’’بڑی دیرکی مہربان آتے آتے‘‘ ۔ اس اجلاس سے کسی ہوشمند مسلمان کوقطعی طور پر کوئی امید وابستہ نہیں تھی کیونکہ یہ کل کی بات ہے کہ فورم کے متعدد اہم رکن ممالک یکے بعد دیگر کھلے بندوں یاکچھ ڈھکے چھپے انداز میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوارکرچکے ہیں او ر دیکھا جائے توقبلہ اول کی بازیابی کے حوالے سے عملی طور پر سپر انداز ہو چکے ہیں۔ کیاہم نہیں جانتے کہ بس چند الفاظ پرمشتمل ایک عددبیان دینا اسرائیلی اورامریکی جارحانہ اقدام کے مقابلہ میں محض ایک مذاق ہو گا جبک جو بار بارعالم اسلام سے کیاجاتارہا ہے جبکہ فلسطینیوں کی حالت زار ہم سے اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات کی متقاضی ہے۔ کیاسفاک امریکہ اوراسرائیل نہیں جانتے ہیںکہ اوآئی سی کے وزرائے کارجہ کایہ ورچول اجلاس محض ایک بے اثر بیٹھک کے سواکچھ نہ تھا کہ مردانہ وارمقابلے کے لئے ان کے اندر کوئی ہمت ،سکت،بے کلی اور بے چینی ہرگزنہیں پائی جاتی۔سچی بات یہ ہے کہ اس اجلاس سے غزہ پر اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی بمباری پررتی بھرکوئی اثرپڑنے والانہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دجال کی صلبی اولاد اسرائیلی وزیر اعطم نیتن یاہونے اسی اجلاس کے دوران خم ٹھونک کراعلان کیاکہ مقاصدکے حصول تک غزہ پربمباری جاری رہے گی۔ مسلمانوں کے اس اجلاس میں جو پھپھسی قرار داد لائی گئی اسرائیلی اور امریکی جانتے ہیں کہ وہ محض رسمی کارروائی اور زبانی جمع خرچ ہے جس کا مقصد اپنے اپنے ملک کے بیوقوف عوام کو مسلسل دھوکے میں رکھناہے ۔کیونکہ اجلاس منعقدہونے سے قبل کئی رکن ممالک کے وزرائے خارجہ نے امریکہ سے باضابطہ اجازت طلب کی ہوگی کہ اس اجلاس میں شرکت کریں یانہیں۔ مسجداقصیٰ کے حوالے سے اجلاس کی قراردادامیں جویہ کہاگیاہے کہ اس کے تقدس کوپال کرنے کی کوئی بھی کوشش امہ مسلمہ کیلئے سرخ لکیر عبور کرنے کے مترادف ہے سب جھوٹ اور فریب ہے۔ امریکہ اور اسرائیل اس امرکوٹھیک سمجھتے ہیں کہ: نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں تاریخ کے بیشتر صفحات اورانکی ہرایک سطر ہمارے زوال کی المناک کہانی پر رورہی ہے ۔ اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) کاقیام 21 اگست 1969 کو مسجد اقصی پر یہودی حملے کے ردعمل کے طور پر 25 ستمبر 1969 کو مراکش کے شہر رباط میںعمل میں آیا تھا لیکن یہ عملی طورپربیت المقدس کوپنجہ یہودسے چھیننے میں ناکام رہی ۔ مشرق وسطیٰ، شمالی، مغربی اورجنوبی افریقا، وسط ایشیا، یورپ، جنوب مشرقی ایشیا اور برصغیر اور جنوبی امریکا کے 57 مسلم اکثریتی ممالک شامل ہیں۔ او آئی سی کی ذمہ داریوں میں دنیا بھر کے 1.5 ارب مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ شامل تھا۔ماضی میں بھی بیت المقدس کی حرمت کو نقصان پہنچانے اور اسکی حیثیت تبدیل کرنے کی اسرائیلی کوششوںکے ردعمل میں مسلم ممالک کے سربراہی اجلاس بلائے گئے اور ان کے نتیجے میں آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس کے نام سے بننے والی تنظیم خاصی متحرک نظر آنے لگی۔ فروری1974 میں اس تنظیم کا سربراہی اجلاس پاکستان کے شہر لاہور میں منعقد ہوا جس میں مسلم ممالک کے درمیان اتحاد و تعاون کو فروغ دینے کا جذبہ عروج پر نظر آیا اور مسلم امہ کی آواز اقوام متحدہ سمیت عالمی فورموں اور دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں سنی جانے لگی مگر بعدازاں مسلم ممالک کے ارباب حل و عقد مسلم دشمن قوتوں کی سازشوں کے اس طرح نشانہ بنے کہ ایک ارب سے زائد آبادی اور بے پناہ قدرتی وسائل کے حامل 57ممالک منتشر نظر آنے لگے۔ پچھلے ہفتے سے پیدا ہونے والی صورتحال کے نتیجے میں اب آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن کہلانے والا یہ فورم انگڑائی لیتا محسوس ہورہا تھا۔اسکے تحت،ایک غیرفعال اور ایک بے معنی سی القدس کمیٹی قائم کی گئی جس کی قیادت مراکش کے فرمانروا کو سونپی گئی تھی اور اس کا دفتر رباط میں بنایا گیاتھا۔ اس کمیٹی کے قیام کا مقصد بیت المقدس پر اسرائیلی ریاست کے غیرقانونی قبضے کے معاملے کو زندہ رکھنا، اس کے لیے کوششیں کرنا، شہر کی عرب اور اسلامی شناخت کا تحفظ کرنا یہودی اسرائیلی ریاست کا دارالحکومت بنانے کی سازشوں کو ناکام بنانا اور سد باب کرنا تھا۔ بیت المقدس پر صہیونی اولادکے سترسالہ تسلط کے دوران عربوں نے القدس کے حوالے سے سیکڑوں ترانے اور نغمے تیار کیے اور گائے۔ ان گنت نعرے بنائے اور لگائے گئے کہ ہم لاکھوں مسلمانوں کا لشکر لیے القدس پہنچ رہے ہیں۔مسلمانوں کی کوششیں نعروں، بیانات اور کمیٹیوں تک محدود ر ہیں جب کہ صہیونی ریاست بیت المقدس کو یہودیانے کے لیے عملی سازشوں میں دن رات سرگرم عمل رہی۔اسرائیلی قبضہ صرف مشرقی بیت المقدس کے علاقوں تک محدود نہین نہیں بلکہ اس کا موجود تاریخی دینی مقامات جن میں مسجد اقصی، قبہ الصخرا، کنیسہ القیامہ بھی شامل ہیں ،پر قبضہ بھی قبظہ اور اسرائیل نے ان میں دسیوں یہودی کالونیاں بھی تعمیر کر لی ہیں۔ مسجد اقصی کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کے لیے اس کے نیچے سرنگوں کا جال بچھایا جا رہا ہے اور نام نہاد ہیکل سلیمانی کی بنیادوں کی تلاش کے دوران مسجد اقصی کی بے حرمتی کی جارہی ہے ۔ اس پر عالم اسلام کے حکمرانوں کا رویہ افسوس ناک ہے ۔سلام ان نہتے فلسطینیوں پر ، جو پچھلے ستر سالوں سے گردنیں کٹوانے کے باجودآج بھی غاصب یہودیوں کے سامنے سینہ تانے کھڑے ہیں ۔عالم اسلام کے حکمرانوں کو کم ازکم ان نہتے فلسطینی مسلمانوں سے سبق سیکھنا چاہئے جواس قدر مظالم سہنے کے باوجود بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ مسجداقصی ہماری گردنوں پر امانت ہے۔اس امانت کی خاطر ہماری گردنیں کٹ سکتی ہیں،مگر جھک نہیں سکتیں اور افسوس ہے عالم اسلام کے ان نام نہاد لیڈروں پرجو امریکہ کو اربوں ڈالر دیتے ہیں مگر امریکہ کے نا جائز بچے اسرائیل کو سفاکیت سے نہیں روک پاتے۔ افسوس ہے ان اہل مذہب پر بھی جو اسرائیل کی جانب سے قبلہ اول کی بے حرمتی پر ان حکمرانوں کو غیرت نہیں دلاتے۔ موجودہ صورتحال کا تقاضا ہے کہ مسلم امہ مل کر اسرئیل جارحت کا مل کر جواب دے اور یہودیوں کے ہاتھوں خون مسلم کی ارزانی کا موثر جواب دے۔