اقبالیات کی طرح سرائیکی وسیب میں فریدیات کو بھی علمی درجہ حاصل ہے، بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے سرائیکی شعبہ جات میں خواجہ فرید کو پڑھایا جا رہا ہے اور ایم اے ،ایم فل اور پی ایچ ڈی سرائیکی میں فریدیات کا الگ پیپر موجود ہے ۔ ہر دو یونیورسٹیوں میں عرصہ تقریباً 15 سال سے خواجہ فرید چیئرز منظور ہیں مگر آج تک وہ فنکشنل نہیں ہو سکیں ۔ پہلی مرتبہ بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی میں خواجہ فرید چیئر کے لئے اکیسویں گریڈ کی ایک پوسٹ اخبارات میں مشتہر کی گئی ہے ، مگر شرائط اس قدر سخت ہیں کہ شاید وہ پوسٹ فِل نہ ہو سکے ۔ خواجہ فرید چیئر نہ ہونے کی وجہ سے فریدیات کے حوالے سے طرح طرح کے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک دیوان فرید شائع ہوا ہے ، جس میں دیوان کے مرتب نے خود ساختہ ترمیم کر کے دیوان فرید کو متنازعہ بنا دیا ہے ۔ اگر خواجہ فرید چیئر ہوتی تو اس طرح کی نوبت پیش نہ آتی ۔ زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر جن کا تعلق وسیب کے علاقے دیرہ اسماعیل خان سے ہے ، وہ سرائیکی شعبہ اور خواجہ فرید چیئر کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں ۔ ان سے درخواست ہے کہ وہ خواجہ فرید چیئر کو فنکشنل کرنے کیلئے فوری اقدامات کریں ۔ جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ دیوان فرید کے ایک مرتب نے خود ساختہ ترمیمات کر کے خواجہ فرید کے کروڑوں مداحوں اور عقیدت مندوں کو ذہنی اذیت دی ہے ۔اور اس سلسلے میں معروف ماہر فریدیات محترم فرید ساجد لغاری نے جناب مجاہدجتوئی کے دیوان کا تحقیقی جائزہ لیا ہے اور بتایا ہے کہ یہاں معاملہ صرف ’’شہر بھنبھور یا تخت لہور‘‘ ہی نہیں بلکہ بقول جانباز جتوئی ’’لوٹیں سودھی جھلار چٹ اے‘‘ فرید ساجد لغاری نے اپنے تنقیدی جائزے میں سات ابواب مقرر کئے ہیں ۔ ان ابواب کے عنوانات حرفِ اقرأ، دیوانِ فرید بالتحقیق اور اِملا ، دیوانِ فرید بالتحقیق میں مَحّرف مصرعے،فریدی تخلیق ، شہر بھنبھور پر (تخت لہور) کو ترجیح کیوں؟، لوئیں یا گٖوئلیں، خواجہ فرید، عروض اور دیوانِ فرید بالتحقیق میں بے وزن مصرعے ، دیوانِ فرید بالتحقیق اور نسخہ مولانا برخورداراور نبھائو کا تقابلی مطالعہ کے عنوانات شامل ہیں ۔ فرید ساجد لکھتے ہیں کہ تخت لہور اور شہر بھنبھور کے حوالے سے مجاہد جتوئی نے صرف اور صرف قلمی نسخہ برخوردارکے تکلف اور تصنع کو قبول کیا ہے جبکہ مطبوعہ غیر مطبوعہ نسخہ جات میں مشہور بھنبھور درج ہے ۔ یہاں تک کہ برخوردار کے اس مصرعے کی تدوین کو اس کے بیٹے میاں فقیر اللہ نے بھی مسترد کیا اور اپنے قلمی نسخہ میں شہر بھنبھور لکھا ۔ نقلی اور عقلی دلائل سے یہ مصرعہ شہر بھنبھور کے حوالے سے درست ہے اس کی مزید گواہی نسخہ صوفی قادر بخش کھوکھر سے ملتی ہے جس کی تاریخ تدوین نسخہ برخوردار اور مثنوی معدن عشق سے چار سال پہلے کی ہے۔حضرت خواجہ غلام فرید کے فرزند ارجمند حضرت خواجہ نازک کریم کی سرپرستی میں جو دیوان موسوم بہ اسرار فریدی مدون ہوا اور خواجہ نازک کریم کی حیات(1902)میں شائع ہوا اس میں بھی شہر بھنبھور درج ہے۔مصرعہ محرف اور قریباً 100کے قریب مصارع کے لفظوں میں ردوبدل کی گئی ہے جو کہ وہ بھی تحریف کی ذیل میں آتی ہے ، لیکن مجاہد جتوئی ان مصارع کی تبدیلی میں فروگذاشت کی گئی ہے ۔ باب دیوان بالتحقیق اور قلمی نسخہ برخوردار و نبھائو کے تقابلی مطالعہ سے یہ واضح ہوا کہ دیوان فرید بالتحقیق کے مرتب نے میاں برخوردار کے متدون کئے گئے دیوان کے 336مصرعوں کو نظر انداز کر دیا جو کہ صحیح اور درست تھے اور اسی طرح نسخہ نبھاہو سے ناروا سلوک برتا گیا ۔ دریں بارہ مجاہد جتوئی نے گول مول تحقیق سے مجتہد متاخرین مرتبین کے اچھے فیصلوں کو رد کر دیا ، نیز نسخہ اکرم قریشی اور قیس فریدی کے نسخے سے جو مصرعے لئے ان کا حوالہ تک نہیں دیا اس طرح معتبر ماہرین فریدیات سے بے اعتنائی برتی گئی ، دوسرا یہ کہ ایسی بد دیانتی سرکہ کے ذیل میں آتی ہے ، دراصل یہ تحقیق نہیں تحقیر ہے۔ دیوان میں سینکڑوں الفاظ سرائیکی اور دیوان میں موجود مفرسی معرب اور مہند کی اِملا بھی غلط درج کی گئی ہے اس حوالے سے کتاب میں موجود اِملا کے باب میں صحیح و غلط اِملا کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔مصرعہ لوئیں یا گوئلیں کے ذیل میں مجاہد جتوئی نے چولستان کے لوگوں سے جنرل ضیاء الحق اور پرویزمشرف کی طرح جو جعلی ریفرنڈم کرایا ہے ، وہ اس لئے ناقابل قبول ہے کہ وہ حقیقت سے بعید ہے اور یہ بات ذہن میںرہے کہ ادب میں ریفرنڈم کی گنجائش نہیں ہوتی بلکہ اس حوالے سے تحقیق کا عمل کارفرما ہوتا ہے ۔ مصرعہ مذکور میں ظرف زمان کا ذکر ہے نہ کہ ظرف مکان کا ، مجاہد جتوئی کا ریفرنڈم بودی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہ ہو بھی نہیں سکتا ، راتیں خنک آمیز یعنی ٹھنڈیاں اور گوئل گرم ہو، بناء بریں مجاہد جتوئی نجی ادبی محافل میں برملا بحث کرتے ہیں کہ میں نے قریب المکان اور زمان لوگوں کو قبول کیا ہے یہ سراسر جھوٹ ہے۔ میں نے صرف چند جھلکیوں کا ذکر کیا ہے ، اس کے علاوہ بہت سی باتیں آپ اس کتاب میں پڑھیں گے ،فرید ساجد صاحب کی یہ کوشش قابل قدر ہونے کے ساتھ اہم بھی ہے کہ اب دیوان فرید کے محقق کو ایک نیا راستہ مل گیا ہے اور وہ اس کی روشنی میں اپنی تحقیق کو آگے بڑھائیں گے اور یہ کتاب حوالے کا کام دیتی رہے گی ۔ میں سجادہ نشین خواجہ معین الدین کوریجہ کی تعریف کروں گا کہ انہوں نے گڑھی اختیار خاں میں میرے سامنے مجاہد جتوئی صاحب کو کہا کہ ہمارے کانوں نے آج تک شہر بھنبھور سنا ہے ، آپ تخت لہور لے آئے تو اسے ثابت کرنا آپ کا کام ہے ۔ اسی طرح معروف سرائیکی رہنما شاعر و دانشور محترم عاشق بزدار نے اپنی تحریر اور اپنی تقریر کے ذریعے شہر بھنبھور کے حق میں واضح موقف اختیار کیا ، یہاں تک کہ عاشق بزدار گائیک نہ ہونے کے باوجود اس کافی کو گایا اور شہر بھنبھور کی وکالت کرتے ہوئے سوشل میڈیا کے حوالے کیا ۔ آخر میں چند ضروری امور اس لئے شامل کئے ہیں کہ وہ بھی اس کتاب کا حصہ بن جائیں ۔ اشاعت کا مقصد کسی پر ذاتی تنقید نہیں ، تخت لہور والی شرارت اور حماقت سے سرائیکی تحریک کو نقصان ہوا اور دل پر بہت صدمہ ہے کہ دشمن وار کرے تو افسوس یا صدمہ نہیں ہوتا اگر کوئی وسیب زادہ ایسا کرے تو ارمان ہوتا ہے ۔ میری دُعا ہے کہ خدا وند کریم محترم ساجد فرید لغاری کی اس محنت کو کامیاب فرمائے اور خواجہ فرید کی ذات اور سرائیکی تحریک کو نقصان پہنچانے والوں کو ہدایت دے کہ وہ راہ راست پر آ جائیں اور ہم سب ملکر کہیں: میں تے یار فرید منْیسوں رَل مِل شہر بھنبھور