عوام نے تحریک انصاف کو اعتزاز احسن کے ’’ماں کے جیسی ریاست‘‘ کے خواب کو سچ کرنے کے لئے ووٹ دیئے تھے ایسی ریاست جہاں سب کو تعلیم‘ صحت روزگار اور انصاف کے یکساں مواقع ملنا تھے عمران خاں کو سوئس بنکوں سے پاکستان سے لوٹے 200ارب ڈالر وطن واپس لا کر ملکی قرضے اتارنا اور دودھ اور شہد کی نہریں بہانا تھیں مگر سلیم انصاری نے کہا ہے نا کہ: خوش فہمی کی دھوپ میں روشن جھوٹی آس اندھیارے میں رینگتا ہر سچ کا وشواس حکومت کے ابھی دو سال مکمل نہیں ہوئے عمران کا بے رحم احتساب کا خواب عذاب بن چکا ہے جس دن این آر او نہ دینے کا دعویٰ کرتے ہیں، اسی روز کوئی نہ کوئی کرپٹ پنچھی احتساب کے پنجرے سے پھر سے اڑ جاتا ہے۔ دودھ اور شہد کی نہریں تو کیا بہنا تھیں عوام کے لئے جسم اور جان کا رشتہ بحال رکھنا محال ہو گیا ہے۔ ایک بین الاقوامی سروے کے مطابق معاشی بدحالی کے باعث 31فیصد پاکستانی اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔79فیصد ملک کی اقتصادی صورتحال سے خوف زدہ ہیں۔ عمران خان جو کشکول اٹھانے کے بجائے خودکشی کو ترجیح دیتے تھے آج ان کے دور اقتدار میں صرف دسمبر 2018ء سے دسمبر 2019 ئکے عرصہ میں ملک کے غیر ملکی قرضوں میں 10ہزار ارب کا اضافہ ہو چکا ہے مسلم لیگ ن کو طعنہ دیتے تھے کہ ملکی اثاثے بیچ کر موٹر ویز اور پل بنائے جا رہے ہیں مگر تحریک انصاف کی حکومت میں قرضوں میں اضافہ بھی ہوا اور ان کا استعمال بھی کہیں نظر نہیں آ رہا ۔کہا جاتا ہے کہ ماضی کے قرضے اتارنے کے لئے مزید قرضے لینا پڑ رہے ہیں ۔یہ کیسا قرض ہے جو جتنا ادا کیا جاتا ہے اتنا ہی بڑھتا جاتا ہے۔؟ جیسے جیسے ملک پر قرض بڑھ رہا ہے ویسے ویسے مہنگائی اور بے روزگاری میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ بجلی پٹرول گیس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے لوگ خودکشیوں پر مجبور ہیں۔ پاکستان میں خودکشی کے بارے میں سرکاری یا غیر سرکاری درست اعداد و شمار موجود نہیں لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک میں روزانہ 35افراد خود کشی کرتے ہیں یعنی غربت تقریباً ہر آدھ گھنٹے میں ایک غریب کی جان لے رہی ہے اور ایک غیر سرکاری سروے کے مطابق پاکستان میں خودکشی کرنے والے 81فیصد افراد کا تعلق پسماندہ طبقے سے ہوتا ہے ۔بھوک کے خوف سے اپنی جان خود لینے والا ہر پاکستانی سلیم انصاری سے معذرت کے ساتھ دہائی دے رہا ہے۔ جیون جیناکٹھن ہے وش پینا آسان عوام بن کر دیکھ لو او عمران ماہرین سماجیات کے مطابق خودکشی کی سب سے بڑی وجہ غربت اور بے روزگاری ہوتی ہے وزیر اعظم نے درست تشخیص کی کہ جس معاشرے میں ناانصافی ہو وہاں برکت نہیں رہتی مگر انہوں نے بدقسمتی سے 190ارب روپے کے احساس پروگرام کی صورت میں جو علاج پیش کیا ہے کیا واقعی یہی علاج ہے؟ پناہ گاہیں لنگر خانوں کی افادیت اپنی جگہ مگر سوال تو یہ ہے کہ اس سے معاشرتی ناہمواری اور عدم انصاف کا علاج ممکن ہو پائے گا۔ پناہ گاہوں میں کتنے پاکستانیوں کو چھت میسر آ سکتی ہے اور لنگر خانے کتنوں کی بھوک مٹا سکتے ہیں؟ جس ملک کی 79فیصد آبادی معاشی عدم تحفظ کا شکار ہو وہاں پناہ گاہیں اور لنگر خانے روزگار کے نعم البدل کیونکر ہو سکتے ہیں؟ وزیر اعظم کا یہ کہنا بھی درست کہ کوئی بھی حکومت تمام شہریوں کو سرکاری نوکری فراہم نہیں کر سکتی۔ مگر سرکاری نوکری مانگ بھی کون رہا ہے لوگ تو روزگار مانگتے ہیں اور پھر کیاجدید ترقی یافتہ ممالک نے اپنے تمام شہروں کو سرکاری نوکریاں فراہم کرکے اپنے ممالک سے بے روزگاری ختم کی ہے؟ نہیں جناب !!!حکومتوں کا کام سرکاری نوکریاں نہیں عوام کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہوتا ہے۔ امریکہ اور یورپ میں تمام شہریوں کو سرکاری نوکری نہیں روزگار فراہم کرنے کے اقدامات کئے جاتے ہیں۔ محترم وزیراعظم آپ نے ان دو سال میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے کیا اقدامات کئے !! یا پھر نام نہاد احتساب سے لوگوں کے پیٹ بھرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے؟ جہاں تک سرکاری نوکریوں کا تعلق ہے اس کا پول تو خود حکومتی رکن اسمبلی نے ریلوے میں پیسے لے کر بھرتیاں کرنے سے کھول دیا ہے۔ عمران خان کے اپنے رکن نے اسمبلی میں ان کی حکومت پر رشوت لے کر نوکریاں دینے کا الزام لگا یامگر وزیر ریلوے یا وزیر اعظم نے وضاحت یا تحقیقات کو ضروری نہ سمجھا۔ ایک ریاض مزاری کی بات نہیں، تحریک انصاف کی اتحادی جماعت کے سینیٹر کامل علی آغا بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی حکومت میں جو کام 5ہزار میں ہو جاتا تھا اس کے اب 50ہزار روپے رشوت مانگی جا رہی ہے۔ ہربرٹ ہوور نے کہا تھا حکومت کے عزت وقار میں کمی پوری قوم کے اخلاق کو زہر آلودہ کر دیتی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کے اخلاق کا یہ عالم ہے کہ ان کے نزدیک پاکستان کا مسئلہ بے روزگاری اور بھوک کے خوف سے سے خودکشی کرتا میر حسن نہیں’’بوٹ‘‘ ہے۔بچوں کو بھوک سے مرتے دیکھ کر جتنے بھی میر حسن خود کو جلا کر راکھ کر ڈالیں حکمرانوں کی رگوں میں جمے بے حسی کے خون میں حدت پیدا ہونے والی نہیں۔ ہو بھی کیوں ماضی میں عوام کے ووٹ سے اقتدار میں آنے کا وہم جو دور ہو چکا۔ اب جو اقتدار میں لاتے ہیں ان کو چومنے کی باتیں انتہائی ڈھٹائی سے ٹی وی سکرین پر کی جا رہی ہیں۔ اس سارے کھیل میں اگر کسی نے کچھ کھویا ہے تو بدقسمتی سے وہ صرف عوام ہیں۔ یہ محرومی مایوسی میں بدل رہی ہے اور مایوسی موت کو گلے لگانے پر مجبور کر دیتی ہے ۔جو زندہ ہیں ان کی آنکھوںمیں خوابوں کے بجائے پچھتاوا ہے۔ عوام نے عمران خان سے امید باندھ کر جو خواب دیکھے تھے ان کی حالت یہ کہ: میں نے جس کی آنکھ سے دیکھے اپنے خواب اب اس کا احساس بھی میرے لئے عذاب