شام فراق یار نے ہم کو اداس کر دیا بخت نے اپنے عشق کو حسرت و یاس کر دیا اپنی تو بات بات سے آتی ہے یوں مہک کہ بس جیسے ہمیں بھی یار نے پھولوں کی باس کر دیا آج ذرا سیاست سے ہٹ کر بات ہو گی کہ اسلام آباد سے ہمارے محبوب ظفر کا فون آیا اور پوچھنے لگے کہ ثمینہ راجا کے کلیات کی فائل کہیں سے مل جائے کہ بھارت میں ان پر پی ایچ ڈی ہو رہی ہے۔ خیر باتوں باتوں میں یادوں کا دبستان کھل گیا۔ مجھے یاد آیا کہ جب ہم لوگ ایک دوسرے سے کلام تبادلہ کرتے تو میں نے مندرجہ بالا غزل ایس ایم ایس کر دی تو اس نے فی البدیہہ ایک شعر ارسال کیا: شہر میں جن کی خوش دلی آج تلک مثال تھی آپ کی اس غزل نے تو ان کو اداس کر دیا کیا طرحدار شاعرہ تھی غیر معمولی صلاحیتوں کی شاعرہ۔جب میں نے ایک مرتبہ اسے پروین شاکر سے بڑی شاعرہ کہا تو احمد فراز نے میری بات کی تائید کی اصل میں وہ پاپولر فریم آف ورک سے دور تھی۔ انتہائی سنجیدہ مزاج اکھڑ اور نک چڑھی۔ کسی کو خاطر میں نہیں لاتی تھی وہ موجودہ چلن کے خلاف تھی کہ جہاں شاعرات کی ایک نسل طفیلی بن کر سامنے آئی۔ بلکہ معاملہ اس سے بھی آگے گیا تو اس کی ایک ’ نظم دستیاب عورتیں‘، اہل ادب کو جھنجھوڑنے لگی۔ وہ بھرپور تخلیق کار تھی، صرف شاعری ہی نہیں اس کو پتھر شناسی سے شغف تھا اور دوسرے علوم بھی اس کی نظر میں تھے۔ اس نے سورۃ رحمن کا منظوم ترجمہ کر کے بھیجا تو میں حیران رہ گیا نہایت اعلیٰ اور معیاری کہ میں پہلے بھی دو تین تراجم دیکھ چکا تھا۔ وہ کچھ منفرد بھی تھی اور علمی رکھ رکھائو والی اچھے اچھے شاعر اس سے دبتے تھے: تنہا سر انجمن کھڑی تھی میں اپنے وصال سے بڑی تھی وہ خود کو خدا سمجھ رہا تھا میں اپنے حضور میں کھڑی تھی مقصد لکھنے کا یہ ہے کہ ثمینہ راجا سے اوریجنل اور باکمال لوگ اپنے اکھڑ پن اور کھرے پن کی وجہ سے نظر انداز ہو جاتے ہیں ہمارے ہاں گروپ بندی ہے یا دھڑے بندی۔ سانجھے مفادات کے باعث کمزور لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں اور پھر مشاعروں اور ٹی وی پروگراموں کی ٹھیکیداری چلتی ہے پھر منیر نیازی ہو ںیا پھر عدیم ہاشمی ایسے لوگ جو اپنی ہی خوشبو میں ڈوبے رہتے ہیں، تنہا رہ جاتے ہیں۔ منیر نیازی کے شعری مجموعوں کے نام تیز ہوا اور تنہا پھول میری بات کی تائید کرتے ہیں حتیٰ کہ عدیم ہاشمی کا شعری مجموعہ ترکش بھی اپنے دفاع کا پیغام دیتا ہے۔ ثمینہ راجا تو خوابوں سے بھری شاعرہ تھی۔ اس کا تعلق زیادہ تر کتاب سے رہا۔کلیات بھی کتاب جاں اور کتاب خواب اس کی نظر عالمی ادب پر بھی تھی ایک واقعہ مجھے کبھی نہیں بھولتا کہ ایک شاعر مجھے ملنے آیا تو ثمینہ راجا کے حوالے سے الٹی سیدھی باتیں کرنے لگا کہ یہ اپنے آپ کو کیا سمجھتی ہے۔ تھوڑی دیر ثمینہ کی کتاب الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا پھر مجھ سے مخاطب ہو کر پوچھنے لگا۔ سعد!یہ میوز Muse کیا ہوتی ؟ میں نے کہا یار آپ کو میوز کا علم نہیں اور آپ ثمینہ راجا پر اپنی رائے دے رہے ہیں وہ کبھی سامری پر لکھتی تو کبھی ایسے ناما نوس موضوع پر۔ اس نے کائنات کے حوالے سے لاجواب نظم کہی تو یاسمین حمید نے اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا اس کی غزل کے بھی اپنے ہی تیور تھے: صرف اک بار اس کی منت کی عمر بھر خود کو پھر ملامت کی سخت مشکل تھا تجھے ہاتھ سے جانے دینا دیکھ اس دل پہ رکھا ہم نے بھی کیسا پتھر شاعری جھوٹ سہی عشق فسانہ ہی سہی زندہ رہنے کے لئے کوئی بہانہ ہی سہی وہ عجب شاعرہ تھی۔ ٹی وی پر کمپیئرنگ کرنے آئی تو ایک بے وزن شاعرہ کو اس نے پڑھنے سے روک دیا کہ نظم خارج ازبحر تھی۔ وہاں کھپ پڑ گئی۔ ریکارڈنگ رک گئی کنٹرولر صاحب آئے کہ محترمہ آپ کمپیئرنگ جاری رکھیں کہ ایڈیٹنگ ہو جائے گی۔ ثمینہ راجا کہنے لگیں کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ثمینہ راجا کمپیئرنگ کرے اور کوئی بے وزن شاعری پڑھ رہا ہوں۔ بس وہ ایسی ہی تھی کوئی نمبر 2شاعرہ مشاعرہ میں آ جاتی تو وہ اٹھ کر چلتی بنتی۔ کوئی کمپرو مائز نہیں تھا کچھ ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ سڑیل مزاج تھی وہ شگفتہ گوئی بھی کرتی لطیف بات بھی کرتی ،بس شاعری کے معاملے میں اگر میں نے بھی کہیں شترگربہ۔ کر دیا تو کہنے لگی آپ کو یہ شتر گربہ معاف نہیں(یعنی تم کے ساتھ تمہارے ہی آئے گا تیرے نہیں) اور پھر خود بھی بات سننے کا حوصلہ تھا نیشنل بک فائونڈیشن میں اس کے دفتر میں بیٹھے ہوئے تھے پہلی دوسری ملاقات تھی اس نے نظم سنائی تو میں نے لفظ سعی پر اسے ٹوک دیا کہ اس میں ع ساکن ہے کہ سعی فعل کے وزن پر فعولین نہیں۔ وہ سٹپٹا گئی۔ ڈکشنریاں کھل گئیں بات کھلتے ع پر جزم نہیں تھی۔ وہ بہت خوش خوش شکریہ ادا کرنے لگی کہ شکر ہے ابھی اس نے یہ نظم چھپوائی نہیں ثمینہ راجا کا ایک شعر ذہن میں آ رہا ہے: آج تلک بھرے نہیں پچھلے ہی موسموں کے زخم دل ہے کہ ایک بار پھر نغمہ گر بہار ہے اس کی خوش طبعی کی بات بھی ہو جائے ۔ ایک مرتبہ میں اور ڈاکٹر فرخ محمود جو کہ ایک نامور ڈینٹل سرجن بھی ہیں اور شاعر بھی اسلام آباد ایک کانفرنس میں گئے تو رات کو سیشن کے بعد ثمینہ راجا اور فاطمہ حسن کے ساتھ باہر کھڑے تھے تو میں نے فرخ محمود کا تعارف کروایا تو ثمینہ راجا بے ساختہ کہنے لگی اچھا تو آپ ہیں ڈاکٹر فرخ محمود جو خوبصورت لوگوں کے گندے گندے دانت نکالتے ہیں۔ خود دار وہ اتنی کہ ہمارے ایک کالم نگار صحافی جو اکادمی ادبیات کے چیئرمین رہے کہ نواز شریف کے وہ سپیچ رائٹر تھے۔ ثمینہ راجا نے ان کے ہاتھ سے اپنی کتاب پر انعام لینے سے انکار کر دیا اور غالباً 50 ہزار روپے چھوڑ دئیے۔ بس وہ سچ مچ ایسی ہی تھی اب اس پر بھارت میں کام ہو رہا ہے تو اچھا لگا ہے۔ یہ سر پھرے لوگ کچھ اسی نوع کے ہوتے ہیں۔ پتہ نہیں ان کو خود اذیتی میں مزہ آتا ہے۔ ایک دن ثمینہ راجا مجھے کہنے لگی کہ پتہ نہیں مجھے اداسی اور تنہائی پسند ہے میں نے اس کی قبر پر جا کر فاتحہ پڑھی تو اس پر نظم لکھی تو اس کا نام ’’گل ملال‘‘ رکھا چند اشعار ثمینہ راجا کے: ہم غم رفتہ و آئندہ کے سہنے والے خوش رہے لمحہ موجود میں رہنے والے رات کی طشتری میں رکھی ہیں میری آنکھیں کسی کے خواب کے ساتھ ہم تری یاد سے ہوتے نہیں غافل یوں بھی کچھ ترے بعد نہیں دید کے قابل یوں بھی