یوں تو پاکستان کی تمام قوموں اور قبیلوں میں خواتین کے حوالے سے حساسیت پائی جاتی ہے اور اسی حساسیت کے نتیجے میں غیرت کے نام پر قتل جیسے وہ سنگین واقعات بھی رونما ہوتے ہیں جن کے تدارک کی کوئی مؤثر سبیل تاحال نظر نہیں آتی۔ لیکن پختون سماج میں اس حوالے سے یہ حساسیت کئی گنا زیادہ ہے۔ یہ اسی حساسیت کا نتیجہ ہے کہ پشاور جیسے صوبائی دارالحکومت کے بازاروں میں خواتین کی تعداد بیحد قلیل نظر آتی ہے۔ پشاور صدر یا خیبر بازار میں جو اکا دکا خواتین نظر بھی آتی ہیں تو بڑی چادر اوڑھے ہوتی ہیں۔ خیبر پختون خوا کے بازاروں میں کوئی خاتون ننگے سر بھی نہیں ملتی۔ پختون محافل میں بھی خواتین کو موضوع بحث بنانا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اگر بیماری، تعلیم یا سفری ضروریات وغیرہ کے تحت کہیں خواتین کا ذکر آ بھی جائے تو یہ گفتگو ہوتی بھی بہت محدود ہے۔ اور اس دوران ماحول بھی بہت سنجیدہ ہوتا ہے۔ اس سماج میں خواتین کے موضوع پر ہنسی مذاق ایک ایسی سنگین غلطی ثابت ہونے کا پورا پورا امکان رکھتا ہے جس کے نتائج ہولناک بھی ہوسکتے ہیں۔ خواتین کے حوالے سے پختون سماج کی اس حساسیت کا سابق قوم پرست بھی لحاظ رکھتے آئے ہیں اور انہوں نے کبھی اپنے سیاسی ایجنڈے کے حصول کے لئے خواتین کے حوالے سے چلی آرہی پختون روایات کو چیلنج کرنے کی کوشش نہیں کی۔ لیکن حادثاتی قوم پرستوں کی موجودہ نسل اس حساسیت کا احساس کرنے میں ناکام ثابت ہورہی ہے، اور اس کے نتائج کچھ بھی نکل سکتے ہیں۔ پچھلے چھ ماہ کی قلیل مدت میں دو واقعات ایسے رونما ہوئے ہیں جن میں پی ٹی ایم کی قیادت نے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے دو گھرانوں کی خواتین کا تماشا لگانے کی کوشش کی۔ پہلا واقعہ شمالی وزیرستان کے گاؤں خیسور کا ہے، جہاں شریعت اللہ نامی دہشت گرد کی گرفتاری کے لئے سیکیورٹی فورسز کے چھاپوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے پی ٹی ایم نے ایک بچے حیات اللہ کی ویڈیو ریکارڈ کرکے یہ الزام لگانے کی کوشش کی سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے چھاپے کے دوران گھر کی خواتین کی حرمت کا خیال نہیں رکھا۔ یہ ویڈیو جوں ہی وائرل ہوئی اس کی تردید حیات اللہ کے ماموں نے اپنے جوابی ویڈیو پیغام کی صورت کی۔ شریعت اللہ اور حیات اللہ کے ماموں ملک متورکئی نے اپنے ویڈیو پیغام میں بتایا کہ چھاپے کے موقع پر وہ خود گھر میں موجود تھا، سو وہ عینی شاہد ہے کہ سیکیورٹی فورسز کی چھاپہ مار ٹیم نے خواتین سے کسی بھی طرح کی کوئی بدتمیزی نہیں کی۔ یہ جوابی ویڈیو وائرل ہوئی تو ملک متورکئی کے خلاف بھی سوشل میڈیا پر وہی لب و لہجہ اختیار کرلیا گیا جو اس سے قبل نقیب اللہ محسود شہید کے والد بھگت چکے تھے۔ ایک فرق البتہ یہ رہا کہ نقیب اللہ کے والد کے خلاف تو صرف غلیظ پروپیگنڈا کیا گیا تھا جبکہ ملک متورکئی کو سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ ملک متورکئی کے لئے سنگین نتائج یقینی بنانے کی پہلی کوشش تو یہ کی گئی کہ جرگے کے ذریعے انہیں عبرت کی مثال بنایا جائے۔ یہ کوشش کامیاب نہ ہوئی تو 10 فروری کو ملک متورکئی کو قتل کردیا گیا۔ ملک متورکئی کے لواحقین اور ڈپٹی کمشنر نے اس قتل کی ذمہ داری پی ٹی ایم پر عائد کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملک متورکئی کا قصور کیا تھا ؟ اس بیچارے کا قصور بس اتنا تھا کہ اس نے پی ٹی ایم کے اس جھوٹے دعوے کی تردید کی تھی جو ان کی بہن کے حوالے سے پی ٹی ایم نے قوم پرستی کی دکان چمکانے کے لئے کیا تھا۔ اور اس کے نتیجے میں علی وزیر و محسن داوڑ کی سازش ناکام ہوگئی تھی۔ آثار بتاتے ہیں کہ اس سنگین واقعے سے علی وزیر اور محسن داوڑ نے کچھ نہیں سیکھا۔ چند روز قبل ضلع مہند کی تحصیل صافی کے ایک گاؤں میں رات ایک بجے ایک ایف سی اہلکار محمد شریف کا قتل ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ اس اہلکار نے ایک گھر کے دروازے پر دستک دی جس کے ردعمل میں گھر پر موجود خاتون نے اسے گولی ماردی۔ لیکن بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ڈی پی او کا کہنا ہے کہ خاتون کا بیان یہ ہے کہ اس نے واقعے کی اطلاع دیتے ہوئے یہ کہا تھا کہ میرے گھر کے سامنے کسی نے سیکیورٹی اہلکار کو قتل کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس واقعے کی ایف آئی آر "نامعلوم ملزم" کے خلاف ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ یہ واقعہ نہ تو ایف سی کی کسی ٹیم کی چھاپہ مار کارروائی کے دوران رونما ہوا ہے اور نہ ہی مقتول واقعے کے وقت ڈیوٹی پر تھا۔ واقعے کی اطلاع پاکر اے این پی کے ایمل ولی خان اس گاؤں پہنچے تو گاؤں کے مشران نے ان سے اس واقعے کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہ کرنے کی درخواست کی۔ وجہ یہی بتائی گئی کہ ہمیں اپنی خواتین کا تماشا لگنا قبول نہیں۔ ایمل ولی خان نے ان بزرگوں کی بات کا پاس رکھا اور پشاور لوٹ گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کے بعد اس گاؤں پختون حقوق کے ماڈرن ٹھیکیدار علی وزیر اور محسن داوڑ پہنچے۔ گاؤں کے بڑوں نے ان سے بھی وہی درخواست کی۔ مگر ان دونوں کا اصرار رہا کہ "پختون حقوق" کے حصول کے لئے اس قسم کے واقعات بہت اہمیت رکھتے ہیں لھذا گاؤں کے بزرگوں کو چاہئے کہ پی ٹی ایم کو خدمت کا موقع دیں۔ بزرگ نہ مانے اور دونوں کو وہاں سے چلتا کردیا گیا۔ چلے تو وہ گئے مگر باز نہ آئے۔ ایک بار پھر خیسور کی تاریخ دہرانے کی کوشش کی گئی، ایک بار پھر جعلی ویڈیو کا سہارا لیا گیا۔ کسی خاتون کی مدد سے بنائی گئی ویڈیو وائرل کرکے یہ دعوی کیا گیا کہ ویڈیو میں گفتگو کرنے والی خاتون ہی متاثرہ خاتون ہے لیکن اس جھوٹ کا پردہ یوں چاک ہوا کہ واقعہ جس خاتون کے گھر کے سامنے رونما ہوا تھا اس کے شوہر نے اپنے ویڈیو پیغام کے ذریعے انکشاف کیا کہ پی ٹی ایم کی ویڈیو میں جو خاتون نظر آرہی ہیں وہ ان کی اہلیہ ہیں اور نہ ہی وہ اس خاتون کو جانتے ہیں۔ شرمناک بات یہ ہے کہ خیسور واقعے میں تو پی ٹی ایم نے صرف ملک متورکئی کو "بے غیرت" قرار دیا تھا لیکن مہمند کے اس واقعے میں پی ٹی ایم سوشل میڈیا پروپیگنڈے کے ذریعے پورے اہلیان مہمند پر کیچڑ اچھال رہی ہے۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر مہمند کے لوگوں کے بارے میں پی ٹی ایم سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے جو کچھ کہا جارہا ہے وہ اتنا شرمناک ہے کہ اسے اس کالم میں پیش بھی نہیں کیا جاسکتا۔ خیسور اور مہمند کے ان واقعات سے یہ حقیقت ابھر کر سامنے آئی ہے کہ حادثاتی قوم پرستوں کی نئی پود پختون سماج میں خواتین کے حوالے سے موجود حساسیت کا یا تو شعور نہیں رکھتی یا پھر یہ پود پختون حقوق کے نام پر پختون روایات کی ہی دھجیاں اڑانے پر تلی بیٹھی ہے۔ اندیشہ یہ ہے کہ اپنی سیاسی ضروریات کے لئے خواتین کی عزتوں کا تماشا لگانے والے علی وزیروں نے اگر ہوش کے ناخن نہ لئے تو ان احمقانہ حرکتوں کے کسی بھی وقت مہلک نتائج نکل سکتے ہیں۔