حال ہی میں ورلڈ اکنامک فورم نے اپنی بین الاقوامی صنفی مساوات انڈیکس پر رپورٹ جاری کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان اپنی خواتین کو مساوات مہیا کرنے کی درجہ بندی پر 146 ممالک میں 145 نمبر پر ہے۔ اس فہرست میں صرف افغانستان ہم سے نیچے درجہ پر ہے، جس کے موجودہ حالات دیکھتے ہوئے یہ لگتا تو نہیں ہے کہ وہ ہمیں صنفی مساوات میں پچھاڑ سکے۔مگرپاکستان کو اس میدان میں آگے جانے کے لییافریقی اور دیگر کم آمدنی والے مسلم ممالک سے سخت مسابقت کا سامنا رہے گا۔ ورلڈ اکنامک فورم نے اس انڈیکس کو چار ذیلی انڈیکس میں تقسیم کیا ہے، جس میں معاشی، تعلیم ، صحت اور سیاست کے اشاریے شامل ہیں۔ اس کالم کے لیے ہماری توجہ کا مرکز اس انڈیکس کے معاشی اشاریے رہینگے، جہاں اس تجزیے کی روشنی میں ہم ملک کی کم آمدنی والی اور غیر دستاویزی معیشت خاص طور پر ریڑھی بانی کے پیشے سے وابستہ خواتین کی حالت زار کے بارے میں کچھ آگاہی حاصل کر سکیں اور ان میں بہتری کے راستے تلاش کر سکے۔ پاکستان کی صنفی مساوات کے معاشی اشاریوں پر بھی پوزیشن 145نمبر پر ہے۔اس بین الاقوامی صنفی مساوات انڈیکس کی ایک محدودیت اس کے ڈیٹا کا دستاویزی معیشت پر ارتکاز ہے، جبکہ ترقی پذیر ممالک میں خواتین کی کثیر تعداد غیر دستاویزی معیشت میں کام کرتی ہے۔ مگر مسئلہ زیادہ تر ممالک کی غیر دستاویزی معیشتوں کے بارے میں معتبر ڈیٹا کی عدم دستیابی ہے۔ بہرحال ورلڈ اکنامک فورم نے غیر دستاویزی معیشت کے بارے میں کچھ ڈیٹا معلومات کی غرض سے شامل کیا ہے، جس سے مطابقتی جائزے میں مدد ملتی ہے۔ اس مطابقتی تجزیے میں پاکستان کے علاوہ بنگلہ دیش اور انڈونیشیا کو شامل کیا ہے، کیونکہ مسلم اکثریت ملک ہونے کے علاوہ یہ ممالک سماجی اور معاشی معیارات پر کچھ قریب تر ہیں۔بنگلہ دیش اور انڈونیشیا کی اس انڈیکس پر درجہ بندی با الترتیب 71 اور 92 نمبر پر ہے، جو پاکستان سے 74 اور 53 درجے بہتر ہے۔ پاکستان میں غیر دستاویزی معیشت میں خواتین ورکرز کا تناسب %82 بنتی ہیں، جبکہ یہی شرح بنگلہ دیش اور انڈونیشیا کے لیے بلترتیب %95 اور %81 ہے۔ ایک اور اہم اشاریہ ملک کی کل خواتین اور بچیوں کی آبادی میں خواتین لیبر فورس کا تناسب ہے۔ یہ شرح بنگلہ دیش اور انڈونیشیا میں %26 اور %40 ہے ، جبکہ پاکستان میںیہ تناسب محض %14 ہے۔ اب اگر ان ممالک کی سالانہ فی کس مجموعی ملکی پیداوار کا جائزہ لے، تو یہ پاکستان ، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا کے لیے بلترتیب 4,600، 4,900 اور 11,000 ڈالر ہے۔ جبکہ بنگلہ دیش اور انڈونیشیا کی شرح ترقی پاکستان سے زیادہ ہے اور مستقبل میں بھی برتر رہنے کا امکان ہے۔ ان دونوں ممالک نے خواتین کو دستاویزی اور غیر دستاویزی معیشتوں کا حصہ بننے کے کی حوصلہ افزائی کی اور آسانیاں فراہم کی۔ خواتین کے لیے وہاں رکاوٹیں اب بھی موجود ہیں، مگر وہ ترقی کے سفر پر رواح دواں ہیں۔ سماجی اور معاشی شماریت خواتین کی ان معیشتوں میں فعال شمولیت کی عکاسی کرتے ہیں۔کم آمدنی اور نچلے طبقے والی خواتین کے لیے بنگلہ دیش میں مالی شمولیت اور انڈونیشیا میں ڈیجیٹل شمولیت پر جو کام ہوئے ہیں، وہ ترقی پذیر ممالک کے لیے مثال کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ موضوعات علیحدہ کالم کے متقاضی ہیں۔ ْان تینوں ممالک میں طبقاتی طور پر تقسیم خواتین کو معاشرے میں عمومی طور پر مختلف تعصبات اور ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر مقابلتاََ پاکستان میں زیادہ قدامت پسند ماحول ہے، جس کی وجہ سے خواتین کے لیے روزگار کے حصول میں اور گھر سے باہر کام کرنے میں دشواریاں زیادہ ہیں۔ ویسے تو ہر طبقے کی برسروزگار خواتین مشکلات کا سامنا کرتی ہیں، مگر نچلے طبقے سے کام کرنے والی خواتین زیادہ غیر محفوظ ہوتی ہیں۔ہمارے ملک میں خواتین کی کثیر تعداد غیر دستاویزی معیشت میں کام کرتی ہیں۔ دوسرے ترقی پذیر ممالک کے بر عکس کم ہنرمند اور ناخواندہ یا کم پڑھی لکھی خواتین کے لیے پاکستان میں بہتر پیداواری اور زیادہ پیسہ کمانے کے معاشی مواقع کی کمی ہوتی ہے۔ ایک ایسا شعبہ جہاں پاکستان میں خواتین کی موجودگی کا فقدان نظر آتا ہے، وہ ریڑھی بانی کا پیشہ ہے۔ترقی پذیر ممالک میں اوسطََ %30 خواتین ریڑھی بانی کا کام کرتی ہیں، جو کچھ افریقی ممالک میں%70 سے تجاوز کر جاتی ہے۔ پاکستان میں ریڑھی بان شہری معیشت کے ایک لازمی جز کے طور پر نظر آتے ہیں، مگر ان تعداد کا اندازہ کرنے لیے کچھ زیادہ سروے موجود نہیں ہیں۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولیپمنٹ اکنامکس نے سال 2021 میں اسلام آباد کے کچھ منتخب علاقوں میں موجود تقریباََ دو ہزار ریڑھی بانوں کا سروے کیا، جس میں خواتین ریڑھی بانوں کی انتہائی قلیل تعداد کی موجودگی کا علم ہوا۔ اس سروے کی بنیاد پر وزارت برائے تخفیفِ غربت و سماجی بہبود نے انسٹیٹیوٹ اور شہری اداروں کے تعاون سے ریڑھی بانوں کو وینڈنگ لائسنس ، جدید ریڑھی اور مائیکرو فنانس قرضے کی فراہمی کا پروگرام شروع کیا۔اب تک اس پروگرام میں اسلام آباد کی چار مارکیٹوں میں 225 ریڑھی بانوں کو شامل کیا گیا، جو مستقبل میں شہر میں موجود اندازََ بیس ہزار ریڑھی بانوں کا احاطہ کرے گا۔پاکستانی ماحول کے حساب سے یہ زیادہ اچھپنے کی بات نہیں ہے کہ ان 225 ریڑھی بانوں میں محض دو خواتین شامل ہیں۔یہ ریڑھی بانوں کی کل تعداد کا صرف %0.9 بنتا ہے۔اب سوچنے کی بات یہ کہ اگر پاکستان کے وفاقی دارالحکومت میں خواتین کی شمولیت کا یہ عالم ہے ، تو دور افتادہ شہروں میں کیا حال ہو گا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام آباد میں %99 ریڑھی بان بغیر لائسنس غیر قانونی طور پر کام کر رہے ہیں۔ جہاں آئے دن کی بیدخلیوں اور ہراسگی نے مرد ریڑھی بانوں کی زندگی اجیرن رکھتی ہے، وہاں ریڑھی بان خواتین کے لیے زیادہ دشوار گزار ہے۔خواتین ریڑھی بانوں کے لیے معقول حل ان کے لیے وینڈنگ جگہوں میں %10 کوٹہ اور لازمی وینڈنگ لائسنس کی فراہمی میں پنہاں ہے۔