خواتین کے حقوق کے حوالے سے ’’ میرا جسم میری مرضی‘‘ غلط ہے اور جو لوگ یہ نعرہ لگا رہے ہیں وہ خواتین کے حقوق کی تحریک کو فائدہ دینے کی بجائے نقصان پہنچانے کے در پے ہیں۔ دوسری طرف جو لوگ اس نعرے کو آڑ بنا کر خواتین کے حقوق سلب کرنا چاہتے ہیں وہ بھی غلطی پر ہیں ، اگر بعض بہکی ہوئی خواتین کی طرف سے ’’ میرا جسم میری مرضی‘‘ کا نعرہ غلط ہے تو مردوں کو بھی یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ عملی طور پر ’’ میرا وجود میری طاقت‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے خواتین کے حقوق سلب کریں ۔ تمام مذاہب میں مرد و خواتین کے حقوق کا تعین کیا گیا ہے ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ 8 مارچ 1907 ء کو امریکا کے شہر نیویارک میں سینکڑوں خواتین جو کہ گارمنٹس ورکر یونین سے تعلق رکھتی تھیں انہوںنے سڑکوں پر مظاہرے کئے کہ انہیں بھی مردوں کی طرح برابری کے حقوق دیئے جائیں ۔ مظاہروں کو ختم کروانے کے لئے پولیس اور مختلف ایجنسیوں کا استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے درجنوں خواتین تشدد کی وجہ سے زخمی ہو گئیں جس کے بعد اب تک ہر سال اسی دن کو خواتین کے حقوق کے لئے منانا شروع کر دیا ۔زمانہ جاہلیت میں دیکھا جائے تو بیٹی پیدا ہوتے ہی اسے زندہ درگوہ کر دیا جاتا تھا ، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے انبیاء کرام اور آخری نبی حضرت محمد مصطفی ؐ نے خواتین کی عزت اور ان کے حقوق مقرر کئے ۔آپ ﷺ کی تشریف آوری کی بدولت ان بے قصور بچیوں کو زندہ رہنے کا موقع ملا جنہیں اسلام کی آمد سے قبل زندہ درگوہ کر دیا جاتا تھا ۔ اسلام نے بھی مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کے حقوق مقرر کئے ۔ عورت کو باپ کی وراثت کا حق ملا ، شوہر کے مال کا محافظ اور حقدار بنایا ۔ پاکستان میں بھی عالمی یوم خواتین منایا جاتا ہے، اس حوالے سے مختلف سیمینار ، کانفرنس ، اجلاس اور تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے ، جس میں خواتین کے حقوق کی اہمیت کو اجاگر کیا جاتا ہے، اگر دیکھا جائے تو ملکی سطح پر خواتین کے حقوق کی تعمیر و ترقی کیلئے بہت سے اعلانات کئے جاتے ہیں مگر ان پر عمل بہت کم کیا جاتا ہے۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے لیکن ایک اسلامی ملک میں خواتین کو وہ حقوق بھی حاصل نہیں جن کا اسلام نے تعین کیا ہے ، اس لئے ہمارے معاشرے کو مردوں کا سماج کہا جاتا ہے۔ اسی طرح مختلف رسم و رواج کے نام پر خواتین کا استحصال جاری ہے ۔عورت کمتر ، یہ فرسودہ تصور ہے، سیاست کا میدان ہو یا کھیل کا میدان ،سائنس یا ٹیکنالوجی کا میدان ہو یا زندگی کا کوئی اور شعبہ خواتین نے ہر شعبے میں اپنا لوہا منوایا ۔ ہمارے معاشرے کا ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ اکثر لڑکا پیدا ہونے پر مبارکباد دی جاتی ہے جبکہ لڑکی پیدا ہونے پر برا محسوس کیا جاتا ہے حالانکہ بیٹی اللہ کی رحمت ہوتی ہے ۔ خواتین کی عصمت دری کے واقعات زیادہ تر پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں دیکھے جاتے ہیں ، جہاں تعلیم کا فقدان ہے۔ پاکستان کے کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جہاں نہ تو خواتین کو حقوق دیئے جاتے ہیں اور نہ ہی خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہے ، آج تک بھی پسماندہ علاقوں میں عورت کی قرآن کے ساتھ شادی کر کے جائیداد بچائی جاتی ہے ۔آج بھی پسماندہ علاقوں میں عورتیں تعلیم کے زیور سے محروم ہیں ۔ پاکستان میں آج بھی قبائلی علاقہ جات میں ووٹوں کے حق سے محروم ہیں ۔ غیرت کے نام پر ایک ایسا قانون بھی ہے جہاں جرم اگر بیٹا بھی کرے تو بھی مجرم صرف بیٹی ہے اوراگر جرم بھائی کرے تو سزا بہن کو ملتی ہے۔ جیسا کہ مختاراں مائی کا واقعہ تھا کہ پنچائت ( مقامی عدالت ) نے ایک مقدمے کی سماعت کی، جس نے گواہوں کی شہادت کے بعد فیصلہ دیا کہ مختاراں مائی کے بھائی شکور نے عصمت دری کا ارتکاب کیا ہے اور اس کی سزا اس کی بہن مختاراں مائی کو دی جائے، مقامی عدالت کے اس فیصلے پر پوری دنیا میں احتجاج ہوا ۔ سرائیکی وسیب میں اس رسم کو ’’ کالا کالی ‘‘ بلوچستان میں ’’ سیاہ کاری ‘‘ اور سندھ میں ’’ کاروکاری ‘‘ کہا جاتاہے۔ نذیر فیض مگی مرحوم جو کہ سرائیکی زبان کے بہت بڑے شاعر تھے ، نے ایک نظم ’’ کاروکاری ‘‘ لکھی ۔ مگی سئیں نے اس نظم میں باپ بیٹے کی آپس میں ہونے والے مکالمے کو نظم کی شکل دی ۔ نظم کو قصے کی طرح لکھیں تو بات زیادہ ہو جائے گی ، لیکن نذیر فیض مگی کی نظم میں باپ بیٹے کا مکالمہ یوں ہے : بیٹا :’’ ابا میری بہن کا گلا دبا کر کیوں مارا؟‘‘ باپ:’’ بیٹا ! عزت کی بات تھی ، بتانا کسی کو نہ ، تمہاری بہن غیر مرد کے ساتھ کھڑی تھی ۔‘‘ بیٹا : ’’ ابا ! غصہ نہ کرنا ، یہی جرم تو تمہارے بیٹے نے بھی کیا تھا ، اس کے لئے تو پگ لوگوں کے قدموں میں ڈال دی تھی ، بیٹیوں کے رشتے بھی دے دیئے تھے ۔ بیٹے پر سانس وار دی تھی ، اس کو کیوں نہ مارا تھا ۔؟‘‘ نظم اتنی اہمیت کی حامل ہے کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ، اس لئے سرائیکی نظم ’’ کاروکاری ‘‘ حاضر ہے : چھوٹا ہک معصوم ایانْاں دِل بَٖدھ پیو دے نال اَلانْاں ابّا سئیں توں رَنج نہ تھیویں گاٖل میڈٖی تے اَنج نہ تھیویں میکوں ہک وسواس پیا کھاوے مسئلہ میکوں سمجھ نہ آوے بھیرو بھینْ کوں رَل مِل ساریں گٖچی گُھٹ تے کیوں چا ماریے بٖیٹھی ہوئی او وانْ بٖدھیندی کہیں دا ہئی او کیا وگٖڑیندی؟ تیکوں حال میں ڈٖینداں بٖچڑا سچی گاٖل ڈٖسینداں بٖچڑا کہیں کوں ایہو حال نہ ڈٖسیں لجٖ دی گاٖل اے گاٖل نہ ڈٖسیں گزری رات کوں دھمی ویلھے غیر جوان دے نال کھڑی ہئی پاتی پیار دھمال کھڑی ہئی اَبّا ! خوف خدا توں ڈٖریں کاوڑ نہ کہیں گاٖل تے کریں پَر تاں پیڑے پُتر وی تیڈٖے ایہو جھاں ہک جُرم کیتا ہا پرلی وستی ونجٖ پکڑیا ہا اوندے سانگے دَر دَر پَگٖوں رولیاں ہانی چٹی دے وچ سوہنْیاں دھیریں گھولیاں ہانی پُتر توں ساہ چا واریا ہاوی اونکوں کیوں نہ ماریا ہاوی ؟؟؟