دودھ پینے والے مجنوں اور ہوتے ہیں، خون دینے والے دوسرے۔ باتیں بنانے والے اور ہوتے ہیں صاحبِ عمل دوسرے۔ دعویٰ ایک چیزہے، ریاضت و ایثار دوسری۔ دعوے تو بھٹو نے بھی بہت کیے تھے۔ فخرِ ایشیا اور قائدِ عوام بھی کہلائے۔ دعوے تو میاں محمد نواز شریف نے تو یہ بھی کہا تھا کہ وہ قوم کی تقدیر بدل ڈالیں گے‘ یعنی پروردگار کے قائم مقام ہو جائیں گے۔ ان دونوں سے زیادہ قصیدے عمران خان کے لکھے گئے۔ انہیں تاریخِ انسانی کے عظیم ترین رہنما کے طور پرپیش کیا گیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اکیسویں صدی میں ریاست مدینہ کا احیا کر دکھائیں گے ۔اعلان اور اظہار میں ان میں سے ہر ایک قائدِ اعظم سے بڑھ کر تھا مگر ملک کے ساتھ انہوں نے کیا کیا؟ ایک نسل کو بھٹو نے دھوکہ دیا کہ معیشت برباد کر دی۔ دوسری کونواز شریف نے کہ بھارت کی بالادستی مان لی۔ تیسری کو عمران خان نے فریب دیا‘ہر چند آخری حکم ابھی لگایا نہیں جا سکتا کہ حاکمیت کے کچھ دن باقی ہیں۔ہاں! مگر اب تک دھاگے کا سرا ان کے ہاتھ میں نہیں آسکا، ڈور کیا سلجھائیں گے۔نام بڑا اور درشن چھوٹے۔ ابرہام لنکن کے ملبوس میں واجد علی شاہ برآمد ہوئے۔ یہ کراچی سے ڈاکٹر فیاض عالم کا خط ہے ‘ڈاکٹر صاحب نعمت اللہ خان کے جانشینوں میں سے ایک ہیں۔ تھر کے صحرا میں پھول کھلاتے ہیں۔ مفہوم واضح کرنے کیلئے کچھ الفاظ بدل ڈالے ہیں۔ ’’لوگ خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہیں، بیانات دیتے ہیں، جوشیلی تقاریر کرتے ہیں، میڈیا پر لڑتے جھگڑتے ہیں۔ عملی طور پر ان کے لیے کیا کرتے ہیں؟۔یہی بنیادی سوال ہے۔ آیئے آج ایک خاتون کا ذکر کروں جو دسمبر 1995 میں میری زندگی کا حصہ بنیں ۔ صدیقہ ایم بی بی ایس کرنے کے بعد ایک اعلیٰ ڈگری ایم سی پی ایس یعنیMember of college of physicians and surgeons کی تربیت پارہی تھیں ۔ چند ماہ باقی تھے۔ ایک دن میں نے کہا کہ صدیقہ چھوڑ دیں اور اورنگی ٹاون میں الخدمت ہسپتال میں ہمارے ساتھ مل کر گائنی کاکلینک شروع کردیں ۔ الخدمت ہسپتال کی پہلی عمارت زیر تعمیر تھی۔فرشی منزل پر کچھ معالجے کیلئے چند کمرے تیار تھے۔ انہوں نے پوچھا: وہاں جایا کیسے کرینگے؟ ’’گاڑی پر ساتھ جایا کریں گے، کبھی کبھی عزیز آباد سے منی بس پر بھی جانا پڑے گا۔‘‘جواب ملا:چار مہینے ٹریننگ کے باقی ہیں ۔ اس کے بعد امتحان دے کر میں اسپیشلسٹ بن سکتی ہوں ۔ اس کے بعد ہم اپنا ہسپتال کھول سکتے ہیں ۔میں نے کہا کہ وہ بھی اپنا ہی ہسپتال ہے اور تربیت بعد میں بھی ہوسکتی ہے۔ تربیت کی مدّت کچھ عرصے کے بعد ایک کی جگہ دو برس ہوگئی ۔ڈاکٹر صدیقہ نے وہ بقیہ مدت 2004 ء میں مکمل کی اورامتحان پاس کیا۔1947ء سے لے کر 1996 ء تک کسی خاتون نے ’’الخدمت‘‘ کے کسی بھی ہسپتال میں کسی بھی حیثیت میں کام نہ کیا تھا۔ اس وقت یہ ایک کمرے کے دفتر اور چار کلینکس والا ادارہ تھا۔ 1996 ء کراچی کے بدترین برسوں میں سے ایک تھا جب 1995ء میں شروع ہونے والا نصیراللہ بابر اور ڈاکٹر شعیب سڈل کا مشہور زمانہ آپریشن جاری تھا۔ جب شہر کے مستقبل کا فیصلہ ہونے والا تھا۔اورنگی ٹاون کا شمار شہر کے مشکل ترین علاقوں میں ہوا کرتا تھا۔گائنی کلینک شروع ہوا اور کچھ ہی دنوں میں خواتین کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوگیا۔ ذہن میں یہ تھا کہ جو خاتون آج رجسٹریشن کرائے گی‘ اس کے بچے کی پیدائش میں نو ماہ لگیں گے۔ اس دوران ہم لیبر روم قائم کرلیں گے۔ ہم عزیزآباد بلاک 8 میں نائن زیرو کے عقب میں دو گلیاں چھوڑ کر کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔اگلے ہی مہینے سے ایسی خواتین آنے لگیں جن کے بچوں کی پیدائش میں چند ہفتے باقی تھے۔ عجیب مصیبت آن پڑی۔اس وقت ڈاکٹر محمد صدیق کام آئے۔ ناظم آباد ہسپتال میں ان کی شراکت داری تھی۔ انہوں نے کہا کہ اورنگی کی ضرورت مند خواتین کو یہاں بھیج دیا کریں۔ الخدمت کے پاس ایک بھی ایمبو لینس نہیں تھی۔ شب کوئی مریضہ ناظم آباد ہسپتال آتی۔۔۔ ہفتے میں کئی بارایسا ہوتا تو میں اپنی گاڑی میں صدیقہ کو لے کر لیاقت آباد دس نمبر سے ہوتا ہوا‘ ہسپتال جاتا۔ یہ نازک فرض انجام دیا جاتا۔ میں یہ سارا وقت انتظار گاہ میں بیٹھا رہتا۔ کئی بار یہ بھی ہوا کہ اگلے روز ہڑتال ہوتی۔ راستے میں گاڑیاں اور رکشے جلائے جا رہے ہوتے۔ ہاتھوں میں ہتھیار لئے لڑکے سڑکوں پر کھڑے ہوتے۔ گاڑی کے قریب آتے ۔یہ جان کر کہ ہم مریض کی دیکھ بھال کرنیوالے ڈاکٹر ہیں، ازراہِ کرم ہمیں جانے کی اجازت دے دیتے! ان حالات میں روزانہ اورنگی جانا اور پھر روز و شب کے مختلف اوقات میں ناظم آباد ہسپتال پہنچنا! آج اس طرح کے چیلنج کو دعوت دینے کے لیے شاید کوئی خاتون ڈاکٹر سوچ بھی نہ سکے۔ اول تو اب منی بس سے اورنگی ٹائون جانے کا تصور ہی محال ہے۔ الخدمت کے لئے ہم نے ناظم آباد ہسپتال ستمبر 2000 ء میں خریدا۔ 1996ء ، 1998ء اور 2000ء میں اللہ نے ہمیں تین بچوں سے نوازا۔عمار، شفاء اور عمر۔ کیا کوئی یقین کرے گا کہ گائنا کالوجسٹ ڈاکٹر صدیقہ نے ان بچوں کی پیدائش کیلئے ایک دن کی بھی چھٹی نہ لی۔کلینک میں مریض دیکھتے‘ وقت آیا تو اورنگی سے رکشہ لے کر اردو بازار کے قریب میمن ہسپتال جا پہنچیں۔ اور مجھے فون پراطلاع دی۔ تیسرا بچہ ناظم آباد ہسپتال میں 16 ستمبر 2000ء کو پونے تین بجے شب پیدا ہوا۔اڑھائی بجے یعنی صرف 15 منٹ پہلے صدیقہ نے اسی لیبر روم میں ایک نومولود کو جنم دینے میں مدد اور رہنمائی کی تھی۔ کیا دنیا میں ایسی بھی کوئی دوسری مثال ہوگی؟ شائد کم کم، شاید کبھی کبھی، النادر کالمعدوم۔ اس دوران تھرپارکر، گلگت، بلوچستان، بالاکوٹ اور آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں میں الخدمت گرین کریسنٹ ٹرسٹ، کارساز ٹرسٹ اور پیما کے تحت طبی کیمپوں میں شرکت کے فرائض بھی انجام دیے۔اللہ کا بے پایاں کرم کہ خدمت کا یہ سفر اب بھی جاری ہے۔اپنے بندوں پر پروردگار کی عنایات جاری ہیں۔ جماعتِ اسلامی میں، الخدمت جس کا ذیلی ادارہ ہے، ایسی ڈاکٹر موجود تھیں، جو صدیقہ سے زیادہ تجربہ کار تھیں۔اپنے معاشی مفادات اور اپنے پیشے میں ترقی کے امکانات سے صرفِ نظر لیکن ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ کم کم، کسی کسی کو یہ توفیق ارزاں ہوتی ہے۔آج کی نسل بلکہ الخدمت اور جماعت کے مرد و خواتین کو بھی معلوم نہیں کہ الخدمت کے یہ ہسپتال کس خاتون کے بے ریا ایثار سے وجود میں آئے ۔ مذہبی یا سیکولر، احسان نا شناسی ہر طبقے میں یکساں ہے۔عقائد نہیں، اس کا تعلق تربیت سے ہوتا ہے۔ ہنستے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ‘ ہزاروں مائوں کے بچے آنگنوں میں کھیلا کیے۔ کتنے بہت سے پھول کھلے،کتنے چمن آراستہ ہوئے۔ کتنے شجر چھتنار ہو گئے۔اللہ کے کرم سے سینکڑوں کورزقِ طیب عطا ہوا۔ اب ایسے لوگ بھی الخدمت پہ ماہرانہ کلام کرتے ہیں، جنہیں اس ادارے کی ابجد کا علم بھی نہیں۔ ایسی ایسی خواتین ملازمت پیشہ بہنوں اور بیٹیوں کے مسائل پر تقاریر فرماتی ہیں، جنہیں پوری زندگی میں چند ہفتے بھی مشقت کی توفیق ہوئی، نہ کبھی ایثار کی۔ ماروی سرمد جیسی خواتین بھی قابلِ تکریم ہیں۔ہر انسان لائق تکریم ہے۔ سوال یہ ہے کہ مشرقی معاشرے میں صنفِ نازک کی نمائندگی کا حق کن خواتین کو حاصل ہونا چاہئیے؟‘‘ دودھ پینے والے مجنوں اور ہوتے ہیں، خون دینے والے دوسرے۔ باتیں بنانے والے اور ہوتے ہیں صاحبِ عمل دوسرے۔ دعویٰ ایک چیزہے، ریاضت و ایثار دوسری۔