کسی موقع پر ایک شعلہ نو اخطیب نے کہا تھا کہ ہمارے میزائل غوری اور غزنوی ہی کیوں ہیں ،اجمیری او ہجویری کیوں نہیں؟ تووہاں یہی کہا گیا کہ ''نگاہ کی تیغ بازی اور سپاہ کی تیغ بازی''میں فرق ہوتا ہے ۔علاقوں کو فتح کرنا اور۔۔۔ دلوں کو مسخر کرنا اور ہوتا ہے ۔جب سیّد ہجویرؒ اورخواجہ اجمیرؒ جلوہ گر ہو جائیں تو محمود غزنوی اورشہاب الدین غوری بھی آہی جایا کرتے ہیں ۔خواجہ معین الدین چشتیؒ ، جن کے 807ویں سالانہ عرس کی تقریبات اجمیر شریف میں جاری ہیں ، کے مرید اور معتقد شہاب الدین غوری، جو ترائن کی لڑائی بمطابق 1191ء میں شکست خوردگی کے بعد قدرے مایوسی کا شکار تھا ، حضرت خواجہ خواجگانؒ نے خواب میں اسے ہندوستان کی بادشاہت کی خوشخبری عطا فرمائی ، اس تائید غیبی اور اشارئہ باطنی کے بعد ،وہ ہندوستان پر دوبارہ حملہ آور ہوا ،تراروڑی کے مقام پر پتھوراراجہ شکست سے دو چار ہو کر ،شہاب الدین غوری کے ہاتھوں زندہ گرفتار ہوا ، اور یوں خواجۂ خواجگان ؒکے منہ سے نکلے ہوئے یہ الفاظ پورے ہوئے کہ ''من ترا زندہ بدستِ لشکرِ اسلام بسپر دم ''یعنی ہم نے پپتھورا کو ، زندہ گرفتار کرکے ،لشکر اسلام کے حوالے کردیا ۔ اجمیر اس وقت ہندو اور راجپوت سامراج کا سب سے مضبوط سیاسی مرکز اور سب سے بڑے''تیرتھ ''کی موجودگی کے سبب ، اہم ترین مذہبی مقام بھی تھا، تراروڑی کے معرکے سے فارغ ہو کر ، شہاب الدین غوری اجمیر آیا، حضرت خواجہ خواجگان کے ہاتھ پر بیعت ہوا ،تین روز آپ کے پاس مقیم رہ کر ،آپ کی خصوصی توجہات سے فیضیاب ہوا ۔حضرت خواجہ ـغریب نواز ؒنے ،سلطان غوری کو جو بہت سے پند ونصائح کیئے ،ان میں بطور خاص یہ بھی تھا کہ یہاں کے باشندوں سے اچھا سلوک کرنا اور عدل وانصاف سے حکومت کرنا ،آپ نے پرتھوی راج کے بیٹے گو بند راج سے بھی حُسن سلوک کی ہدایت فرمائی ، غوری کی طرف سے ،آپ کی خدمت میں پیش کردہ زرکثیر کو ---مقامی لوگوں میں تقسیم کرتے ہوئے انسان دوستی کے جذبوں کو عام کرنے کا حکم فرمایا ۔بھارتی ہوا باز اَبھے نندن سے حُسنِ سلوک ۔۔۔ کوئی پہلا واقعہ نہیں، بلکہ یہ ہماری طویل اسلامی روایت کا تسلسل ہے ، اور جہاں تک ''غوری بلاسٹک میزائل ''کا تعلق ہے جو روایتی اور نیو کلیر وار ہیڈزلے جانے کی صلاحیت رکھتا اور تیرہ سو کلو میٹر تک اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے ، جس کا گذشتہ برس کامیاب تجربہ کیا جا چکا ، اور حالیہ کشیدہ صور تحال میںتو ابھی اس کی ''رونمائی ''کا موقع ہی نہ آسکا۔ موجودہ تنائو کے سبب ، اس سال پاکستانی زائرین حضرت خواجہ غریب نوازؒ کی بار گاہ میں حاضری کی سعادت سے محروم رہے، تاہم لاہور میں ، حضرتِ خواجہ غریب نوازؒ کی نسبتوں سے مزّین--- حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار کی پائنتی کی طرف ،آپ کی عظیم المرتبت ''چلہ گاہ ''اس خاص یوم یعنی'' چَھٹی شریف ''کے موقع پر خصوصی روحانی برکات فراواں کیئے ہوئے ہوگی۔ حضرت خواجہؒ کے یوم وصال بمطابق 6رجب المرجب ---کی مناسبت سے، ماہانہ چَھٹی شریف اور سالانہ تقریبات ،خانقاہِ داتا گنج بخش ؒ کے خاص معمولات میں شامل ہیں ۔سماع ہال داتاؒ دربار میں،5رجب المرجب ، بمطابق13 مارچ2019ئ(بدھ) 11بجے دن ''قومی تصوف سیمینار ''اور''محفل سماع''کا اہتمام ہوگا ،جبکہ 14مارچ بمطابق 6رجب المرجبکو8:00بجے صبح آپ کے اُس حجرئہ اعتکاف کے غسل کی خصوصی تقریب منعقد ہوگی ، جہا ں''چلّہ کش ''ہونے کے بعد ،آپ نے اپنا وہ شہرئہ آفاق شعر کہا، جس کو ہر آنے والے دن کے ساتھ نیا عروج اور کمال میسر آتا ہے۔ گنج بخش فیضِ عالم مظہرِ نور خدا ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما بلاشبہ حضرت داتا گنج بخشؒ کا آستاں باہمی محبتوں کا امین اور انسان دوستی و رواداری کا علمبردار ہے۔ اسی محبت ، رواداری ، انسان دوستی اور احترامِ آدمیت کی خوشبو حضرت خواجہ خواجگانؒ کے وسیلہ سے برصغیر میں عام ہوئی ۔ حضرت خواجہ بزرگؒ فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو دریا جیسی سخاوت ، آفتاب جیسی شفقت اور زمین جیسی تواضع پیدا کرنی چاہیے۔۔۔ کہ ان کی فیاضیاں اور کرم گستریاں اپنے اور پرائے کا فرق نہیں کرتیں اور ہر کس ونا کس کے لیے عام ہوتی ہیں۔ آپؒ سیر الاولیاء میں ''حقیقی عبادت ''کی توضیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "در ماندگان را فریاد رسیدن وحاجت بیچارگان روا کردن و گرسنگاں را سیر گردانیدن" ''یعنی عاجزوں کی فریاد کو پہنچنا ، ضعیفوں اور بیچاروں کی حاجت روائی کرنا اور بھوکوں کا پیٹ بھرنا ہی حقیقی عبادت ہے ''۔ جمنا کے کنارے پانی کا ڈول کھینچتی ۔۔۔ لاغر اور بیمار عورت کے احوال معلوم ہونے پر سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ؒ اپنے خادم کو حکم فرماتے ہیں کہ جب تک اس عورت کے حالات درست نہیں ہوجاتے ۔۔۔ اس کا خاوند صحت یاب اور برسرِ روزگار نہیں ہوجاتا ، اس وقت تک ہر ماہ اس کے گھر میں سامانِ خورد ونوش کی فراہمی ہماری خانقاہ کی ذمہ داری ہے۔ یہی سلطان المشائخ اپنے شیخ اور پیر و مرشد حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکرؒ کی مجلس کے احوال اور ملفوظات بیان کرتے ہوئے ''فوائد الفواد''میں لکھتے ہیں کہ حضرت بابا صاحبؒ کی خدمت میں جب ایک عقیدت مند نے قینچی پیش کی تو آپؒ نے فرمایا: ''مجھے قینچی نہ دو کہ میں کاٹنے والا نہیں ہوں، مجھے سوئی دو کہ میں جوڑنے والا ہوں'' سلاسل طریقت ۔۔۔ بالخصوص سلسلۂ چشتیہ محبت کی کارفرمایوں سے عبارت ہے ۔ مولانا رومؒ نے ایک مقام پر لکھا ہے کہ کائنات کشش ثقل سے نہیں بلکہ ''جذبۂ محبت ''کے سبب رواں دواں ہے۔ ہر ذرہ اپنے سے برتر ذرے کی طرف کھنچ رہا اور اپنی نفی کرتے ہوئے اپنے سے بہتر شکل میں ڈھلتا چلا جا رہا ہے۔ سلسلۂ چشتیہ کے بانی خواجہ ابواسحاقؒ شام کے رہنے والے تھے، اپنے وطن سے چل کر بغداد آئے اور حضرت علو ممشاد دینوری ؒ کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئے۔ خواجہ دینوری ؒ اپنے زمانے کے بلند پایہ بزرگ تھے، عقیدت مندوں کا انبوہِ کثیر ان کی خدمت میں حاضر رہتا ۔ خواجہ فرید الدین عطارؒ نے ''تذکرۃ الاولیائ''اور مولانا عبدالرحمن جامی ؒ نے ''نفحات الانس''میں ان کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ اپنی خانقاہ کا دروازہ عموماً بند رکھتے تھے، جب کوئی آتا تو پوچھتے مسافر ہو یا مقیم ؟ پھر فرماتے اگر مقیم ہو تو اس خانقاہ میں آجاؤ، اگر مسافر ہو تو یہ خانقاہ تمہاری جگہ نہیں، چونکہ جب تم چند روز یہاں رہو گے تو مجھے تم سے محبت اور اُنس ہو جائے گا اور پھر تم جانا چاہوگے تو مجھ سے یہ بُعد اور فراق برداشت نہیں ہوگا۔ حضرات صوفیاء اُمت اور اولیائے ملّت محبتوں کے اسی دبستان کے امین اور نگہبان تھے۔ آج جب کہ ہر طرف ایک دہشت اور وحشت انسانیت کو گھیرے ہوئے ہے ،ان حالات میں ضروری ہے کہ ہم صوفیاء کے انہی فرمودات سے روشنی حاصل کرتے ہوئے اپنی زندگی کی شبِ تاریک کو سحر آشنا کریں۔