ہے کوئی شخص سمندر جیسا سخی ۔ سورج جیسا مشفق اور زمین جیسا متواضع ؟ عقلی طور پر تو سمجھ نہ آنے والی بات ہے اور اجمیر پہنچ کر تو رہے سہے قیاسات بھی گم ہوجاتے ہیں کہ سیستان، ایران کے ایک خوبرو ،خوش قامت نجیب الطرفین سید زادے، سید معین الدین نے جوانی میں ہی اجمیر کو اپنا مستقر کیوں بنا لیا تھا۔تمام دنیا میں تحصیل علم اور رموز تصوف سیکھنے کے لیے سال ہا سال پھرنے والے صاحبِ دل کو یہ ریگستانی ویرانہ اور بے آباد جنگل کیا ایسا بھایا کہ وہ یہیں کا ہورہا۔اجمیر بھی آج کا اجمیر نہیں،پرتھوی راج کے زمانے کا راجپوتانہ۔ 588ء میں تو یہاں مسلمانوں کے ابتدائی قدم بھی نہیں پہنچے تھے جب خواجہ معین الدین اجمیر پہنچ چکے تھے۔یہ جنگلی درندوں اور دشمنوں کے درمیان پڑاؤ ڈال کر رہنے کے مترادف تھا۔پرتھوی راج کی طرف سے رائے پتھورا کی اجمیر پر حکومت تھی اور اسے خواجہ کا اجمیر میں قیام کرنا سخت نا پسند تھا۔ارد گرد کے مندروں کے پجاریوں اور پنڈتوں کی ناراضگی اس پر مستزاد۔لوگ جوق در جوق خواجہ کے حلقہء اثر میں آرہے تھے۔اندازہ ہے کہ کم و بیش ایک لاکھ لوگوں نے ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔اسے برداشت کرنا دشمنوں کے لیے آسان کیسے ہوسکتا تھا۔لیکن خلق میں ان کی محبوبیت غیر معمولی تھی۔جنگلوں،غیر قوموں اور مذہبی دشمنوں میں رہتے ہوئے اس سید زادے نے سب قوتوں کو مسخر کیا اور بتا دیا کہ اصل قوت صرف ایک ہے۔وہ حاصل ہو تو باقی سب طاقتیں ہیچ ہیں۔اسی کے حکم پربڑے شہر چھوڑے جاتے اور ویرانے آباد کیے جاتے ہیں ۔ اجے راجا چوہان نے جب آٹھویں صدی عیسوی میں اراوالی پہاڑیوں کے دامن میں یہ شہر بسایا تو اس کا نام اجایا میرو (ناقابل تسخیر پہاڑیاں) تھا۔پھرسلطان محمد غوری نے یہ شہر پرتھوی راج سے چھین لیا۔اسی شہر میں شہنشاہ جہانگیر نے مارواڑ کی فتوحات سے واپسی پر شہزادہ خرم کا استقبال کیا.۔یہیں ایسٹ انڈیا کمپنی کا ایلچی ٹامس رو جہانگیر کے دربار میں باریاب ہوا۔یہیں اجمیر میں شہزادہ دارا شکوہ اور شہزادی جہاں آرا بیگم پیدا ہوئے۔لیکن یہ سب واقعات اجمیر کی اصل شناخت کے سامنے بہت چھوٹے ہیں۔اصل شناخت یہ ہے کہ یہ خواجہ غریب نواز حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی خانقاہ اور قیام گاہ ہے۔جہاں ہم غریب جو غریب الوطن بھی تھے سلام پیش کرنے آئے تھے۔ مزار سے کافی پہلے ہمیں گاڑی ایک جگہ کھڑی کرکے پیدل چلنا تھا۔ایک لمبا دو رویہ بازار سامنے تھا اور جلد ہی گداگروں کے ہجوم سے اندازہ ہوگیا کہ ہم درگاہ کے قریب ہیں۔کچھ ہی دیر میں سامنے نظام دکن ،میر عثمان علی خان کا بنوایا ہوا بلند دروازہ نظر آنے لگا۔سائل مبرم (نہ ٹلنے والا بھک منگا)کا لفظ کئی بار پڑھا تھا لیکن حقیقت میں گداگروں کے غول دیکھ کر اس کی صحیح تصویر اس راستے پر دیکھی۔اپنی جیب ،اپنا سامان بچانا مشکل تھا۔ایک دستِ سوال ہاتھ کھینچتا تھا اور دوسرا دستِ دراز دامن پکڑتا تھا۔آپ کچھ بھی کہتے رہیے ،وہ آپ کے ساتھ نتھی رہیں گے۔ہم بہت مشکل سے دروازے تک پہنچے اور کسی طرح اندر داخل ہوگئے۔ سہ پہر کی گرمی کے باوجود اندر خلق کا ہجوم تھا۔عقیدت مند ہر طرف تھے جس میں دھتکاری ہوئی مخلوق کی تعداد زیادہ تھی۔ہم گدی نشینوں اور مجاوروں سے بچتے بچاتے درگاہ کے دفتر انتظام میں پہنچے اور اپنا تعارف کروایا۔پاکستانی شاعر اور مسافر ہونے کا فائدہ ہوا کہ کچھ دیر کے بعد گدی نشین خانوادے کے ایک بھلے مانس منتظم آکر ہمارے ساتھ بیٹھ گئے۔فورا ہی گلابی رنگ کے ربن نما دوپٹے منگوا کر ہمارے سروں پر باندھ دئیے گئے جو خصوصی اکرام کی نشانی تھی۔چائے منگوائی گئی۔پھولوں اور گلاب کی پتیوں کی ایک ایک چنگیر ہمارے ہاتھوں میں تھما دی گئی۔اب یاد نہیں کہ ہم سے اس کے پیسے لیے گئے یا نہیں۔ایک صاحب ہمارے ساتھ چلے تاکہ ہمیں مزار پر فاتحہ پڑھوانے،دعا کروانے کے وکیلوں سے بچا کر مزار پر لے جاسکیں۔جیسے ہی ہم اس حجرے میں پہنچے جہاں مزار واقع ہے ،کسی نے زبردستی ہمارے سر ایک سبز چادر کے نیچے کردیے۔چادر کے کونے بلندسٹولوں پر بیٹھے ہوئے مخصوص حضرات کے ہاتھ میں تھے جو زائرین کی طرف سے زبردستی دعا اور فاتحہ کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔آوازوں کی ایسی گونج تھی کہ اپنی دعا اور اپنی فاتحہ پیش کرنا ناممکن کی حد تک مشکل تھا۔کیسا ظلم ہے کہ خواجہ کی درگاہ میں نہ آپ اپنے طور پر خواجہ کے پاس حاضر ہوسکتے ہیں نہ فاتحہ اور دعا کے پھول نچھاور کرسکتے ہیں۔ ایسی رسومات، ایسی بدعات، ایسے عجیب و غریب رواج، فاتحہ کے بہانے نذرانے وصول کرنے کے ایسے طریقے میں نے زندگی بھر کہیں نہیں دیکھے تھے۔نہ اس سے پہلے نہ اس کے بعد۔ظاہر ہے صدیوں پہلے کی ان جلیل القدر بزرگ شخصیات کی یہ تعلیمات ہرگز نہیں تھیں۔ان کا دروازہ تو ان کی زندگی میں بلا دربان ہر ایک کے لیے کھلا تھا۔غریب نواز ان کا لقب ہی نہیں ان کا عمل بھی تھا۔لیکن یہ بات آج کے ماحول میں کون کہے ،کیسے کہے اور کس سے کہے؟ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی عقیدت نسل در نسل عوام خواص اور بادشاہوں میں چلی آتی ہے۔اکبر اعظم نے لنگر خانے کے لیے ایک بہت بڑی دیگ نذر کی۔اسی طرح جہانگیر نے ایک اور نسبتا چھوٹی دیگ لنگر کے لیے بھیجی۔یہ دونوں دیگیں اب تک زیر استعمال ہیں۔ہم فاتحہ پڑھ کر بڑی دیگ کی طرف چلے۔میں نے پڑھ رکھا تھا کہ اس دیگ میں ایک سو بیس من کھانا پکتا ہے یعنی تقریبا پانچ ہزار کلو گرام اور یہ دنیا کی سب سے بڑی دیگ ہے۔دیگ کے قریب پہنچ کر ہم رک گئے۔ہمارے سامنے پکے سیمنٹ کی اونچی اونچی پانچ سیڑھیاں تھیں۔ان پر چڑھ کر وہ منڈیر آتی تھی جہاں سے دیگ کے دہانے میں جھانکا جاسکتا تھا۔ہم منڈیر پر پہنچے جہاں ایک آدمی کے کھڑے ہونے اور دیگ کے چاروں طرف پھرنے کی گنجائش تھی۔واقعی یہ اتنی بڑی دیگ ہے کہ اس سے بڑی شاید ممکن ہی نہیں۔اس میں کھانا پکاتے وقت کیسے ہلایا جاتا ہوگا اور کون سے کفگیر سے؟کتنے باورچی پکاتے ہوں گے؟اور پکنے کے بعد کھانا کیسے نکالا جاتا ہوگا؟معلوم ہوا کہ سیڑھیاں لگا کر اندر اترا جاتا ہے اور بڑی بڑی بالٹیوں سے ہی کھانا نکالا جاتا ہے۔بیک وقت چار ہزار لوگ ان دیگوں کا کھانا کھا سکتے ہیں۔جب ہم پہنچے تو اس وقت کھانا نہیں پکایا جارہا تھا۔دیگ میں جھانکا تو اندر آٹے، چاول، شکر ،دالوں کے تھیلے،گڑ،چھوٹے بڑے سکے،بڑے چھوٹے نوٹ سب ملے جلے پڑے تھے۔جس کی جو توفیق ہو وہ نذرانے کے طور پر دیگ میں ڈال دیا جاتا ہے۔دیگ پکوانے کی نیلامی ہوتی ہے اور دیگ پندرہ دن کے لیے کروڑوں روپے کی کامیاب بولی دینے والے کے سپرد کردی جاتی ہے۔ درگاہ سے واپس گاڑی کی طرف جاتے ہوئے دل بہت خوش بھی تھا کہ ہم نے برصغیر میں خالص دین کی خدمت کے مظہر سلطان الہند کی خدمت میں حاضری پیش کی۔