پاکستان میں ہر آنے والی حکومت گذشتہ حکومت کے متعلق یہی کہتی ہے کہ وہ اسے ورثے میں خالی خزانہ اور بدحال معیشت دے گئی اور بدقسمتی سے یہ سچ بھی ہوتا ہے۔ماضی میںپاکستان میں معاشی پالیسیاں جزوی طور پہ ملکی ضروریات کے پیش نظر نہیں بلکہ کسی مخصوص افراد یا انڈسٹری کے فائدے کو مد نظر رکھ کے بنائی گئیںاور انہوں نے معاشی خسارے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کی وجہ برسر اقتدار خاندان کا تجارت سے وابستہ ہونا یا کرپشن اور منی لانڈرنگ کے ذریعے لگائی گئی مخصوص انڈسٹریوں کی ملکیت ہے۔اسی کی دہائی میں ہمارے معاشی جادوگر ڈاکٹر محبوب الحق نے ایس آر او کے ذریعے بجٹ میں اسٹیل کی امپورٹ ڈیوٹی کم کرکے تقریبا نصف کردی کیونکہ اتفاق فونڈریز دھواں اگل رہی تھیں۔اس کٹوتی سے اتفاق فونڈری کو براہ راست200ملین روپے کا فائدہ ہوا جبکہ سستا درآمدی سٹیل میسر آجانے کی وجہ سے پاکستان کو اربوں کا منافع دینے والی شپ بریکنگ صنعت کو نقصان اٹھانا پڑا۔ایسا ہی ایک ایس آراو اسی خاندان کو نوازنے کے لئے اتفاق شوگر ملز کی ایکسائز ڈیوٹی پچاس فیصد کم کرنے کے لئے جاری کیا گیا ۔ بعد ازاں نواز شریف نے اپنے دور اقتدار میں اتفاق فائونڈری کی مونوپلی کے لئے پاکستان شپ بریکنگ انڈسٹری پہ بے تحاشہ ٹیرف عائد کیا اور اربوں کا منافع اور ہزاروں ملازمین کو روزگار دینے والی پاکستان کی سب سے بڑی صنعت تباہ ہوکر رہ گئی اور کراچی شپ یارڈ جو پہلے گیارہ شوگر ملیں بنا چکی تھی، اسے مزید شوگر ملیں لگانے کی اجازت نہیں دی گئی۔نوے کی دہائی میں اپنے سکریپ سے لدے جہاز ساحل پہ پہنچتے ہی ایک خصوصی ایس آر ا و کے ذریعے 1500روپے فی ٹن ڈیوٹی ختم کرکے صرف500 روپے فی ٹن کردی گئی یوں گھر بیٹھے منافع کما لیا گیا ۔ریلوے کی خصوصی مال گاڑیاں ان کا اسکریپ کراچی سے لاہور منتقل کرتی رہیں ۔ آخری منتقلی کے فورا بعد ڈیوٹی واپس پرانی سطح پہ کردی گئی۔اس کا فائدہ کس کو ہوا یہ سب کو پتا ہے نقصا ن اس ملک کے اداروں بالخصوص پاکستان اسٹیل مل اور سندھ کی ری رولنگ ملز کو پہنچا۔یہ خصوصی ایس آر او ایف بی آر(سی بی آر) جاری کرتی تھی جو ظاہر ہے گھر کی لونڈی تھی۔ 1988-89 کا سال مالی بحرانوں کا سال رہااور مجموعی طور پہ ڈیڑھ سو ارب روپے کی اعلی سطح پہ مالی بدعنوانی ہوئی۔حکمران طبقے کے مالی مفادات ہوں یا وہ براہ راست تجارت سے وابستہ ہوں تو اس کا لازمی اثر معیشت پہ پڑتا ہے کیونکہ وہی صنعتیں ڈیوٹی اور ٹیکس میں کٹوتی سے بہرہ مند ہوتی ہیں جس میں ان کا پیسہ لگا ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال میں ملک میں معاشی پالیسیاں ملک و قوم کی ضروریات اور اخراجات کو مدنظر رکھ کر بنانے کی بجائے حکمران تاجر اور سرمایہ دار طبقے کے مفاد کی خاطر بنائی جاتی ہیں۔ اس بار زمام کار ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہے جن کا براہ راست تجارت سے تعلق نہیں ہے البتہ سرمایہ دار طبقہ ان کے اطراف موجود ہے جیسا کہ ضیا الحق کے دور میں محبوب الحق کوئی سرمایہ دار نہیں تھے لیکن ایک سرمایہ دار خاندان کے لئے سہولت کار بن گئے اور ملکی معیشت کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔اگر واقعی یہ حکومت پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنا چاہتی ہے تو اسے اس طبقے کے اثر سے نکلنا ہوگا اور وسائل واخراجات کے مطابق سنجیدہ اقدامات کرنے ہونگے۔ اس وقت معیشت کو جن چیلنجز کا سامنا ہے ان میںبڑھتے ہوئے بیرونی اور گردشی قرضے۔تجارتی خسارہ ،بچت کی عدم موجودگی،انویسٹرز کا عدم اعتماد،بڑھتے ہوئے اخراجات و تعیشات ، ٹیکس کی وصولی میں ناکامی، ریونیو کی کمی وغیرہ شامل ہیں۔رواں سال کے نصف تک پاکستان پہ بیرونی قرضہ اسی سال کی پہلی سہہ ماہی سے بڑھ کر چھانوے ہزار ملین ڈالر ہوچکا ہے۔گردشی قرضوں کا حال معلوم ہی ہے۔تجارتی خسارہ تاریخ کی بلند ترین سطح 34 ارب ڈالر ہوگیا۔جبکہ برآمدات کا حجم 21 ارب ڈالرسے زائد رہا جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 3سے 15 فیصد زیادہ ہے لیکن درامداتی بل 55ارب ڈالر ہوگیا جو پہلے سے پندرہ فیصد زیادہ ہے۔برامدات میں اضافے کی وجہ روپے کی قدر میں کمی تھی جو گزشتہ حکومت کے ارسطووں نے اسی واسطے کی تھی کہ برآمدات کا حجم بڑھایا جاسکے۔ اگر ایکسپورٹر نے خام مال برآمد نہیں کیا اور کوئی ویلیو ایڈڈ پراڈکٹ برآمد کی ہے تو اس پہ ایکسائز ڈیوٹی وہ ادا کرچکا ہے ۔ روپے کی قدر میں کمی کے بعد جو منافع اس نے حاصل کیا اگر اس پہ ٹیکس نہیں دیا یا حکومت وصول ہی نہیں کرسکی تو یہ فائدہ بس ایکسپورٹر کو ہی ہوا ملک کو نہیں۔اس کے علاوہ روپے کی قدر میں کمی کی ایک اور وجہ عالمی کریڈٹ ریٹنگ میں اضافہ بتایا گیا تھا۔ایسا ضرور ہوتا اگر دیگر معاشی اشاریے بھی ہمارے حق میں ہوتے لیکن چونکہ ایسا نہیں تھا اس لئے موڈیز نے پاکستان کو بی تھری میں منفی ریٹنگ دے دی کیونکہ روپے کی قدر میں کمی کے ساتھ ہی خود بخود بیرونی قرضے بھی بڑھ گئے اور انہیں اتارنے کی کوئی صورت دکھائی نہ دی۔ حکومت کو ٹیکس نیٹ بڑھانے کی بجائے پہلے سے ٹیکس نیٹ میں موجود بڑے صنعت کاروں اورایکسپورٹ کمپنیوں سے ٹیکس وصولی کوکسی بھی طرح یقینی بنانا ہوگا۔ غریب تنخواہ دار ملازم کا ٹیکس تو زبردستی کاٹ لیا جاتا ہے اور یہ ٹیکس سلیب خوفناک حد تک مضحکہ خیز ہے۔اس پہ نظرثانی کی ضرورت ہے تاکہ عوام جو پہلے ہی ہر شے کی خریداری پہ ٹیکس دیتی ہے اس کے علاوہ ہر اس سہولت پہ جو اسے مہیا بھی نہیں کی جاتیں،سکھ کا سانس لے سکے۔برآمدات کے حجم سے زیادہ اسکی ویلیو میں اضافے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے مقامی انٹرپرونیرشپ کو فروغ دینا ہوگا۔ ہمارے آبادی کا بڑا حصہ پرجوش اور باصلاحیت نوجوانوں پہ مشتمل ہے۔ انہیں کم سرمائے سے ویلیو ایڈڈ پراڈکٹ اور ہائی ٹیک آئیڈیا زکو عملی شکل دینے کے مواقع دئیے جائیں جس میں ہمارا ٹیلی کام سیکٹر جو ٹیکنالوجی میں کسی سے کم نہیں ہے، مددگار ہوسکتا ہے۔وہ جلد ہی اس قابل ہوسکیں گے کہ اپنی پراڈکٹ برآمد کرسکیں۔ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہم دنیا کو کیا برآمد کررہے ہیں جبکہ مارکیٹ نت نئی اورتخلیقی اشیا سے دن بدن بھرتی جارہی ہے۔دودھ کے ساتھ ڈیری پراڈکٹس اور گندم کے ساتھ گندم سے بنے بسکٹ اس کی ایک مثال ہوسکتے ہیں جن کی عالمی منڈیوں میں قیمت دودھ اور گندم سے زیادہ ہوگی۔دنیا کے تمام مہنگے ترین برانڈ بنانے والی ملٹی نیشنل کمپنیاں ہمارے محنت کشوں کا نہایت کم قیمت پہ خون چوس رہی ہیں اور دنیا پہ دھڑلے بلکہ بے حیائی سے حکومت کررہی ہیں۔ یہ سرمایہ ساری دنیا کی مارکیٹوں سے صارف کی صورت میں واپس ان ہی کمپنیوں کو مل جاتا ہے۔ جب ہمارے محنت کش اتنے ماہر اور تربیت یافتہ ہیں تو کیوں نہ ہم ہی ان سے کام لیں اور اس کی مناسب اجرت ادا کریں۔ ان سے اسی معیار کی مصنوعات بنوائیں اور برآمد کردیں۔آخر ہمارا انسانی اثاثہ سرمایہ دارکمپنیوں کے لئے کرائے پہ کیوں مہیا ہو۔ یہ ایک جرأت مندانہ اقدام ہوگا لیکن اس کے فوری اور بہترین نتائج حاصل ہونگے۔ہمارے درآمداتی بل میں ایک بڑا حصہ پٹرولیم اور اس کی مصنوعات کا ہے۔پبلک ٹرانسپورٹ معیاری اور سستی کی جائیں تاکہ لوگ اپنی کاروں کا استعمال بند کریں اور پٹرول کی بچت ہو جو زیادہ ضروری جگہوں پہ استعمال کیا جائے۔ درآمداتی فہرست میں سے وہ اشیا نکال دی جائیں جن کی ہمیں ضرورت نہیں اور جو ہم مقامی طور پہ بنا بھی سکتے ہیں اور ایکسپورٹ بھی کرسکتے ہیں۔ مثلا ہم آلو اور پیاز کیوں بھارت سے امپورٹ کرتے ہیں کیا ہم انہیں اگانے کے قابل نہیں رہے۔ زرعی اصلاحات کی ضرورت ہے جس میں ٹیکس اہم ہے اور ساتھ ہی سبسڈی بھی تاکہ زرعی اجناس ایکسپورٹ کرنے میں آسانی ہو اور اگر ان سے ویلیو ایڈڈ مصنوعات بنائی جارہی ہیں تو ان پہ ایکسائز ڈیوٹی کم کرکے ایکسپورٹ پہ براہ راست ٹیکس لیا جائے۔یہی ٹیکس اندرون ملک مینوفیکچرر پہ کم کیا جائے تاکہ ملکی مصنوعات سستی ہوں اور لوگ انہیں خریدنا چاہیں ساتھ ہی کوالٹی کنٹرول بڑھایا جائے۔ بڑی ہائوسنگ اسکیمیں زرعی رقبے نگلتی جارہی ہیں۔زمینوں کے مالکان کو پابند کیا جائے کہ وہ ہائوسنگ اسکیموں کو ایک حد سے زیادہ رقبہ فروخت نہ کریں۔سی پیک بڑا عمدہ منصوبہ ہے لیکن سوال کرنے میں حرج نہیں ہے ۔ ایسے منصوبوں پہ نظر ثانی کی جائے جن کی ہمیں ضرورت نہیں ہے اور جن کاقرضہ ہمیں ادا کرنا ہی ہوگا۔ یہ بھی پوچھا جائے کہ اس میں شامل تمام تھرمل پاور پروجیکٹ امپورٹڈ کول سے کیوں چلائے جائیں گے اگر تھر کا کوئلہ اس قابل نہیں تو اسے اس قابل بنانے کا کوئی منصوبہ اسی سی پیک میں کیوں نہ شامل کرلیا جائے تاکہ اپنے وسائل سے ہم بھی تو فائدہ اٹھائیں۔اتفاق سے اس سی پیک کے علاوہ ہمارا چین کے ساتھ تجارتی توازن خسارے میں ہے اور یہ سراسر ہماری نالائقی ہے کہ چین کی درجہ دوم اور سوم کی اشیا تو ہم امپورٹ کرلیتے ہیں لیکن اپنی درجہ اول کی وہ مصنوعات نہیں بناتے جن کی چین اور دنیا کو ضرورت ہے۔