ہر زبان کے اپنے مسائل ہیں۔ غالب نے بھی تو کہا تھا: ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے منہ میں زبان رکھنا بھی کیا خوبصورت محاورہ ہے۔ دیکھا جائے تو ساری زبانیں ہی ادب کی ہیں اور غور کریں تو ادب کی کوئی زبان نہیں ہوتی۔ بات ایک ہی ہے۔ اصل مسئلہ تو بات کا ہے اور بیان کا۔ اس پر بھی بات کریں گے‘ پہلے میں ایک قضیہ نمٹا دوں۔ ہوا یوں کہ ایک حالیہ کالم میں میں نے اردو کانفرنس پر لکھا تو فی البدیہہ ایک شعر آغاز میں لکھ دیا: بے تکلف ہوا تو پہلی بار اس نے اردو میں بات کی مجھ سے یہ شعر وائرل ہوا تو بابائے پنجابی فقیر محمد فقیر کے نواسے پروفیسر جنید اکرم نے بہت شکوہ کیا کہ بے تکلفی تقاضا کرتی ہے کہ بات پنجابی میں ہونا چاہیے تھی۔ میں نے عرض کیا آپ درست کہہ رہے ہیں مگر جس بدبخت نے مجھ سے پہلی مرتبہ بات کی اسے اردو ہی آتی تھی کہ وہ بھی تواکثر پنجابیوں کی طرح پنجابی بھول چکا تھا۔ میں نے مگر جنید اکرم کی بات کو پھینکا نہیں کہ وہ پنجابی کے ساتھ بے انتہا پیار کرتا ہے۔ میں نے ایک پوسٹ لگا کر اس کے نام اور فی البدیہہ شعر پنجابی میں کہہ دیا: بُھل جاناں واں انگریزی تے اردو وی جد اوہنوں پنجابی بولدے سننا واں میں حیرت زدہ رہ گیا کہ اس پنجابی شعر کی جو پذیرائی ہوئی! میں نے پنجابی شاعری کے چھ شعری مجموعے دیے اور پنجابی شاعری پر پنجاب یونیورسٹی کا تھیسز بھی ہو چکا سچی بات ہے کہ اپنی زبان اپنی ہوتی ہے۔ انگریز ‘ اردو یا کوئی اورزبان ہو‘ اگر خون میں رواں ہو تو وہ خیالات کے برگ و بار لائے گی۔تکلف میں وہ بات بن نہیں پاتی۔ مثلاً مجھے فارسی اور سرائیکی بہت میٹھی لگتی ہیں حافظ نے کیسے کیسے خیال کو شیریں بنا کر پیش کردیا۔ مولانا روم نے ریشمی ڈوری میں قیمتی موتی پروئے۔ مجھے کبھی کبھی شاکر شجاع آبادی ہانٹ کرنا ہے: اساں پیلے پتر درختاں دے ساکوں رہندا خوف ہواواں دا پنجابی اور سرائیکی دونوں اصل میں صوفیا کی زبانیں ہیں سب صوفی شعرا کے اپنے اپنے رنگ اور اپنی اپنی خوشبو ہے۔ مگر پنجاب کے کرتا دھرتا روحانیت کو چھوڑ کر مادیت کی طرف نکل گئے۔ خاص طور پر افسر شاہی کارویہ تھا اور انہوں نے پنجابی کو درخور اعتنا نہ سمجھا اور اہل زبان جو اچھے عہدوں پر تھے اور انہوں نے پنجابیوں کو ویسے ہی گنوار سمجھا۔ یہ حقیقت ہے پھر یہ بھی ہو گیا کہ اردو قومی زبان ٹھہری اور اس میں اندر اترنے کی صلاحیت بھی تھی ذریعہ تعلیم بھی یہی بنی۔ پنجابیوں نے اردو کو باقاعدہ اپنا لیا اور ایسے اپنایا کہ ان کے رگ و پے میں یہ زبان اتر گئی وہ ادب شاعری اور تنقید میں بہت آگے نکل گئے۔ پنجابی یعنی ان کی اپنی مادری زبان ان کے لیے اجنبی ہوتی گئی اردو بولنا سٹیٹس سمبل ہو گیا اور بعض اونچی کلاس میں انگریزی نے یہ مقام حاصل کیا۔ مگر عوام میں صرف اردو مقبول ہوئی۔ اگر پنجابی پرائمری سے لاگو ہوتی تو سندھ کی طرح یہ بھی اپنا مقام بناتی۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ بچہ اپنی ماں بولی ہی میں زیادہ آسانی سے سیکھ سکتا ہے مگر ہم نے تو پنجابی کو ماں بولی بننے ہی نہیں دیا۔ ماں نے بھی بچوں کے ساتھ اردو روا رکھی اور اپنے میاں کے ساتھ پنجابی کیونکہ جھگڑے میں پنجابی ہی مزہ دیتی ہے بڑی لطف کی بات یاد آئی کہ جب ہم بہن بھائی چھوٹے چھوٹے تھے تو فیصلہ ہوا گھر میں سب اردو بولیں گے۔ ایک روز والد صاحب نے غصے میں آ کر شاید کہا ہو گا۔ ’’میں چنڈ ماراں گا‘‘ایک بھائی نے کہا ’’ابو آپ پنجابی بول رہے ہیں‘‘ والد صاحب نے کہا ’’توں بکواس نہ کر اپنے کول رکھ اردو نوں‘‘ اردو وچ دبکا نہیں وج سکدا۔ ظاہر ہے بھڑاس تو پھر اپنی مادری زبان ہی میں نکلتی ہے۔ ایک دلچسپ واقعہ یاد آیا کہ دبئی میں کسی نے سردار صاحب سے پوچھا کہ ’’ایئر پورٹ کہاں ہے؟’’ سردار خاموش رہا۔ اس بندے نے کہا Where is the airportسردارصاحب پھر خاموش رہے۔ اس طرح پوچھنے والے نے دو تین دوسری زبانوں میں یہی سوال کیا مگر سردار صاحب چپ ہی رہے۔ پاس کھڑے ایک دوست نے کہا ’یار! اس نے تم سے پانچ زبانوں میں ایئر پورٹ کا پتہ پوچھا مگر جاہلوں کی طرح خاموش رہے‘‘ سردار چونک کر بولا’’یار اوہنوں تے پنج زباناں آندیاں سن‘ اونہے کیہڑا میرے کول پچھ لیا۔ خیر بعضوں کی تو بے زبانی میں ترجمانی ہوتی ہے۔ زاہد فخری یاد آیا: اسے میری چپ نے رلا دیا جسے گفتگومیں کمال تھا اپنی زبان کا فائدہ یہ بھی ہے کہ اپنی ثقافت زندہ رہتی ہے اور ثقافت بہت زور دارہوتی ہے اب آج کے بچوں کو کون سمجھائے کہ یہ بولی کیا ہے: تیرے لونگ دا پیا لشکارا تے ہالیاں نے ہل ڈک لئے انہوں نے وہ فضا اور ماحول دیکھا ہی نہیں۔ اب گائوں قصبے اور قصبے شہر بن چکے سب سے بڑھ کر نیٹ نے ایسا نیٹ ورک بنایا ہے کہ سب کو ایک رسی میں باندھ کر رکھ دیا ہے۔ ان پڑھ سے ان پڑھ بھی موبائل کو کام میں لے آتا ہے۔ اسے انگریزی نہیں آتی مگر اسے سب آپشن کا معلوم ہے کہ ڈیلیٹ کیا ہے اور شیئر کیا ہے اس سے کون انکار کرے گا کہ ترقی اپنے راستے ایسے ہی بناتی ہے جیسے پانی زمین پر راستے بناتا جاتا ہے۔ ترقی کے لیے زبان کو ترقی دینا ضروری ہے ۔ اب بتائیے ہم کہاں جائیں۔ اب تو بہت کچھ ڈیلیور کرنا پڑے گا۔ آخر میں ایک شعر: یہ میرے شعر نہیں ہیں تیرا سراپا ہے کہ خوبصورتی اپنی نمود ڈھونڈتی ہے