کسی ملک کی قومی اسمبلی کو وہاں کے وزیر خزانہ نے ایک سوال پر تحریراً بتایا کہ ملک کے وزیراعظم ہائوس میں سال گزشتہ کے دوران سو ارب روپے کی چائے پی گئی۔ پی گئی سے مراد صرف پی گئی نہیں بلکہ پلائی گئی بھی اس میں شامل ہے۔ یہ خبر اس ملک کے چند ٹی وی چینلز پر ٹکر کی صورت میں ذرا کی ذرا چلی پھر یہ ٹکر غائب ہو گئے۔ اگلے روز اس ملک کے دونوں بلکہ تینوں بڑے شہروں کے اخبارات کھنگالے لیکن یہ خبر نظر نہیں آئی۔ ایسا اس ملک میں اکثر ہوتا ہے خاص طور سے پچھلے کئی برسوں سے کہ ٹکر ایک بار چل جاتا ہے‘ پھر غائب ہو جاتا ہے اور اگلے دن اخبارات سے بھی یہ خبر غیر حاضر ہوتی ہے۔ اس ملک کا نام معلوم ہے لیکن بتائوں گا نہیں۔ لیکن حساب لگانے پر پتہ چلا کہ ایک دن کی چائے پر سوا چونتیس لاکھ روپے کا خرچہ اٹھتا ہے۔ فی مہمان سوا چونتیس لاکھ روپے کی چائے بھی مان لی جائے تو گویا ہر روز اس وزیراعظم ہائوس میں ایک لاکھ مہمان آتے ہیں۔ یقین نہیں آ رہا کہ اتنے مہمان ایک دن میں آتے ہوں گے لیکن پھر اس ملک کے وزیراعظم کی دن دوگنی رات چوگنی مقبولیت کی رفتار دیکھ کر یقین آ جاتا ہے۔ لاکھ کیا دو لاکھ بھی آ جاتے ہوں گے۔ اسی ’’مقبولیت‘‘ کے آسرے پر مذکورہ ملک کے وزیراعظم نے دوسری بار دو تہائی اکثریت سے الیکشن جیتنے کا ارادہ ظاہر فرمایا ہے۔ دو تہائی اکثریت مقبولیت کا یہی عالم رہا تو موصوف چار چوتھائی اکثریت سے بھی جیت سکتے ہیں۔ ٭٭٭٭ بجٹ کے حوالے سے یہ بات اپوزیشن لے اڑی کہ جنوبی پنجاب کے لیے کوئی رقم نہیں رکھی گئی۔ اس سے جنوبی پنجاب کا احساس محرومی اور بڑھے گا۔ اس سے قبل یہ بات بھی تنقید کا موجب بنی رہی کہ سو دنوں میں جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا وعدہ اڑھائی برس بعد بھی پورا نہ ہو سکا۔ پورا ہونے کیا معنے‘ اس کی طرف سرے سے کوئی قدم ہی نہیں اٹھایا گیا۔ معاملے کو انصاف کی باطنی نظروں سے دیکھا جائے تو یہ تنقید بے معنے ہو جاتی ہے۔ آپ حکمرانوں کو چلتا پھرتا جنوبی پنجاب سمجھیں‘ اور انہی کو نہیں بلکہ جنوبی صوبہ محاذ کے درجن بھر ایم این ایز اور ایم پی ایزکو بھی چلتا پھرتا جنوبی پنجاب تصور فرمائیے اور پھر غور کیجئے کہ یہ چلتے پھرتے جنوبی پنجاب کس حال میں ہیں۔ اس حال میں کہ ان کی تھوڑی بہت نہیں‘ اڑھائی ہزا سالہ محرومیوں کی بھرپور بھر ہو چکی ہے۔ جتنا بجٹ جنوبی پنجاب کو ملنا چاہیے تھا‘ اس سے زیادہ مالیت کی خوشحالی اللہ کے فضل و کرم سے ان چلتے پھرتے جنوبی پنجاب پر نازل ہو چکی ہے۔امید ہے جنوبی پنجاب سے ہمدردی رکھنے والوں کی تسلی اطمینان بخش تک ہو گئی ہوگی‘ شرط انصاف کی عینک لگانے کی ہے اور بس۔ ٭٭٭٭ کل نیا ٹوتھ پیسٹ خریدا۔ 20 روپے زیادہ دینے پڑے، جو خوشی سے دیئے کہ خوشحالی بجٹ سے ملنے والی خوشحالی کے آگے 20 روپے کی کیا اوقات ہے۔ گندم پر حکومت نے ٹرن اوور ٹیکس لگا دیا ہے‘ پتہ نہیں یہ کیا ہوتا ہے‘ پہلے کبھی نہیں سنا۔ چوکر پر بھی ٹیکس لگ لیا۔ انگریزی معاصر کی رپورٹ ہے آٹے کا چھوٹا تھیلا 63 روپے تک مہنگا ہوگا۔ کوئی بات نہیں۔ ’’خوشحالی‘‘ ہر قیمت پر قبول ہے۔ ٭٭٭٭ بجٹ کی ایک خاص بات اس کا حکم اور اسی تناسب سے ترقیاتی رقوم کا حجم ہے۔ تین چار بجٹ پہلے میزانیے کا کل حجم 5500 ارب روپے کے لگ بھگ ہوا کرتا تھا اور اس میں ترقیاتی بجٹ کے لئے گیارہ سو ارب روپے رکھے جاتے تھے۔ اس ہفتے جو خوشحالی بجٹ حکومت نے پیش کیا ہے‘ اس کی مالیت 8400 ارب ہے۔ اس لحاظ سے ترقیاتی بجٹ 16 سو ارب ہونا چاہیے تھا لیکن ترقیاتی اخراجات کے لیے 9 سو ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ یعنی دو تہائی کمی۔ ظاہر ہے اس پر اپوزیشن اعتراض کرتی رہے گی لیکن درحقیقت عمران وژن کی تعبیر ہے۔ عمران خان صاحب ان گنت بار کہہ چکے ہیں کہ ترقی سڑکوں پلوں سے نہیں ہوتی۔ دوسرے لفظوں میں ترقی ترقیاتی کاموں سے نہیں آتی۔ ویسے بھی اس ملک کوترقی کی ضرورت تازہ خوشحالی والے بجٹ کے بعد سے رہی ہی کہاں ہے۔ خوشحالی چمکتی دمکتی سڑکوں پر دوڑنے پھرنے کا نام نہیں بلکہ دھوتی میں پھاگ کھیلنے کا نام ہے اور قوم کے تن پر د ھوتی موجود ہے‘ پھاگ کھیلنے کے کھلے مواقع بھی دستیاب ہیں۔ سو پھاگ کھیلنے اور راگ الاپنے‘ تبدیلی آئی رے‘ خوشحالی لائی رے۔ ٭٭٭٭ آئی ایم ایف سے جو معاملات طے ہوئے ہیں‘ ان کے مطابق بجلی کے نرخوں میں معقول اضافہ اب چند دنوں کی بات ہے۔وزیر خزانہ نے بجٹ پیش کرنے سے پہلے فرمایا تھا‘ ہم بجٹ میں بجلی کے نرخوں میں کوئی اضافہ نہیں کریں گے۔ اچھی بات ہے‘ انہوں نے یہ وعدہ پورا کیا اور بجٹ میں بجلی کا ذکر ہی نہیں ہوا لیکن اس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ جو وزیر خزانہ کو معلوم نہیں کہ بجلی بجٹ میں مہنگی کرنے کا رواج ختم ہو سکا ہے‘ ختم نہ ہوتا تو بڑی مشکل ہوتی‘ حکومت کو اب تک 22 بار بجٹ پیش کرنا پڑتا کیونکہ اڑھائی برسوں میں 22 بار بجلی مہنگی ہو چکی ہے۔ بجلی مہنگی کرنے کا طریقہ نیپرا کا ہے اور آئی ایم ایف سے معاملہ بندی کے بعد 23 ویں بار قیمت میں اضافے کا اعلان بھی نیپرا ہی کرے گا‘ بجٹ کا اور وزیر خزانہ کا ذمہ دوش پوش۔ غنیمت ہے‘ سو فیصد اضافے کا مطالبہ نیک دل وزیر خزانہ نے مسترد کردیا۔