کاروانِ حیات چلتا رہتا ہے۔ انسان قدم قدم پر زندگی کے نئے نئے حوادث سے نبردآزماہو تا ہے۔ ہر مرحلہ پراُسے، کوئی نہ کوئی فیصلہ کرنا پڑتا ہیں۔ انہیں فیصلوں پر انسان کی زندگی کا انحصار ہے۔ چھوٹے سے چھوٹا واقعہ ہو، یا بڑے سے بڑاحادثہ، انسان کے فیصلوں ہی کی وجہ سے رونما ہوتا ہے۔ انسان کیا ہے؟ اشرف المخلوقات ۔ لیکن اس کی عقل نارسااور اس کا فہم محدود ہے۔ وہ ایک خاص دائرہ سے باہر نہیں سوچ سکتا، خواہ جتنا بھی دور اندیش ہو، ایک حد سے آگے نہیں جان سکتا۔ سو فیصلہ صحیح ہے یا غلط، یہ آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے۔۔۔۔ کاروانِ حیات چلتا رہتا ہے۔ 1754 ئ، ایک لیفٹیننٹ ، جس کی عمر 22سال ہے، نے یہ خبر موصول کی ،کہ دشمن فوج کے35 جوان سرحد سے سات میل دوری پر کیمپ لگا چکے ہیں۔ کماندار کے پاس تقریبا 159 ریکروٹس ایک حکم کے فاصلہ پر موجود ہیں۔ اسے فیصلہ کرناتھا ۔اس فیصلے پر نہ صرف اس کی سرحد کی حفاظت کا انحصار تھا، بلکہ کئی جانوں کا بھی۔ وقت کم، تجربہ تھوڑا،پر فیصلہ کی اشد ضرورت ۔ لیفٹیننٹ یہ سوچ چکا تھا کہ مخالف فوج کے کیمپ کی وجہ اس کی فوج پر حملہ آور ہونا ہے۔ سو وہ اور اس کی سپاہ مخالف کیمپ پر حملہ آور ہوئے۔ 13 دشمنوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، اور باقیوںکو حراست میں لے لیا گیا۔ لیفٹیننٹ بے حد خوش ، اپنے فیصلوں پر اندھا اعتماد ہے۔ اسی اندھی مسرت کے ساتھ ، وہ اگلے پڑائو کا ارادہ کرتا ہے۔ آگے اُسے ایسا مقام نظر آتا ہے ، جہاں جنگلی درخت اور جھاڑیاں ہیں۔ اسے یہ جگہ پسند آتی ہے کہ یہاں وہ اور اس کی فوج چھپ سکتی ہے۔ وہ اپنے جوانوں کو وہا ں ڈیرہ ڈالنے کا حکم دیتا ہے۔ ذہن میں یہ خوش فہمی سوار ہے کہ یہ جگہ میری چھوٹی سے فوج کو 500 کی مخالف فوج کوشکست کے لیے مفید تر ہے۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھا، کہ جو جگہ اس کے لیے چھپنے کا سبب بن سکتی ہے ،آیا وہ جگہ دوسری طرف سے ، دشمن فوج کے لیے کارآمد ثابت کیوں نہیں ہو سکتی۔ لیفٹیننٹ کسی کی سننے کو تیار نہیں۔ ساتھی فوجیوں کا مشورہ سننے سے بھی گریزاں، جو اسے اس قدم سے روکنے کا کہے، وہ اسے غدار یا ڈرپوک قرار دے کر اس کو بے عزت کردے۔ دشمن فوج اُس مقام سے 60 گز دور لکڑیوں کے سائے میں چھپ کر خاموشی سے وار کرنے کے لیے تیار کھڑی ہے۔ 7 جو لائی کو جنگ ہوتی ہے۔ 700 کے قریب دشمن فوج لیفٹیننٹ کے 159 جوانوں پر بھاری پڑ جاتی ہے۔ امریکی تاریخ میں شکست خوردہ واقعات میں ایک یہ بھی شامل ہے۔ لیفٹیننٹ کے اِس ایک قدم نے امریکی تاریخ کی 7 سالہ جنگ کا آغاز کیا، جو امریکن ہسٹری میں ’’سیون ایئرز وار‘‘ کے نام سے معروف ہوئی۔ اس فوجی افسر نے ، اپنی شکست سے جو کچھ سیکھا ، اس نے امریکہ کی تاریخ ہی بدل دی۔ اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھئے۔ وقت کا پہیا چلتا ہے۔ امریکہ میں آزادی کا نعرہ لگتا ہے۔ انقلابی جنگ چھڑتی ہے۔ حریت کا علم بلند کرنے والا ، اپنے وطن کو فتح کی نوید سناتا ہے۔ وہ امریکہ کا، متفقہ طور پر، پہلا صدرمنتخب ہوتا ہے۔ Bill Of Rights،American Constitution اور نجانے ایسی کون کون سے کامیاب دستاویزات سے، امریکی ریاست کوآشنا کرواتا ہے۔ دنیا اسے امریکہ کی تاریخ کا کامیاب ترین صدر قرار دیتی ہے۔تصویر کے یہ دونوں رخ ایک ہی شخص سے وابستہ ہیں۔ یہ شخصیت جارج واشنگٹن ہے۔ وہ جسے لوگوں کو ساتھ لیکر چلنے کی عادت نہیں تھی۔ا س نے امریکہ کو متفقہ چیزیں بنا کر دیں۔ وہ جو حقیقت کو جھٹلا کر خوش فہمیوں میں جیتا تھا، اس نے اپنی زندگی کا اصول یہ بنا لیا تھا کہ اپنی خواہشات پر مشاورت کو ترجیح دو۔ وہ جو اپنی انا کو سب سے آگے رکھتا تھا، پھر عاجزی کو اپنا کر فیصلہ کرنے لگا۔ حتی کہ جب اس سے منصبِ صدارت پر فرائض سر انجام دینے کا تذکرہ چھیڑا گیا، تو بجائے بخوشی قبول کرنے کے، وہ نفی میں سر ہلانے لگا۔ کہتا ہے ، میں ان فرائض کو سر انجام دینے کے قابل نہیں۔ وی ایس راماچندران کا قول یاد آیا۔ کہتا ہے کہ ایک بندر کی پہنچ صرف کیلے تک ہو سکتی ہے، البتہ انسان ستاروں تک اپنی پہنچ رکھتا ہے۔ بندر جنگلوں میں زندہ رہتا،لڑتا ، افزائش کرتا، اور مر جاتا ہے۔۔۔۔گویا اُس کی کہانی وہیں ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن انسان لکھتا، تحقیق کرتااور تلاش کرتا ہے۔ ہم۔۔۔۔ ایٹموں کو چیرتے، راکٹ لانچ کرتے ہیں۔ بلندی کی جستجو کرتے۔۔۔۔ اور پائی (pi) کے ہندسوں کی گہرائیوںمیں ڈوب جاتے ہیں۔ شاید اس سب سے زیادہ قابلِ ذکر یہ امر ہے، کہ ہم اپنے اندر، اپنے من میں دیکھنے ، اپنے دماغ کی گتھیاں سلجھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔۔۔۔یقینا، یہی سب بھیدوں کا بھید ہے۔ واشنگٹن Self-Awareness Transformation کی ایک بہت بڑی مثال ہے۔ تاریخ دان ایبٹ کے الفاظ درست ہیں کہ جارج واشنگٹن کو پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی شخص اپنے آپ کو ـ ''construct''یعنی تعمیر کرہا ہے۔ خودآگاہی ۔۔۔۔کے عمل کو تکمیل کی راہ دیکھانے کے لیے شعور بہت ضروری ہے ۔ یہ شعور آپ کو مشاہدات اور تجربات سے حاصل ہوتاہے ۔ انہیں عوامل نے جارج واشنگٹن کی شخصیت کو یوں تخلیق کیا کہ ایک وقت نے اسے، شکست سے دوچار لیفٹیننٹ سے اٹھا کر۔۔۔۔ بلند و بانگ منصب پر فائز پایا۔ کاروانِ حیات چلتا رہتا ہے۔ انسان خطا کا پتلا ہے۔ وہ فیصلے کرتا ہے ۔ صحیح ہو جائے تو فتح اس کی۔ غلط ہوجائے ، تو سبق اور عبرت اس کی ہوتی ہے۔ یہ اسباق بڑے آشیانے کے لیے تنکوں کا کام دیتے ہیں، جنہیں جوڑتا جوڑتا، انسان کچھ بنا کر دیکھا اور کسی دوسرے کو سیکھا پاتا ہے۔ میاں محمدبخش صاحبؒ ہمیشہ کی طرح اپنے علم سے طالب علموںکو بہرہ مند کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جتن جتن ہر کوئی کھیڈے، ہارن کھیڈ فقیرا جتن دا مُل کوڈی پیندا، ہارن دا مُل ہیرا