بلاول بھٹو اور مریم نواز شریف کا دکھ سانجھا ہے۔ دونوں کے والد گرامی کشتۂ نیب ہیں ایک نیب کے قائم کردہ مقدمات میں احتساب عدالت سے سزا پا کر داخل زنداں ہیں اور ’’دوسرے‘‘ جو ہیں تیار بیٹھے ہیں۔ مریم نواز شریف کے والد تو اپنے دکھوں کا ذمہ دار خلائی مخلوق کو سمجھتے ہیں مگر بلاول کے والد سیانے ہیں وہ نام عمران خان کا لیتے ہیں اور بلاول بھٹو ذمہ داری نیب پر ڈالتے ہیں‘ جس کو اپنے دور حکمرانی میں‘ ان کے والد ٹھیک کر سکے نہ انکل نواز شریف ‘جن کی دو روز قبل برخوردار نے عیادت کی۔ عیادت کے بعد فرمایا یہ کہ ہم نیب کا کالا قانون تبدیل نہ کرسکے جو دونوں جماعتوں کی ناکامی ہے۔ اقبالؒ نے فقیہان حرم کو بے توفیق بتایا تھا جو ؎ خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق مگر پاکستان میں یہ اعزاز سیاستدانوں کو حاصل ہے ۔دوران حکمرانی کرپشن‘ اقربا پروری‘ دوست نوازی اور قانون شکنی سے باز نہیں آتے‘ ریاستی وسائل لوٹتے‘ عوامی فنڈ خرد برد کرتے‘ خوشامدیوں کو نوازتے اور قیمتی قومی وسائل بیرون ملک لے جاتے ہیں پکڑے جائیں تو اپنے کرتوتوں پر شرمندہ ہونے کے بجائے ان قوانین‘ ریاستی اداروں اور عدالتوں کو برا بھلاکہتے ہیں جن کے باعث انہیں زندانوں کا منہ دیکھنا پڑے۔ کبھی نہیں سوچا کہ قانون کالا یا سفید نہیں ہوتا‘ انسان کے کرتوت اسے قانون اور قدرت کی گرفت میں لاتے ہیں ‘قانون بدلنے کے بجائے خود کو بدلیں۔ بلاول بھٹو نوعمر ہیں‘ پڑھے لکھے اور خوش شکل و خوش لباس۔ سیاست میں ان کی آمد خاندانی پس منظر کی وجہ سے ہے مگر بہت سے لوگوں کی رائے تھی کہ یہ پیپلز پارٹی کے تن مردہ میں جان ڈال سکتے ہیں یہ کبھی اقتدار میں رہے ‘نہ والد کی لوٹ مار میں حصہ دار‘مگر وہ جو کہا جاتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور اقتدار میں یا حصول اقتدار کے لئے لوگ خون کے رشتے بھول جاتے ہیں آصف علی زرداری اور ان کے ساتھیوں نے اس نوجوان کو بھی کرپشن کے دفاع پر لگا کر وہ کیا جو عام طور پر دشمن اپنے دیرینہ حریفوں سے کرتے ہیں۔ ہمارے جاگیردار‘ وڈیرے اور حکمران سنگدلی کی شہرت تو رکھتے ہیں مگر سیانے جاگیردار اپنی اولاد کو دشمنیوں کی آگ میں جھونکتے ہیں نہ انہیں اپنے طمع اور لالچ کا چارہ بناتے ہیں غریبوں کمزوروں اور لاوارث عوام کی حق تلفی اور ان کے ذہنی‘ سماجی اور معاشی استحصال کی تربیت بچپن سے دیتے ہیں۔ ہم نے بدنام زمانہ مجرموں کو دیکھا ہے کہ وہ اپنی اولاد کواپنے پیشے اور کاروبار سے دور رکھتے اور انہیں نیکی کی تلقین کرتے ہیں۔ سیاسی وڈیرے مگر اس کلیے سے مستثنیٰ ہیں اور وہ اپنی اولاد ہی نہیں گھر کی خواتین کو بھی بے ایمانی کے اس کاروبار کا حصہ بنا دیتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ حوالات اور جیل ہے۔ کل تک مسلم لیگ ن سندھ میں نیب درست کام کر رہی تھی۔ ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری پر مسلم لیگ کے لیڈروں نے لڈیاں ڈالیں اور اسے قانون کی حکمرانی کا نام دیا۔ پانامہ سکینڈل سامنے آیا تو عمران خان سے زیادہ بلاول بھٹو نے میاں نواز شریف کے بارے میں سخت زبان استعمال کی‘ گرفتاری کی نوید سنائی اور انہیں مودی کا یار قرار دیا‘ مگر جونہی جعلی اکائونٹس سکینڈل طشت ازبام ہوا‘ فالودے اور رکشے والے اربوں روپے کے مالک نکلے اور سراج درانی گرفتارہوئے‘ میاں نواز شریف کے لئے بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری کے سینے میں محبت و ہمدردی کا دودھ اتر آیا مریم نواز کو بلاول بھٹو کی عمدہ سوچ پر رشک آنے لگا اور بلاول بھٹو کو میاں صاحب کے نظریاتی ہونے کا یقین ہوا۔ جنرل ضیاء الحق نے ایک موقع پر کہا تھا کہ سیاستدان ایک کلب کے ممبر ہیں یہ ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھتے اور جرائم پر پردہ ڈالتے ہیں‘ ماضی میں مشترکہ سیاسی مفادات کے لئے سیاستدان اکٹھے ہوئے اور مقصد پورا ہوتے ہی مخالف بن گئے‘ ایم آر ڈی‘ اے آر ڈی‘ اے پی ڈی ایم ‘ پی ڈی ایف اور کئی سیاسی اتحاد بنے‘ بگڑے اور تاریخ کا حصہ بن گئے۔ اتحاد ٹوٹے تو کارکنوں کو علم ہوا کہ ان سے کتنا بڑا دھوکہ ہو گیا۔ تازہ پیش رفت مگر سیاسی مقصد کے لئے نہیں بلکہ کرپشن بچائو ایجنڈے کے تحت ہے ؎ اپنے اپنے بے وفائوں نے ہمیں یکجا کیا ورنہ میں تیرا نہیں تھا اورتو میرا نہ تھا ’’بے وفائوں‘‘ کی جگہ ’’لٹیرے‘ پڑھ لیں۔ بلاول بھٹو احتجاجی تحریک کی دھمکی بھی دے رہے ہیں‘ جس کو فی الحال حکومت سنجیدہ لے رہی ہے نہ قوم۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کا حال پتلا ہے مسلم لیگ اپنی عوامی طاقت کا مظاہرہ میاں نواز شریف کی وطن واپسی اور گرفتاری کے موقع پر کر چکی ہے سپریم کورٹ سے نااہلی اور وزارت عظمیٰ سے معزولی کے بعد میاں نواز شریف نے اپنی صاحبزادی مریم نواز کے ساتھ مل کر جی ٹی روڈ پر مارچ کیا۔ مسلم لیگ کی وفاقی اور صوبائی حکومت کی بھر پور مالی امداد اور سرکاری اہلکاروں کی جبری حاضری کے باوجود مگر بات بن نہیں پائی۔ اس وقت یہ تاثر عام تھا کہ مسلم لیگ ایک بار پھر اقتدار میں آ سکتی ہے‘ مگر اب بڑے میاں جیل میں ہیں‘ چھوٹے میاں ضمانت پر اور مریم نواز مہر بلب‘ احتجاجی تحریک کون چلائیگا؟ رہی پیپلز پارٹی ؟ گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا؟ عوام لٹیروں سے دولت کی واپسی کی خواہش رکھتے ہیں اور عمران خان کے علاوہ نیب پر یہ تنقید ہو رہی ہے کہ اس نے اب تک خائن افراد کا پیٹ پھاڑ کر قومی دولت کیوں نہیں نکلوائی؟۔ ایسے میں سڑکوں پر کون نکلے گا؟ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا یکجا ہونا حکومت کے لئے مفید ہے کہ عمران خان ’’مک مکا‘‘ کا جو الزام میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری پر لگاتے رہے اسے تقویت ملے گی اور قوم کی یہ رائے مزیدپختہ ہو گی کہ دوخاندان حکومت کو عوامی فلاح و بہبود کے کام نہیں کرنے دے رہے ‘۔ الٹا احتساب کے عمل میں رکاوٹ بن رہے ہیں ان ملاقاتوں‘ بیانات اور دھمکیوں کا مقصد‘ حکومت‘ عدالت اور فوج کو دبائو میں لانا ہے مگر اندرونی اور بیرونی حالات اپوزیشن کے حق میں سازگار ہیں نہ قوم کسی احتجاجی تحریک کے موڈ میں۔ احتساب پسند اداروں کو البتہ انگیخت مل رہی ہے کہ وہ مزید تاخیر کے بغیر مطلوب افراد کے خلاف شکنجہ مزید سخت کریں تاکہ یہ فساد نہ پھیلا سکیں۔ انصاف اور احتساب میں تاخیر بھی بے انصافی اور بددیانتی کے مترادف ہے جس کا احساس متعلقہ اداروں کو ہونا چاہیے۔ کچھ لوگ یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ 2000ء میں پیپلز پارٹی نے شریف خاندان کو کندھا‘ فراہم کیا اور وہ جنرل پرویز مشرف سے ڈیل کر کے جدہ چلا گیا اب بھی کہیں ایسا نہ ہو‘ دونوں ایک دوسرے کو کسی ڈیل کا ایندھن بنا کر رعائت حاصل کر سکتے ہیں زرداری کے امکانات زیادہ ہیں کہ فی الحال وہ باہر ہیں اور سندھ کارڈ کے حامل۔ لیکن عمران خان اور فوج کے مابین مضبوط ربط و ضبط اور جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں آزاد‘ خود مختار‘ فعال عدلیہ کی موجودگی میں یہ اندیشہ بے جا ہی لگتا ہے۔ بلاول بھٹو کے سیاسی مستقبل سے کھیلنے کی شعوری یا لاشعوری کوشش۔ کرپشن کا دفاع وہ نوجوان کر رہا ہے جس کا دامن فی الحال آلودہ نہیں۔ کوئی سوچے تو؟