ہمارا معاملہ ماروں گھٹناپھوٹے آنکھ والا ہے۔ ہمارا مسئلہ آئین سازی نہیں آئین شکنی ہے۔ مسائل و مصائب کے ہجوم سے نبرد آزما ہونے کے لئے کسی بقراط نے صدارتی نظام کا شوشہ چھوڑا ہے اور اٹھارویں دستوری ترمیم کو نشانہ تنقید بنایا ہے۔ ہماری تاریخ کوئی اتنی پرانی نہیں کہ اسے سمجھنا دشوار ہو۔ ہم اپنی کوہ ہمالیہ جیسی غلطیوں کو بار بار دہرانے پر کیوں مصر رہتے ہیں؟شاعر نے کہا تھا کہ: کروں میں پھر سے کہانی کی ابتدا کہ نہیں جناب ایئر مارشل اصغر خان نے بڑی درد مندی سے ایک کتاب لکھی تھی کہ ’’ہم تاریخ سے سبق کیوں حاصل نہیں کرتے؟‘‘سبب اس کا یہ ہے کہ ہم اپنی تاریخ بلکہ کسی تاریخ کا بھی مطالعہ نہیں کرتے۔ ہمارے ارباب حل و عقد مطالعے سے شعور و ادراک کی پہلی منزل تک رسائی بھی نہیں پاتے۔ ان کی حد سے بڑھی ہوئی انا انہیں فریب ذات میں مبتلا کر دیتی ہے اور وہ سوچتے ہیں کہ پچھلے حاکم سے من مانی کرتے ہوئے جو غلطیاں سرزد ہوئی تھیں ہم وہ غلطیاں نہیں کریں گے مگر اپنی انا پرستی میں وہ پہلے حکمرانوں سے بڑھ کر غلطیاں کرتے ہیں۔ ہم بڑی محنت اور ریاضت سے قومی تعمیر و ترقی کی عمارت اٹھاتے ہیں پھر کوئی طالع آزما آتا ہے اور ایک ہی دستک میں سارے در و دیوار ڈھا جاتا ہے۔ لہٰذا ہمیں پھر سے ابتدا کرنا پڑتی ہے۔1954ء میں آئینی مسودہ تیار تھا۔ اسے دستور ساز اسمبلی سے بس منظورکروانا باقی تھا۔ اس وقت کے گورنر جنرل ملک غلام محمد نے جو بنیادی طور پر بیورو کریٹ تھے ،محلاتی سازشوں سے کام لے کر دستور ساز اسمبلی ہی توڑ دی اڑنے بھی نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے پھر اللہ اللہ کر کے 1956ء کا دستور منظور ہوااس دستور پر مشرقی و مغربی پاکستان دونوں متفق تھے۔ دستوری صدر سکندر مرزا نے کہ جو فوجی اور بیورو کریسی دونوں کا پس منظر رکھتے تھے، یکے بعد دیگرے کئی وفاقی و صوبائی حکومتیں فارغ کیں اور پھر اکتوبر 1958ء میں اس وقت کے آرمی چیف ایوب خان کے ساتھ مل کر مارشل لاء لگا دیا۔ پھر بھلا ایک نیام میں دو تلواریں کیسے سما سکتی تھیں لہٰذا ایوب خان نے نظریں پھیرنے میں ذرا دیر نہ لگائی اور یوں بیچارے صدر سکندر مرزابڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے، کی عبرتناک تصویر بن کر لندن پہنچے اور وہاں کوئی ریسٹورنٹ چلاتے رہے۔ ایوب خان نے ایک بار پھر سے کہانی کی ابتدا کی اور جمہوریت کی بساط لپیٹ کر رکھ دی۔ انہوں نے براہ راست حق رائے دہی کی جگہ بالواسطہ ووٹنگ کا نظام ایجاد کر دیا۔1956ء کے دستور کو ملیا میٹ کر کے فرد واحد کا 1962ء کا ایسا دستور دیا کہ جس میں اول و آخر اختیارات کا سرچشمہ ایوب خان کی ذات تھی۔ایوب خان کو ایک زبردست عوامی تحریک کے ذریعے اقتدار سے الگ ہونے پر مجبور کر دیا گیا تو وہ جاتے جاتے جنرل یحییٰ خان کے سپرد عنان اقتدار کر گئے۔ یحییٰ خان تو ہماری تاریخ کے بدترین ڈکٹیٹر ثابت ہوئے۔ انہوں نے جب دیکھا کہ 1971ء کی اسمبلی میں سب سے بڑی اکثریتی پارٹی عوامی لیگ انہیں اقتدار میں کوئی حصہ نہیں دے گی تو انہوں نے مشرقی پاکستان میں اپنے بہت سے کمانڈروں کی رائے کے برعکس وہاں ملٹری ایکشن کر کے ملک کو دولخت کر دیا اور قوم کو سقوط ڈھاکہ کا صدمہ دیا جسے وہ کبھی بھی بھلا نہ سکے گی۔شکستہ پا اور شکستہ دل قوم نے ہمت نہ ہاری اور وہ 1973ء کا متفقہ و متحدہ آئین بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ اس آئین کو پہلے جنرل ضیاء الحق اور پھر جنرل پرویز مشرف نے معطل کیا اور اس کے اندر کئی تبدیلیاں کیں۔ پہلے جنرل ضیاء الحق نے آٹھویں ترمیم کے ذریعے صدارتی اختیارات میں اضافہ کروا کے اور صدر کو اسمبلیاں توڑنے اور حکومتیں برخواست کرنے کا حق دلوایا پھر یہی کام جنرل پرویز مشرف نے 17ویں ترمیم کے ذریعے انجام دیا۔ ہمارا اصل یہ ہے کہ حکمران فوجی ہوں وہ خود کو جوابدہی سے ماورا سمجھتے ہیں۔ میاں نواز شریف یا بے نظیر بھٹو کا زمانہ اقتدار میں ان کے کسی جماعتی رکن کو سرتابی کی مجال نہیں ہوتی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو جمہوریت کا درس دینے والی امریکی و برطانوی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل تھے۔ ان کے اندر کا انا پرست جاگیردار ان کی ساری روشن خیالی اور جمہوریت پسندی پر غالب آ گیا۔ اپوزیشن کو برداشت نہ کرنے‘ من مانی کرنے اور انتخابی دھاندلی کے نتیجے میں بالآخر ملک کو صرف چھ سات برس کے بعد ایک بار پھر مارش لاء کے چنگل میں جانا پڑا۔ جنرل پرویز مشرف کی 17ویں آئینی ترمیم کے خاتمے کے لئے اپریل 2010ء میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) نے 18ویں ترمیم دو تہائی اکثریت سے قومی اسمبلی اور سینٹ سے منظور کروا کے آئین کا حصہ بنوا دیا۔ اس ترمیم کا اہم ترین نکتہ تو صدر سے اسمبلی توڑنے اور حکومتیں فارغ کرنے کا اختیار واپس لینا تھا۔ اس کے علاوہ اس ترمیم کے ذریعے ایک منتخب رکن اسمبلی تیسری بار وزیر اعظم بن سکتا ہے۔اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبائی خود مختاری میں بہت اضافہ ہوا۔17وفاقی وزارتیں صوبوں کے حوالے کر دی گئیں جن میں وزارت تعلیم اور وزارت صحت بھی شامل تھی اس ترمیم کا یہ حصہ مثبت نہیں انتہائی منفی تھا۔ اگر آپ ایک سمت چاہتے ہیں‘ ایک منزل چاہتے ہیں‘ ایک نصب العین چاہتے ہیں اور ایک ہی قوم چاہتے ہیں تو پھر ساری قوم کے لئے ایک جیسی ہی یکساں تعلیم ہونی چاہیے۔ اسی طرح صوبوں کے سپرد وزارت صحت کر کے سو طرح کی پیچیدگیاں پیدا کر دی گئی ہیں۔ ہماری ضرورت صرف اتنی ہے کہ یہ دونوں وزارتیں کسی نئی آئینی ترمیم کے ذریعے وفاق کو دے دی جائیں یا کسی قانون کے ذریعے ان وزارتوں کی پالیسی سازی وفاقی حکومت کے سپرد کر دی جائے۔ ہمارا مسئلہ صدارتی نظام نہیں ہمارا مسئلہ گڈ گورننس ہے۔ ہمارا مسئلہ اٹھارہویں ترمیم کا خاتمہ نہیں ہمارا مسئلہ کرپشن کا خاتمہ ہے۔ ہمارا مسئلہ گورنر راج نہیں ہمارا مسئلہ زیادہ سے زیادہ صوبائی ہم آہنگی ہے۔ ہمارا مسئلہ ون یونٹ نہیں بلکہ ہمارا مسئلہ انتظامی بنیادوں پر مزید کئی صوبوں کی تشکیل ہے۔ ہمارا مسئلہ اپوزیشن جماعتوں کو رگیدنا نہیں بلکہ ہمارا مسئلہ ساری قوم کو ساتھ ملا کر تباہ حال معیشت کو سنوارنا اور آسمان سے باتیں کرتی ہوئی مہنگائی کو زمین پر واپس لانا ہے تاکہ عوام کو بھی دو وقت کی روٹی نصیب ہو سکے۔ ہمارا مسئلہ آئین کو موم کی ناک بنانا نہیں بلکہ آئین کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے۔ آئین کو بدلنے کی نہیں اپنے آپ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔