ارشاد تازہ یہ ہے کہ اب سگریٹ پر ’’ گناہ ٹیکس‘‘ عائد کیا جائے گا۔ فکر و ابلاغ کا ایسا قحط دھرتی پر پہلے کب اترا تھا؟یوں محسوس ہوتا ہے کابینہ میں اس بات پر اتفاق رائے ہو چکا کہ جس روز کوئی اور بحران سر نہ اٹھا سکے اس روز وزرائے کرام خود ایک دلدل عمران خان کی دہلیز پر چھوڑ آیا کریں گے۔وسیم اکرم تو خواب ہوئے اس ٹیم میں تو کوئی منصور اختر بھی نہیں۔ کسی ففٹی سنچری کے تکلف میں پڑے بغیر 41 ون ڈے کھیل کر صرف 593 رنز بنانے والاوہ شریف آدمی بھی آئوٹ ہو کر سر جھکائے پویلین لوٹ جاتا تھا ، کبھی اس نے اپنا بلا تو اپنے کپتان کے سرمیں نہیں مارا تھا۔ ٹیکس عائد کرنا ریاست کا حق ہے۔ اس کے محل اور حجم پر تنقید کی جا سکتی ہے لیکن یہ حق موجود ہے۔حکومت کا خیال ہے کہ سگریٹ پر مزید ٹیکس عائد کرنے چاہییں تو وہ ایسا کر سکتی ہے۔ لیکن جب ا س مجوزہ ٹیکس کو ’’ گناہ ٹیکس‘ ‘کا نام دیا جاتا ہے تو پھر یہ سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ حکومت آئین ، قانون اور ریاست کی مبادیات سے کچھ آگہی بھی رکھتی ہے یا اس کے میمنہ میسرہ پر چندطفلانِ خود معاملہ ہیں جو داد شجاعت دے رہے ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ ریاست کی قوت نافذہ کا تعلق جرم سے ہے یا گناہ سے؟بعض گناہ جرم ہوتے ہیں لیکن ہر گناہ جرم نہیں ہوتا۔ کچھ گناہ ایسے ہوتے ہیں جو فرد اور اس کے رب کا معاملہ ہوتا ہے اور اس میں ریاست تعزیر نافذ نہیں کر تی۔ مثال کے طور پر غیبت کرنا گناہ ہے لیکن کیا علاقے کا ایس ایچ او تفتیش کرتا پھرے گا کہ آج اس کے علاقے میں کتنے لوگوں نے کتنی غیبت کی؟ریاست جب قانون نافذ کرتی ہے تو اس کا مخاطب گناہ نہیں ، جرم ہوتا ہے۔چنانچہ جو گناہ جرم کے دائرے میں آتے ہیں ریاست ان پربھی گرفت کرتی ہے۔لیکن یہ گرفت فی نفسہ گناہ پر نہیں جرم پر ہوتی ہے۔اب اگر حکومت ’’ گناہ ٹیکس‘‘ کا نفاذ کرتی ہے تو یہ گویا اس بات کا اعلان ہے کہ ریاست نے اب جرم سے آگے بڑھ کر گناہ پر بھی گرفت کرنا شروع کر دی ہے۔ریاست کا دائرہ کار جرم تک محدود ہوتا ہے اگر یہ دائرہ کار گناہ تک پھیل گیاتوکیا حکومت کو احساس ہے کہ اس سے جورسپروڈنس اورقانون کی دنیا میں کتنا بڑا سونامی آ سکتا ہے؟ یہ سلسلہ اگر چل نکلا تو ملک میں اس خوفناک فاشزم اور بے رحم تھیوکریسی کی بنیاد ڈال سکتا ہے جو آگے چل کر سماج کی چولیں ہی ہلا کر رکھ دے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر ریاست نے گناہ کو بھی اپنا مخاطب بناتے ہوئے اس میں سے معاشی امکانات تلاش کرنا شروع کر دیے ہیں تو یہ کام صرف سگریٹ نوشی کے گناہ تک کیوں محدود رہے گا یا اگلے مرحلے میں نماز نہ پڑھنے والوں پر بھی ٹیکس عائد ہو گا؟ سگریٹ پینے والے تو کم ہوں گے اور ٹیکس کی مد میں معمولی سی رقم جمع ہو پائے گی۔ کیوں نہ بے نمازیوں پر بھی ٹیکس عائد کر دیا جائے اور تحریک انصاف کے گلی محلے کے صدور اور سیکرٹری جنرل صاحبان ہر مسجد کے باہر رجسٹر لے کر بیٹھ جائیں اور شام کو نادرا کی معاونت سے ایک خود کار نظام کے تحت ان لوگوں کی فہرست جاری کر دی جائے جو اس روز مسجد نہیں گئے۔ ہر روز کروڑوں روپے کا ٹیکس اکٹھا ہو جائے اور اسدعمر صاحب کی معاشی مہارت کی بھی دھاک بیٹھ جائے؟بعض گمان بھی گناہ ہوتے ہیں۔اب خود تحریک انصاف کا نواز شریف سمیت اپنے ہر سیاسی مخالف کے بارے میں جو گمان ہے کیا اس پر بھی گناہ ٹیکس لگایا جائے گا؟گناہوں کی اگرایک فہرست مرتب کر لی جائے اور ان درجہ بندی کر کے ٹیکس لگایا جائے تو پاکستان کے ذمے قرض تو شاید اراکین پارلیمنٹ کے جرمانوں ہی سے ادا ہو جائے۔ تیسراسوال یہ ہے کہ کیا ریاست ٹیکس وصول کرنے کے بعد گناہ کرتے رہنے کا اجازت نامہ عنایت فرما سکتی ہے؟ایک چیز اگر گناہ ہے تو اسلامی ریاست کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ محض ٹیکس لے کر اس گناہ کو جاری رکھنے کی اجازت دے دے؟ دستور پاکستان کے آرٹیکل 31 کے تحت حکومت نہ صرف اس بات کی پابند ہے کہ وہ ایسے اقدامات کرے جن کے ذریعے لوگ انفرادی اور اجتماعی زندگی قرآن و سنت کے بنیادی اصولوں کے مطابق گزار سکیںبلکہ وہ ایسی سہولیات فراہم کرنے کی بھی پابند ہے جن کے ذریعے لوگ قرآن و سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم بھی سمجھ سکیں۔کیا آئین پاکستان اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ حکومت لوگوں سے کہے کہ ٹیکس دینے کے بعد آپ کو گناہ کرتے رہنے کی آزادی ہے؟کیا ٹیکس کی وصولی کے بعد گناہ ، گناہ نہیں رہتا اور حکومت کی وہ ذمہ داریاں ساقط ہو جاتی ہیں جو آرٹیکل 31 نے اس پر عائد کر رکھی ہیں؟ چو تھے سوال کا تعلق معاشی نظام سے ہے۔کیا دنیا کے معاشی نظاموں میں کہیں کوئی ایک مثال بھی ایسی موجود ہے کہ جرم یا گناہ پر ٹیکس عائد کیا جائے یا یہ نادر روزگار معاشی مہارت صرف ہمارے حصے میں آئی ہے؟آپ جائز طریقے سے کماتے ہیں تو ٹیکس ادا کرتے ہیں۔جرم کرتے ہیں تو جرمانہ ادا کرتے ہیں۔لیکن اس جرمانے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اب آپ کو جرم کرتے رہنے کی اجازت مل گئی۔ نئے پاکستان میں کیا نئی معاشی جورسپروڈنس تخلیق کی جا رہی ہے؟ پانچواں سوال سماجیات سے متعلق ہے۔ اگر یہ ٹیکس مفاد عامہ میں لگایا گیا ہے کہ چونکہ سگریٹ نوشی کے گناہ سے کینسر اور دیگر بیماریاں پھیلتی ہیںتو ٹیکس لگا کر اس کی حوصلہ شکنی کی جائے تو سوال یہ ہے کہ دیگر ایسے ہی گناہوں کے بارے میں سکوت کیوں؟ گنڈا پوری شہد سے لے کر جانے اور کون کون سا گناہ یہاں رائج ہے۔یہ تمام گناہ آخر کس حکمت کے تحت گناہ ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں حالانکہ سگریٹ کے مقابلے میں ان وغیرہ وغیرہ قسم کے مشروبات و دیگر پر ٹیکس کی مد میں کئی گنا زیادہ رقم کی وصولی کا امکان موجود ہے؟ معلوم نہیں یہ نا تجربہ کاری کا آزار ہے یا افتاد طبع کے مسائل ہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ عمران خان کی ٹیم عمران خان کے لیے آسانیاں کم اور مسائل زیادہ پیدا کر رہی ہے۔عمران خان کو شاعری سے شغف ہوتا تو اپنے وزراء کی قادرالکلامیاں دیکھ کر بے خود دہلوی کو ضرور یاد کرتے: پڑھے جائو بے خود غزل پر غزل وہ بُت بن گئے ہیں، سنے جائیں گے