قانون کی بالا دستی کی راہ میں مافیا حائل ہے، جب بھی اس پر ہاتھ ڈالا جائے این آر او کا تقاضا شروع کردیتا ہے اور یہ کہ حکومت ایسا ہر گز نہیں کرے گی۔ ایسا ہی کہا ہے عمران خان نے ڈیرہ اسماعیل خان میں۔ اسے ایک خبر سمجھا جائے جو وزیر اعظم نے عوام کو بنفس نفیس دی ہے یا پھر ایسی حقیقت جو انہیں اپنے پچھلے تین سال اقتدارکی مسند پر بیٹھنے کے بعد پتہ چلی ہے؟جہاں تک عوام کی بات ہے وہ اس مافیا کے بارے میں بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں جوانکی متوازن خوراک، صاف پانی، معیاری تعلیم اور انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ تلوار کی نوک پر ان سے ٹکس لیا جا سکتا ہے لیکن بدلے میں بھوک،بیماری اور ظلم کی سوغات ملتی ہے۔ اس مافیا سے نجات کے لئے ہی تو انہوں نے تبدیلی کے نعرے کو ووٹ دیا ہے۔ عام انتخابات میں عوام نے بلاشبہ اپنا کام کردیا۔ باقی جو کرنا تھا وہ عمران خان نے کرنا تھا۔ انکے پاس مرکز کے علاوہ تینوں صوبوں مں حکومت تھی۔ ادارے عام طور پر انکے تابعدار تھے۔ لیکن ہوا کیا؟ نواز شریف قدموں سے چلتے لندن چلے گئے۔ کیو ں اور کیسے ؟پورے دس سال اقتدار کے مزے لینے والی اور احتساب کے عمل کو منجمد کرنے والی سیاسی پارٹیوں کے اہم کردارکرپشن کیسز سے یکے بعد دیگرے بری ہوتے جارہے ہیں۔ عمران خان کے اپنے دور اقتدار میں چینی، آٹے اور تیل کا بحران پید ا ہوا۔ کیا نہیں ہوا؟ کیا انکی حکومت نے مافیا کے سامنے سرنہیںجھکایا ؟ کرونا وائرس والا معاملہ واقعی سنجیدہ ہے لیکن اس وبا کے دوران آنے والے اشیا ئے ضروریہ کی کمیابی اور ان کے نتیجے میں آنے والی کمر توڑ مہنگائی کی ذمہ داری خود حکومت پر آتی ہے۔ کسی کو سزا ملی؟ اگر حکومت نہیں تو کسی وزیر تک نے ذمہ داری قبول کی، استعفٰی دیا؟ یوں جو این آر او عوام نہیں چاہتی تھی وہ تو عمران خان دے چکے ہیں۔ اگر وہ کہتے ہیںکہ انہوں نے این آر او نہیں دینا تو یہ خود فریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔کچھ تجزیہ نگار حکومت کو نا تجربہ کاری کا طعنہ دیتے ہیں۔ یہ بات صرف فردِ واحد ، یعنی عمران خان تک ہیمحدود نہیں ہے۔ انکی کابینہ کے دیگر ارکان کے بارے میں ایسا کہنا فکری بد دیانتی کے زمرے میں آئے گا۔ تبدیلی کا ایک تقاضا یہ بھی تھا کہ ٹیکس کا دائرہ کار بڑھتا ، عام لوگوں پر ٹیکسں بڑھتا اور غریب اور متوسط طبقے کو رعایت ملتی۔ یہ بھی نہیں ہوسکا۔ جن لوگوں میں سکت نہیں تھی خزانے کا بوجھ انہی کے سرپر رکھا ہوا ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ امیر طبقے کو اپنا کالا دھن سفید کرنے کے لئے ایمنسٹی سکیم دے دی گئی۔ تعلیمی ادارے ، مارکیٹ ، بازار، ہوٹل اور ٹرانسپورٹ بند کردیے جاتے ہیں لیکن کرونا وائرس نہ ہی سیاسی جلسے جلوسوں اور نہ ہی پارلیمانی انتخابات کی راہ میں حائل ہوپا تا ہے۔ مقامی حکومتیں عالمی ترقیاتی اہداف کے حصول کا ہی نہیں بلکہ قدرتی آفات اور شدت پسندی سے نمٹنے کا بھی موثر ذریعہ ہیں۔ آئین کی روح کے تقاضوں کے مطابق ان پر قانون سازی اور انکے انتخابات کرانے میں پنجاب، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان بھی اتنے ہیں لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں جتنا کہ سندھ۔ اختیارات اور وسائل کی نچلی سطح پر منتقلی سے متعلق آئین کی صریحاً خلاف وزری ہورہی ہے، نہ عدالتیں گرفت کر رہی ہیں اور نہ حکمران پارٹیوں کو ندامت۔ پائدار ترقی اور عوام کو انکی دہلیز تک سہولیات زندگی پہنچانے میں رکاوٹ کون ڈال رہا ہے؟ خود فریبی کی ایک اور بڑی مثال حکومت کی طرف سے ملک کو ریاست مدینہ بنانے کے نام پر ان مذہبی گروہوں کا بیانیہ آگے بڑھانے میں بھی نظر آتی ہے جنہوں نے پاکستان بننے کی مخالفت کی تھی لیکن تقسیم کے بعد اشرافیہ کی اشیر باد سے اس ملک کی نظریاتی اساس کے خالق بن بیٹھے اور بانی پاکستان کا آئین ساز اسمبلی سے خطاب پس پشت ڈال دیا گیا جسے آئینِ پاکستان کا دیباچہ ہونا چاہیے تھا۔ اس خود فریبی کی جھلک یکساں تعلیمی نصاب اور خارجہ پالیسی میں واضح طور پر نظر آتی ہے۔ اگر یکساں قومی نصاب موجودہ حالت میں نافذ کردیا گیا تو ملک میں قومی یکجہتی کی بنیادی مزید کمزور ہونگی۔ خارجہ پالیسی پر قومی بیانیہ تشکیل نہ دیا گیا اور اسے عملی شکل نہ دی گئی تو ہم تزویراتی گہرائی کی الجھنوں سے نہیں نکل پائیں گے اور قوم ڈالر کی روز بروز اڑان کے راز کو نہیں سمجھ پائے گی۔ یہ گتھی بھی نہیں سلجھ پائیگی کہ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود گند م کیوں درآمد کی جارہی ہے اور بھر پور فصل کے باوجود آٹا مہنگا کیوں ہے۔ یہ عقدہ بھی حل نہیں ہو پائیگا کہ اربوں روپے کی لاگت سے بننے والے ڈیم اور دنیا کا بڑا نہری نظام ملک کو دالوں اور روغنی گھی میں خود کفیل کیوں نہیں کرپارہا۔ جو مافیا پاکستان میں اس وقت سرگرم ہے اسکے تانے بانے بیرون ملک جا کر ملتے ہیں اور یہ گٹھ جوڑ آجکا نہیں بلکہ پرانا ہے۔ اسکا طاقتور ہونا یقینی طور پر سمجھ میں آتا ہے۔ نظریاتی اور فکری الجھنوں کو آئین کا حصہ بنانے سے لیکر 'پکی سیٹوں والے' ٹولے تک ، سب اسکا کیا دھرا ہے۔ جو بھی اقتدار میں آیا اسی مافیا کی تائید و حمایت سے ، بوریا بستر گول ہوا تو بھی اسی کے اشارے پر۔ سب نے سمجھوتہ کیا اور اس ٹولے کو این آر او دیے لیکن عمران خان پاکستان کے واحد حکمران ہیں جو سمجھوتوں اور این آر او ز سے بھی زیادہ کچھ کر رہے ہیں لیکن قومی حمیت و غیرت کا جھنڈا بھی سربلند رکھے ہوئے ہیں۔ بقول غالب: اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں