ا پنی پیاری زندگی کا خود اپنے ہاتھوں خاتمہ کرنا ایک مشکل ترین کام ہے۔بدقسمتی سے یہی مشکل ترین فعل آج کل اتنا آسان بن چکاہے کہ دنیا میںہرسال دس لاکھ کے قریب افراد اپنی زندگی کا خاتمہ اپنے ہاتھوں سے کرلیتے ہیں ۔خودسوزی کرنا،گلے میں پھندا ڈال کر خود کو لٹکانایااپنے سینے پر پستول سے گولی چلاناجیسے المناک واقعات آئے دن پیش آتے رہتے ہیں۔دس ستمبر دنیا بھر میںخودکشی کی روک تھام کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتاہے ۔ لفاظی طورپریہ دن ہمارے ہاں بھی منایا جاتاہے اور اس انتہائی فعل کی مذمت کی جاتی ہے لیکن اس کے بنیادی عللCauses)) کوہم نے کبھی سنجیدہ لینے کی کوشش نہیں کی ہے۔بالخصوص ہمارے حکمران طبقے نے یہ نہیں سوچاہے کہ اسلام جیسے روشن خیال مذہب کے نام پر وجود میں آنے والی ریاست میں ہر سال کیوں ہزاروں پاکستانی خودکشی جیسے انتہائی اقدام کا سہارا لیتے ہیں؟دیکھا جائے تومغربی ملکوں میں معاشی زبوں حالی ، بے روزگاری اور لاقانونیت جیسے فیکٹرزبہت کم خودکشی کاسبب بنتے ہیں کیونکہ وہاں پر زیادہ تر خاندانی مسائل اور ذہنی اضطراب زیادہ تر خودکشی کا باعث بنتاہے لیکن ہمارے ہاں معاملہ اس سے مختلف ہے۔ہیلتھ ریفارمزسپورٹ پروجیکٹ( ایچ آر سی پی )کی طرف سے کیے گئے سروے کے مطابق پاکستان میں خودکُشی کرنے والوں میںپچاس فیصد صرف ان لوگوں کا ہے جو غربت ،بے روزگاری اورانصاف تک عدم رسائی کی وجہ سے اپنے آپ کو ابدی نیند سلادیتے ہیں۔ غربت اور بیروزگاری کے عفریت نے جس قدر یہاں کے لوگوں کو دِق کیا ہوا ہے ، اس کی مثال بہت کم ملکوں میں ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے۔ یاد رہے کہ ہمار ی پچھلی حکومت چندسال پہلے خود یہ اعتراف کرچکی تھی کہ ملک کے انتیس اعشاریہ پانچ فیصد لوگ اس وقت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اورحکومتی فارمولے کی رو سے اس خط کا اطلاق ان لوگوں پر ہوتاہے جن کی ماہانہ آمدنی تین ہزار تیس روپے ہوں۔بے شک ، یہاں پر بھی خاندانی مسائل اور نفسیاتی بیماریاں لوگوں کو خودکشی کی طرف مائل کردیتی ہیں تاہم زیادہ ترلوگ معاشی ناہمواری ، غربت اور قانون کی عدم پیروی کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں جس ملک میں دولت کی منصفانہ تقسیم محض ایک خواب وخیال بن جائے ، ظاہر بات ہے وہاں دل برداشتہ غریبوں کے لئے خودکشی ہی واحد آپشن بچ جاتا ہے۔ پانچ سال پہلے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ہرسال دس ہزار کے قریب افراد اپنی زندگی کا خاتمہ اپنے ہاتھوں سے کرلیتے ہیں جبکہ تین لاکھ کے قریب لوگ اس انتہائی عمل کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ اب جب پانچ سال پہلے ہونے والے سروے رپورٹ میں یہ شرح ہزاروں میں بتائی گئی ہے توظاہر بات ہے کہ پانچ سال بعد اس کا گراف مزید اوپر ہوگا کیونکہ نہ تو ہماری نا اہل حکومتیں معاشی بحران پر قابو رکھ پائی ہیں اور نہ ہی ہم اپنے سماجی رویوں میں کوئی تبدیلی لاچکے ہیں۔ بلوچستان کے دیگر علاقوں سے قطع نظر ، فقط چھ سات لاکھ نفوس پر مشتمل علاقے ضلع ژوب میں بھی پچھلے سال ایک درجن سے زیادہ افراد اپنے آپ کو غیر طبعی موت مروا چکے ہیںجس سے یہ اندازہ لگانا بہت آسان ہے کہ کراچی اور لاہور جیسے گنجان آباد شہروں میں یہ شرح بہت بلندہوگی۔ہمارے ہاں بظاہر تو آئے روز خودکشی کے اس طرح المناک واقعات کی ذمہ دار بذات خودا س انتہائی فعل کا ارتکاب کرنے والا سمجھا جاتاہے لیکن حقیقت میں اس کے زیادہ ذمے دار تو دولت کے خزانوں پر بیٹھے ہوئے وہ سرمایہ دار مافیاہے جس نے اس ملک کی دولت دونوں ہاتھوں سے لوٹی ہے۔ملک کے کروڑوں لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والے یہ لوگ بظاہر تو اپناشجرہ نسب بھی خلفائے راشدین جیسی ہستیوں سے ملاتے ہیں لیکن حقیقت میںان کے قرب وجوار میں ہونے والی خودسوزیاں انہیں کچھ احساس نہیں دلائی ۔ کیا ان سے یہ نہیں پوچھا جاسکتا کہ اُن سے تودریا کے کنارے بھوکاکتا بھی برداشت نہیں ہوسکتاتھااور تم کیا کر رہے ہو؟ غربت اور بے روزگاری کے علاوہ ایسے واقعات کا دوسرا سبب ہماری سماج میں جبر واِکراہ اور عدم برداشت کے وہ قبیح رویے ہیں جس کی وجہ سے لوگ یاتوخودکشی کرنے میں اپنا سکون ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر منشیات کا استعمال اور دوسرے جرائم کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔مثال کے طورپرشادی کے معاملے پر نوجوانوں کو اپنا شرعی حق سے محروم کرانا یا پھرشادی کراتے وقت لڑکے اور لڑکی کی ذہنی اور تعلیمی مطابقت کا خیال رکھنے کی بجائے اندھا دھند طریقے سے دونوں کو ازدواجی رشتہ سے منسلک کرنا وغیرہ جیسی لاپرواہیاں نوجوانوں کو زندگی سے پیار بڑھانے میں مانع وجوہات ہیں۔ ہمارے علمائے کرام اور خطیب حضرات کابھی یہ فرض بنتاہے کہ وہ لوگوں کو زندگی سے پیار سکھائیں اور انہیںخودکشی کے بارے میں مبینہ سزائوں سے خوف دلائیں کیونکہ نہ صرف دین اسلام میں خودکو مارنا ایک ناقابل معافی جرم ہے بلکہ دیگر مذاہب میں بھی اس کی سختی سے ممانعت ہے۔دولت کی منصفانہ تقسیم ، سماجی رویوں میں شائستگی ، نفسیاتی امراض کے خلاف خلوص پر مبنی اقدامات ہی کے ذریعے ہم اپنے ملک کو اس عذاب سے نجات دلا سکتے ہیں۔