بازدید۔دیکھے ہوئے کو دوبارہ دیکھنا‘ڈاکٹر خورشید رضوی کے قلم سے پھوٹی‘نثر کی ایک بہار ہے۔ جو مختلف شخصیات کے رنگا رنگ خاکوں سے سجی سنوری‘لہکتی اور مہکتی ہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی کوکون نہیں جانتا‘عربی زبان و ادب کے عالم بے بدل۔خوشنوا شاعر‘عربی کے مترجم و محقق۔ بے مثل استاد جنہیں پروفیسر ایمریٹس کا درجہ حاصل ہے۔ جو ریٹائر ہو کر بھی ریٹائر نہیں ہوتا۔ تمام عمر علم اور طالب علموں سے جڑا رہتا ہے۔بازدید ‘میں نے 15فروری 2019کو کتابوں کے میلے میں خریدی تھی اور تب سے اب تک میں اسے بارہا پڑھ چکی ہوں۔بازدید میں نہ جانے ایسی کیا بات ہے کہ پڑھے ہوئے خاکے بار بار پڑھنے میں لطف دیتے ہیں۔ڈاکٹر خورشید رضوی کی نثر میں کچھ ایسی کشش ہے جو آپ کو اپنے ساتھ باندھ لیتی ہے یہ نثر نہ مرصع و مسجع ہے۔نہ جذبات سے بوجھل‘ نہ ہی گھیر گھیر کر اظہار بیان میں لائی ہوئی اصطلاحات اور تراکیب کا بے ہنگم ہجوم‘بس نثر کا ایک الگ ہی ذائقہ ہے۔ بچپن کی ایک یاد ہے کہ میری والدہ مرحومہ رفعت سعیدہ دالیں صاف کرتے ہوئے ایک عمل دھرایا کرتی تھیں۔ ایک برتن میں دال اور پانی ڈال کر دوسرے برتن میں ہلکے ہلکے ہاتھوں سے دال نتھارتی جاتیں تاآنکہ صاف دال دوسرے برتن میں جمع ہوتی جاتی۔ دو تین بار یہ عمل دھراتیں تو دال میں موجود چھوٹے چھوٹے پتھر‘روڑے اور کنکر ایک برتن میں رہ جاتے اور نتھری ہوئی صاف شفاف دال دوسرے برتن میں جمع ہو جاتی۔ نہ جانے کیوں مگر مجھے بازدید کو پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے جیسے ڈاکٹر خورشید رضوی بھی نثر لکھتے ہوئے‘کنکر ‘روڑے اور ننھے منے بوجھل پتھر‘نتھارنے کے کسی تخلیقی عمل میں الگ کرتے جاتے ہیں اور اس نتیجے میں یہ شفاف اور نتھری ہوئی نثر قاری تک پہنچتی ہے۔تیس سے زیادہ شخصیات کے خاکے اس کتاب میں شامل ہیں کچھ مشہور و معروف ادیب اور شاعر جن سے شعر و ادب میں دلچسپی لینے والا ہر شخص واقف ہے اور کچھ ایسی یادگار ہستیوں کا تذکرہ ہے جن سے نئی نسلیں شناسا نہیں مثلاً حکیم نیر واسطی جو طب کی ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے مولانا روحی کا پرتاثر خاکہ۔ جو ان سے ملے اور انہیں دیکھے بغیر بس یادوں کے تذکرے کی بنیاد تحریر کیا اور یہ یادیں خورشید رضوی صاحب کے استاد محترم ڈاکٹر صوفی محمد ضیاء الحق کے ذریعے ان تک پہنچیں جو مولانا روحی کے صاحبزادے اور ان کے علمی جانشین تھے۔ پھر علاقہ عبدالعزیز میمن کا تذکرہ جن سے پہلی ملاقات کا تذکرہ خورشید رضوی کرتے ہیں’’یوں پہلی مرتبہ میں نے عربی زبان و ادب کے اس شہرہ آفاق عالم کو قریب سے دیکھا۔ڈاکٹر پیر محمد حسن کا خاکہ پیر صاحب بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اللہ اللہ کیسی نابغہ روزگار شخصیت تھی پیر صاحب کی۔ عربی ادب ‘زبان و تاریخ کے محقق اور عالم۔اسّی کی دہائی میں ادارہ تحقیقات اسلامی میں انہوں نے سترہ برس تک خالص رضا کارانہ جذبے سے پیرانہ سالی میں بڑی پابندی اور باقاعدگی سے تن تنہا وہ کام کیا جس کو پورے پورے ادارے ایک ٹیم ورک کے ساتھ کرتے ہیں۔ انہوں نے سترہ برس ’’العباب الزاخر‘‘ ایک قدیم عربی مخطوطے کی تحقیق متن میں گزارے اور اس کام کو اکیلے بارہ جلدوں میں مکمل کیا جو چھ ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل تھا۔انتظار حسین کا خاکہ پڑھ کر لگا کہ ان کی شخصیت کو اس زاویے سے شاید ہی کسی نے دیکھا ہو جس نظر سے ڈاکٹر خورشید رضوی انہیں دیکھتے اور بیان کرتے ہیں۔ مجھے یہ خاکہ پڑھ کر ایسا لگا جیسے انتظار حسین خود نہ ہوں بلکہ ان کے افسانوں کی پراسرار ارو تحیر آمیز فضا‘کسی شخصیت میں ڈھل کر چلتی پھرتی دکھائی دے رہی ہے۔ کتاب پڑھتے ایک دلچسپ بات جو میں نے محسوس کی وہ یہ ہے کہ ڈاکٹر خورشید رضوی۔ ان خاکوں میں ہمیں مختلف شخصیات سے ملواتے ہیں۔ مگر اس سفر میں خود ان کی اپنی ذات بھی قاری پر منعکس ہوتی چلی جاتی ہے۔جو شاید کسی اور طرح سے ان کے مداحین پہ نہ کھلتی۔ کم از کم مجھ پر ان کا یہی تاثر قائم ہے کہ وہ کم مجلسی۔ کم گو کم آمیز اور آس پاس سے بے نیاز رہنے والے انسان ہیں اور ان کی علمی قدوقامت ایسی ہے کہ ان کی مجلس میں بیٹھے ہوئے افراد ان سے مرعوب ہوئے رہتے ہیں۔بشریٰ رحمان کے ہاں ایک ادبی نشست تھی جو ڈاکٹر خورشید رضوی کے اعزاز میں رکھی گئی تھی۔مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ نشست کے اختتام پر باہر نکلتے ہوئے میں نے خورشید رضوی صاحب سے یہ سوال کر دیا کہ کیا آپ کو معلوم ہے آپ کی ذات کے گرد بے نیازی کا ایک خاص Auraموجود ہے۔جو آپ سے ملنے والا ہر شخص محسوس کرتا ہے۔تو انہوں نے ہنس کر کہا کہ میں تو ایسا نہیں سمجھتا۔ لیکن بازدید کو پڑھنے کے بعد ہم بھی ایک نئے خورشید رضوی سے ملتے ہیں۔ جو صرف اپنی ذات کے حصار میں ہی گم نہیں رہتے بلکہ دوستی اور مروت کے رشتوں کو باقاعدہ نبھاتے ہیں۔سرراہے کی ملاقاتوں پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ وہ جن سے محبت کرتے ہیں انہیں وقت نکال کر خود ملنے جاتے ہیں۔ دوستوں کی خوبیوں پر نگاہ رکھتے ہیں اور ایکسرے کی نگاہ سے بعض اوقات اندرون ذات کے آئینہ خانہ میں بھی جھانکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پروفیسر جیلانی اصغر کے پر مزاح فقروں کے پیچھے۔ وہ ان کی ذات کے کسی دکھ کا سرا تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ پروفیسر صاحب زخم کو پھول بنانے کے ہنر سے آشنا ہیں۔احمد ندیم قاسمی‘انور مسعود‘ناصر کاظمی‘اختر حسین جعفری اور دیگر معروف اور عام فہم میں غیر معروف مگر اہل علم شخصیات کے خاکے پڑھتے ہوئے خیال آتا ہے کہ جیسے ڈاکٹر خورشید رضوی کے پاس کوئی ایسا پرزم ہے جس کے سامنے وہ کسی شخصیت کو رکھتے ہیں تو اس کے وہ آنگ بھی منعکس ہو کر سامنے آ جاتے ہیں جو جس سے شاید وہ شخصیت خود بھی بے خبر ہو۔ وہ دکھائی دینے والے چہرے کے پیچھے چھپے ہوئے ہزار چہروں کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں بالکل ایک ماہر نفسیات دان کی طرح!چہرے کے پیچھے چھپے ہوئے ہزارویں چہرے کو بھی دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر اپنے گہرے مشاہدے کو تخلیقی عمل سے گزار کر اس طرح بیان کرتے ہیں ہمیں ان شخصیات سے بھی محبت ہو جاتی ہے جنہیں ہم نے کبھی دیکھا نہیں ہوتا۔بازدید۔ بار بار پڑھنے والی کتاب ہے۔