17جنوری کو ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس آف پاکستان محترم ثاقب نثار کو بہر حال اس بات کا کریڈٹ ضرور دینا پڑے گا کہ انہوں نے پہلی بار حقیقتاً معروف اصطلاح میں ایسے ایسے بڑے سیاسی مگر مچھوں پر ہاتھ ڈالا جو گزشتہ تین دہائیوں سے نہ صرف ہر طرح کے عدالتی احتساب سے محفوظ رہے بلکہ معذرت کیساتھ عدالتی اور احتسابی ادارے ان کیلئے مالیاتی سہولت کاری کا کردار ادا کرتے رہے۔ سیاستدانوں کا ۔ ۔ ۔ چاہے ن لیگی ہوں یا پی پی ،تھانہ کچہری آنا جانا تو لگا رہتا ہے۔مگر انور مجید ، حسن لوائی ،ملک ریاض جیسے کھرب پتی ان دنوں جس طرح کٹہرے میں کپکپائے، گھگھیائے کھڑے ہوئے ہیں۔ کم ا ز کم حالیہ تاریخ میں اس کی مثا ل نہیں ملتی۔ ہمارے محترم ریٹائر ہونے کے قریب چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں یقینا انصاف کی شہد و دودھ کی ندیاں تو نہیں بہہ رہی ہیں۔ آج بھی زیر سماعت مقدمات کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ مگر جن سیاستدانوں ،صنعتکاروں ،جاگیرداروں ،سویلین ،ملٹری بیوروکریٹس کے گلوں میں سرئیے پڑے تھے۔ آج انہیں ملک کے اندر اور باہر جائے پناہ نہیںمل رہی۔ محترم چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کو خوش آمدید اور ان کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے اُن ماہ و سال کی یاد تازہ کرنے اور تاریخ میں محفوظ کرنے کی اس لئے بھی ضرورت ہے کہ ادھر زرداریوں اور شریفوں کے قبیلے چیف جسٹس ثاقب نثار کے جانے کے دن گننے میں مصروف ہیں ۔ ۔ ۔ مگر اپنی تمام تر ذہانت و فطانت کے باوجود معذرت کے ساتھ میں مکاریوں کا بازاری لفظ استعمال کرنے جارہا تھا۔ اب یہ ممکن نہیں کہ پاکستانی سیاست کے یہ بڑے گھرانے اوران کے مالیاتی طفیلی ’’انصاف و احتساب‘‘سے مستقبل میں بچ نکلنے میںکامیاب ہوسکیں گے۔اور یہ کوئی بہت دور کی بات نہیں ۔فوجی حکمرانوں کے دور کا ذکر کرنا تو اس لئے لاحاصل ہے کہ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان ہوں یا مرد مومن جنرل ضیاء الحق۔۔۔ وہ تو آئین اور قانون کو یوں بھی ’’کاغذ کا چیتھڑا‘‘ نہ صرف سمجھتے تھے بلکہ عملاً انہوںنے اس کے ساتھ سلوک بھی ایسا ہی کیا۔1962ء میں فوجی حکمراں جنرل ایوب خان نے جو پہلا آئین ملک کو دیا وہ ساری دنیا کی مروجہ ومعروف جمہوری ،آئینی اصولوں کے منافی تھا۔ یہاں میں 1962ء سے پہلے کے 1956ء کے آئین کی تفصیل میں اس لئے نہیں جاؤں گا کہ اس وقت کے وزیر اعظم چوہدری محمد علی نے جو پہلا اسلامی جمہوری آئین دیا اور جس کے تحت دو سال بعد پہلی بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہونے والے اسی بات کے نتیجے میں پارلیمنٹ وجود میں آنی تھی۔ ۔ ۔ اُس کا خود ہمارے شریف النفس وزیراعظم چوہدری محمد علی اوراُن کے ساتھ کے بانیان ِ پاکستان نے اپنے ہاتھ سے ’’حمل ‘‘ گرادیا۔اکتوبر 1958 ء میں ایوبی مارشل لاء کے آگے سارے مسلم لیگی محمود وایاز،ہاتھ باندھے ،سر جھکائے سر بہ سجود تھے۔ جنرل ایوب خان نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے نظریہ کے منافی 1962ء کے آئین کے تحت صدارتی نظام کی بنیاد ڈالی اور اس میں بھی بالغ رائے دہی یعنی One Man One Voteکے بجائے نام نہاد پی ڈی سسٹم رائج کیا ۔جس میں 80ہزار ارکان کو یہ حق دیا گیا کہ وہ ارکان اسمبلی کا انتخاب بھی کریں اور صدر مملکت کا بھی ۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان جب جمہوریت کے تابوت میں یہ کیلیں ٹھونکنے میں مصروف تھے تو اُس وقت کے ہمارے عدلیہ کے سرخیل جسٹس محمد منیر (جون 1954ء سے مئی 1960ئ)جسٹس کارنیلیئس( 1960ء سے مئی 1968ئ)، جسٹس ایس اے رحمان (مارچ1968ء سے جون 1968ئ) مارشل لائی ترازوؤں میں جھولا جھولنے میں مصروف رہے۔ جنرل ایوب خان کے بعد آنے والے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر جنرل یحییٰ خان سر زمین اسلامی جمہوریہ پاکستان کیلئے ایک المناک حادثہ ہی کہلائیں گے کہ قائد اعظم کے پاکستان کا حکمران ایک ایسافوجی جنرل بھی ہوسکتا ہے‘ جس نے ایوا ن صدر جیسے مقام کو جب ’’پامال ‘‘کیا تو اس وقت کے بھی ان لوگوں کو اُن الفاظ کا پاس نہیں آیا جن پر حلف اٹھا کر انہوں نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ خدا کو حاضر و ناظرجان کر آئین کی بالادستی کا پاس رکھیں گے۔ 1947ء سے1970ء تک ہمارے سویلین، فوجی حکمرانوں نے جو کھلواڑ اس غریب قوم اور ملک کے ساتھ کیا۔ ۔ ۔ اور اُس کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو جیسا نابغۂ روزگار اس ملک کا حکمراں بنا تو خیال یہی تھا کہ تاریخ کا یہ بڑا سحر انگیز سیاستدان ماضی کے مقابلے میں وطن عزیز کو اس راہ پر ڈالے گا‘ جسے سقوط ڈھاکہ جیسے حادثے اور سانحے کے بعد اس بات کا موقع دیا کہ وہ بانی ِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھے…؟ بد قسمتی سے بھٹو صاحب نے بھی ماضی کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ریاست کے تمام ستونوں کو جوتے کی نوک پر رکھا۔ایوان صدر تو خیر سے سرونٹ کوارٹر تھا ہی ۔مگر شاہراہ دستور میں جبہ و دستار پہنے آئین و قانون کی دھجیاں آنکھیںبند کئے دیکھتے رہے ۔یہ وہ دور تھا جب حیدر آباد جیل کے چار پھاٹکوں میں عدالتیں لگتی تھیں۔ ملزم ،وکیل،جج ،کوئی کٹہرے کے اندر کوئی باہر چاروں ہاتھوں پیروں سے لوٹنے والے شریف اور زرداری خاندان اور اُن کا ٹولہ عدالتی پیشیاں بھگتنے کا ریکارڈ قائم کررہا ہوگا۔ 18 جنوری کو جسٹس آصف سعید کھوسہ جیسے تجربہ کار ‘دانشور چیف کے سامنے یہ منصب سنبھالتے ہوئے یقینا ماضی کی عدلیہ کی یہ پوری کربناک، المناک تاریخ سامنے ہوگی ۔