چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ایک ایسے وقت میں پاکستان کی سب سے بڑی اعلیٰ عدالت کی سربراہی کا منصب سنبھالا ہے کہ جب ملک بہ زبان ِ انگریزی اپنی تاریخ کے شدید ترین horizontal and vertical بحران کاشکار ہے۔مجھے یاد ہے کہ بھٹو صاحب نے اپنی پھانسی سے پہلے اپنی کتاب ’’اگر میں قتل کردیا گیا‘‘ میں یہ پیشن گوئی کی تھی کہ اگر مجھے جنرلوں نے قتل کردیا تو مستقبل میں ملک ایک ایسے horizontal and vertical لغوی معنوں افقی اور عمودی بحران کی لپیٹ میں آجائے گا کہ جس سے اُس کا نکلنا ناممکنات میں سے ہوجائے گا۔بھٹو صاحب ایک اسٹیٹسمین تو تھے ہی ،مگر تاریخ کے بھی نباض تھے۔اسی لئے انہوں نے یہ تاریخی جملہ بھی کہا تھاکہ ’’ میں جنرلوں سے سمجھوتا کرنے کے بجائے تاریخ کے ہاتھوں قتل ہونے کو ترجیح دوں گا۔‘‘بھٹو صاحب کا کہنا درست ثابت ہوا۔ آج پچاس سال بعد بھی بھٹو صاحب کی سیاسی legacyزندہ ہے۔جبکہ اس دوران بے شمار وزرائے اعظم آئے اور گئے۔مگر بیشتر کے نام بھی ذہن پر زور ڈالنے کے بعد نہیں آتے۔ بدقسمتی سے برصغیر میں ججوں اور جنرلوں کا ہمیشہ کلیدی کردار رہا۔اس کے مقابلے میں سیاستدانوں کو دوسرے درجے پہ رکھا گیا۔آج کوئی نہیں جانتا کہ پچھلی کئی دہائیوں میں بھار ت اور بنگلہ دیش کا کون جنرل اور جج رہا۔ ۔ ۔ جبکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں خاص طور پر 1970ء کی دہائی کے بعد ایک ایسا ٹرائکا وجودمیں آیا، جس میں جنرلوں اور ججوں کو منتخب وزرائے اعظم پر فوقیت حاصل رہی۔ ۔ ۔ آج بھی کم و بیش وہی صورت حال ہے۔بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد پوری ایک دہائی تک جنرل ضیاء الحق کی فوجی آمریت رہی۔ مگر اُس وقت کے دو مقتدر اداروں کے سربراہ یعنی جنرل اور ججز اپنے اداروں کو بہ احسن طریقے سے چلاتے ہوئے ایک ایسی پارلیمنٹ کو مستحکم کردیتے کہ جو عوام کو جوابدہ بھی ہوتی اور جس کے ثمرات پاکستان کے عوام تک پہنچتے بھی۔جنرل ضیاء الحق نے انتخابات کرائے بھی تو غیر جماعتی بنیاد پر۔ مزید بدقسمتی یہ کہ غیر جماعتی پارلیمنٹ کو بھی چلنے نہیں دیا گیا۔poorمحمد خاں جونیجو کو بڑی رسوائی سے اقتدار سے باہر پھینک دیا گیا۔اگر اُس وقت کی اعلی ٰ عدلیہ جنرل ضیاء الحق کے اس فیصلے پر مہر ثبت نہ کرتی ،تو پھر بعد کے برسوں میں نہ تو کوئی جنرل پارلیمنٹ توڑتا اور نہ ہی کوئی جج اُس کی توثیق کرتا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ بعد میں جنرل ضیاء الحق کے اس فیصلہ کو ناجائز قرار بھی دیا گیا تو اس وقت تک 1985ء کے ٹرائکا کا کوئی بھی کردار زندہ نہ تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے اقتدار کے خاتمے کے بعد دسمبر1988ء میں ایک بار پھر ٹرائکا کو اس بات کا موقع ملا کہ وہ جمہوریت کو اس کی پٹڑی پر ڈال دیتے۔ ۔ ۔ دلچسپ بات ہے کہ اس ٹرائکا کی ہیئت 1970ء کے ٹرائکا سے مختلف تھی۔یعنی منتخب وزیر اعظم اور پارلیمنٹ ایک طرف ۔ ۔ ۔ جبکہ اس کو ملیا میٹ کرنے کے در پے صدرِ مملکت ،جنرلز اور ججزایک طرف ۔ ۔ ۔ پوری ایک دہائی تک جنرلز اور ججز اقتدار کا یہ میوزیکل چیئرز کھیلتے رہے۔کبھی بینظیر بھٹو کی حکومت ختم کی جاتی ،تو 16ماہ میں اُن کی حکومت ختم کرکے ن لیگ کی میاں نواز شریف کی حکومت باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اقتدار میںلائی جاتی۔جب خود اُن کا لایا ہوامنتخب وزیر اعظم پارلیمنٹ کو آزادانہ چلانے کی کوشش کرتا تو اُسے بھی رخصت کردیا جاتا۔اُسے رخصت کرکے پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کو لایا جاتا۔اور پھر دوسری بار انہیں گھر بھیج کر تیسری بار وزیر اعظم نواز شریف کو لایا گیا۔بڑی بھاری دوتہائی اکثریت سے۔ ۔ ۔ اپنی جگہ یہ ایک الگ بد قسمتی ہے کہ ہمارے یہ ذہین ،جہاندیدہ پرائم منسٹر اور ان کا قبیلہ بھی ایک دوسرے کو گرانے میں استعمال ہوتا رہا۔ یقینا اکتوبر 1999میں ایک بار پھر سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو اس بات کا موقع ملا تھا کہ وہ ملک کو جمہوریت کے راستے پر ڈالتے ہوئے اداروںکی جو حدودمتعین تھیں، اس کے مطابق انہیں چلاتے رہتے۔ ۔ ۔ ہمارے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو سپریم کورٹ نے پورے تین سال دئیے تھے۔یہ تسلیم کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ انہوں نے بڑی حد تک ایک صاف ستھری ،کرپشن سے پاک حکومت بھی چلائی ۔ ۔ ۔ ۔ 2002میں جب انہوں نے انتخابات کا اعلان کیا تو یہ بالکل ایک صحیح وقت تھا کہ جب وہ اقتدار، جیسی بھی لنگڑی لولی پارلیمنٹ آئی تھی ،اس کے حوالے کر کے جی ایچ کیو میں بیٹھ جاتے۔مگر ہمارے ذہین و فطین جنرل پرویز مشرف پہ بھی سابقہ جنرلو ںکی طرح یہ سر میں سودا سمایا کہ صرف و ہی ہیں جو ملک کو چلا نے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اس پورے تین سال کے عرصہ میں جن میں ہمارے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی آتے ہیں ، سابق صدر پرویز مشرف کو ان کی من مانی کرنے دیتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کا ایک دہائی کا اقتدار مکمل کرنے کے بعد 2007ء تو آنا ہی تھا،کہ آمریت چاہے سویلین ہو یا فوجی،اگر مطلق العنانیت پر آجائے تو پھر اس کے اندر ہی سے بغاوت پھوٹتی ہے۔ہاں، اُس کی شکل تبدیل ہوتی رہتی ہے۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری جیسے علم و دانش سے عاری جج جنرل پرویز مشرف کے آگے اس طرح ڈٹ جائیں گے ،یہ کوئی تصور بھی نہ کرسکتا تھا۔اور پھر جنرل پرویز مشرف کا سارا بنایا ہوا سسٹم چند ہزا ر وکیلوں کے مارچ سے تاش کے پتوں کی طرح بکھر گیا۔ وکلاء تحریک سے یقینا ایک ایسا جمہوری سسٹم نکل کر آسکتا تھا کہ جو مستقبل میں نہ صرف اداروںکا کردار متعین کرتا، خاص طورپر جنرلوں اور ججوںکو اسی مقام پر رکھتا جس کا تعین آئین میں رکھ دیا گیا ہے۔مگر ہماری دو نوں مین اسٹریم پارٹیوں کے قائد یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ اس دوران خود ان کی پارٹیاں تو کھوکھلی ہوتے ہوئے وراثتی پارٹیوں میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ مگر دوسری طرف جی ایچ کیو اور شاہراہ ِ دستوردو ایسے اقتدار کے ستون بن کر کھڑے ہوگئے ہیں کہ جنہیں گرانا تو دور کی بات ۔ ۔ ۔ جن کے آگے سر بہ سجود ہوکے وہ اپنا اقتدار قائم رکھ سکتے ہیں۔ یہ لیجئے ، خوش آمدید تو چیف جسٹس گلزار احمد کو کرنے چلا تھا۔سوچا تھا کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کو بھی ان کی خدمات پر سلام پیش کرتا چلوں گا۔مگر کالم ایک ایسے موڑ پر آگیاہے،کہ زیادہ تفصیل سے اس بات کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ جنرل تو پانچ کیا دس سال بھی رہ سکتے ہیں۔مگر ججوں کی 2007کے بعد مدت دیکھی جائے تو کسی نے مہینہ مکمل کیا،کسی نے چھ ماہ ،تو کسی نے مشکل سے سال۔ 2007ء سے 2019ء تک 9ججزآئے اور گئے ۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنے پیش رو کے مقابلے میں جو بھی چیف جسٹس آیا ،اس کا اپنا ایک اور ہی ایجنڈا ہوتا۔اور جس کا ٹکراؤ جنرلوں سے بھی ہوتا اور منتخب وزرائے اعظم سے بھی ۔ ۔ ۔ (جاری ہے)