گوادر نہ صرف پاکستان بلکہ بحر ہند کی معاشی اور جغرافیاتی حیثیت بدل سکتا ہے تاہم چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور کی تمام صلاحیتوں کو ابھی تک بروئے کار نہیں لایا گیا۔گوادر سٹی کو 19بلین بندرگاہ کے ترقیاتی منصوبوں جبکہ سعودی عرب سے 11بلین آئل ریفائنری کے قیام کے لئے بھی مل چکے ہیں۔ مگر شہر کو صحت‘ صاف پانی اور تعلیم کے ساتھ ساتھ انفراسٹرکچر جیسے مسائل کا اب بھی سامنا ہے۔ دستیاب صحت اور تعلیم کی سہولیات ناکافی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ سہولیات عام شہریوں کی پہنچ سے کوسوں دور ہیں۔ تاہم حال ہی میں مکران کے ساحلی علاقوں میں تقریباً چار سال بعد ہونے والی بارش ناصرف پانی کے حل میں معاون ثابت ہوئی بلکہ گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی(GDA)پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ ان سب عوامل کے باوجود یہاں کے رہائشیوں کو آنے والی گرمیوں میں توانائی کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔گوادر کے لوگ وزیر اعظم عمران خان کا انتظار کر رہے ہیں جو اس ماہ کے آخر میں گوادر ایکسپو 2019ء کا افتتاح کرنے کے لئے بندرگاہ کا دورہ کریں گے۔ وزیر اعظم کے دورے کے دوران کئی منصوبوں کے سنگ بنیاد رکھے جانے کی امید ہے جن میں گوادر پاور پلانٹ ‘نیو انٹرنیشنل ایئر پورٹ‘ ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ اور ہسپتال شامل ہے۔ تاہم گوادر کے رہائشیوں کو خوشیوں کے ساتھ کچھ تشویش بھی لاحق ہے کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بھی گوادر کی ترقی کے لئے 1بلین ڈالر کا صرف اعلان کیا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان کے گوادر کے دورے سے اس بات کے امکانات ہیں کہ مصنوعی طور پر شہر کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کو فروغ ملے گا۔ جو ملک بھر سے سرمایہ داروں کے کروڑوں روپے اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور جو تجارتی شہر کے ماسٹر پلان کے آغاز کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ گوادر کے لوگ طویل عرصے سے گوادر سمارٹ پورٹ سٹی ماسٹر پلان کا انتظار کر رہے ہیں۔ حکومت کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ پلان کے حوالے سے اتفاق رائے ہو چکا ہے مگر ابھی تک اس کو حتمی شکل نہیں دی جا سکی اور نہ ہی ابھی تک یہ منظور ہوا ہے۔ چینی کمپنیاں جو بندرگاہ اور سپیشل اکنامک زونز کے مختلف منصوبوں پر کام کر رہی ہیں وہ بھی اکثر اوقات اس تاخیر پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔ تاہم مقامی گوادر کے رہائشی وزیر اعظم کا انتظارعلاقائی اور ذاتی وجوہات کی بنا پر بھی کر رہے ہیں۔ ان کو امید ہے کہ وزیر اعظم ماہی گیروں کے مسائل بھی حل کریں گے جو گوادر کے منصوبوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ وہ اس حوالے سے کئی ماہ سے احتجاج بھی کر رہے ہیں۔ وہ مقامی نمائندے ہونے کی وجہ سے اور جگہ کی تبدیلی کے حوالے سے بھی تحفظات کا شکاراور اپنے مستقبل کے حوالے سے فکرمند ہیں۔اگرچہ صوبائی حکومت اور گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے کئی بار اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ مقامی لوگوں کا انخلاء ماسٹر سٹی پلان کا حصہ نہیں ہے مگر مقامی لوگ تب یقین کریں گے جب حتمی ماسٹر پلان ان کے سامنے آئے گا۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال نے بھی اعلان کیا ہے کہ گوادر میونسپل کمیٹی کو گوادر میٹروپولیٹن کارپوریشن میں ضم کر دیا جائے گا۔ مگر امید ہے کہ اس عمل کا آغاز وزیر اعظم کے دورہ کے موقع پر ہو گا۔ گوادر کے لوگ اپنی ثقافت اور تاریخ سے محبت کرتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ ان کے پرانے قصبے کو محفوظ کیا جائے جو اپنے زرخیز ورثے کی بدولت مقامی اور غیر ملکی سیاحوں کی دلکشی کے تمام لوازمات رکھتا ہے۔ بیورو کریسی کی مداخلت نے بظاہر عام اور سادہ نظر آنے والے ماہی گیروں کے مسائل کو بھی گھمبیر بنا دیا ہے۔ ماہی گیروں کے مطالبات 6لین ایسٹ بے ایکسپریس کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں جو مکران کے ساحلی ہائی وے پر 2300ایکڑ گوادر کے فری ٹریڈزون کے ساتھ جوڑتا ہے۔ ماہی گیروں کا خیال ہے کہ یہ سڑک سمندر کے اہم علاقے تک ان کی رسائی میں حائل ہے۔ جس کے اردگرد وہ جہاز رانی کرتے ہیں۔ اصل ڈیزائن میں ماہی گیروں کو سمندر کے پانی تک رسائی دینے کے لئے ایک چھوٹا سا راستہ دیا گیا تھا مگر ماہی گیروں کا موقف ہے کہ یہ راستہ تنگ ہے جو کھلا ہونا چاہیے یا انہیں پلوں کے ذریعے سمندر تک رسائی دی جائے۔ حکومت نے کئی بار وعدے کئے جو ابھی تک وفا نہ ہو سکے۔وزیر اعلیٰ جام کمال نے ایک میٹنگ میں یہ دعویٰ کیا کہ حکومت سڑکوں کے ڈیزائن میں تبدیلی کے لئے کام کر رہی ہے اور اس حوالے سے پہلے ہی ایک پرپوزل وفاقی حکومت کو بھیجی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ موریوںکی بجائے پل تعمیر کئے جائیں۔ تاہم گوادر پورٹ اتھارٹی (GDA) کے چیئرمین نصیر خان کاشانی کے مطابق ایک پل کی تعمیراتی لاگت لاکھوں ڈالرز ہے جبکہ ماہی گیر تین پلوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دوسرے عہدیدار کے مطابق بیورو کریسی نے اس ایشو کو پیچیدہ بنا دیا ہے کہ چینی پل کی قیمت ادا کریں گے۔ وزیر اعظم نے اس ایشو کا نوٹس لیا ہے مگر یہ صوبائی حکومت‘ جی ڈی اے اور جی بی اے کے لئے حقیقی ٹیسٹ کیس ثابت ہو گا۔ ماہی گیروں کے مطالبات کو پورا کرنے کی تاخیر سی پیک کے حوالے سے غیر ضروری تلخی کو ہوا دینے کے مترادف ہے۔ راقم کے حالیہ دورہ گوادر میں تاجروں اور دکانداروں نے سی پیک اور چینیوں کی بندرگاہ پر موجودگی کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ایک چیز جس کو وہ ضروری سمجھتے ہیں وہ چینیوں کے ساتھ بالواسطہ تعلق ہے۔ کچھ لوگوں نے 2006ء سے پہلے کا دور یاد کیا جب چینی بلا روک ٹوک گھومتے تھے اور اس سے مقامی کاروبار کو فروغ ملتا تھا۔ تاہم بندرگاہ پر دہشت گرد حملے نے ساری صورتحال تبدیل کر کے رکھ دی اور اب عام آدمی چینیوں کو صرف بلٹ پروف گاڑیوں میں سخت سکیورٹی میں گزرتے یا بندرگاہ کے اندر دیکھ سکتا ہے۔ مقامی صحافی اپنے مسائل رپورٹ نہیں کر سکتے حتیٰ کہ پانی جیسے ایشوز پر بھی بات نہیں کی جا سکتی۔ شاید وزیر اعظم کا آمدہ دورہ اور ان ایشوز کے حوالے سے ان کے احکامات کی روشنی میں مقامی لوگوں کی زندگی میں خوف اور غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ ہو سکے۔