قدیم چینی فلسفی، حیات انسانی کی جانچ اور پرکھ کرنے کے بعد سوال اٹھاتے ہیں کہ : ’’سب سے زیادہ دانشمند آدمی کون ہے؟‘‘ جواب آتا ہے: ’’جو سب سے زیادہ خوش ہے۔‘‘ ’’خوشی ‘‘ انسان کے اندر پائے جانے والے اہم ترین جذبات میں سے ایک ہے۔ انسانی جذبات کا بہت گہرا تعلق انسانی سوچ سے ہے۔ سوچ انسانی زندگی کا اہم ترین حصہ ہے۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حیات جن چند محرکات کی بنیاد پر پروان چڑھتی ہے ،’’ سوچ‘‘ ان میں سے ایک اہم ترین ہے۔ سوچ چاہے غلط ہو یا صحیح ، مثبت ہو یا منفی، اپنا رنگ انسانی شخصیت پر ضرور چھوڑتی ہے۔ ہر گزرتے دن ہماری مختلف لوگوں سے کسی نہ کسی بہانے ملاقات ہوتی ہے، توان کی شخصیت کا وہ پہلو جو ہم پر اثرچھوڑتا ہے، وہ ان کا رویہ ہے۔ رویہ بھی دراصل اُن کی سوچ ہی کی ایک تصویرہوتی ہے۔ اب تک کے اپنے معمولی تجربہ کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہوں تو شاید غلط نہ ہوگا کہ اگر ملنے والے شخص کی سوچ مثبت ہو، تو وہ آپ پر ایک اچھا تاثر چھوڑ جائے گی، اور اگر منفی ہے، تو آپ کے اچھے بھلے موڈ کا، کسی نہ کسی حد تک، بیڑاغرق ہوجائے گا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ سوچ کا تعلق دراصل آپکے خیالات سے ہے۔2005 میںامریکا کی نیشنل سائنس فائونڈیشن نے ایک ریسرچ پیپر شائع کیا، جس کے مطابق ایک عام انسان کو ایک دن میںبارہ ہزار سے ساٹھ ہزارتک خیالات آتے ہیں، ان سب خیالات میں سے اسی فیصدخیالات منفی ہوتے ہیں۔ امریکا کی کورنل یونیورسٹی کی ریسرچ کے مطابق ہمارے خیالات کا 85 فیصد حصہ وہ ہوتا ہے، جن میں ہمیں کوئی نہ کوئی ان دیکھے اندیشے لاحق ہوتے ہیں، لیکن وہ خیالات کبھی بھی حقیقت کی شکل اختیار نہیں کرتے۔ باقی 15فیصد جو فکریں ہمیں لاحق ہوتی ہیں، ان میں سے 79فیصدان مسائل سے جڑے خیالات ہوتے ہیں ،جنہیں ہم اپنی امید سے کئی گنا بہتر انجام دے لیتے ہیں،یا یہ وہ مشکلات ہوتی ہیں جو ہمیں کچھ ایسی چیزیں سکھا جاتی ہیں، جو ساری زندگی ہمارے کام آتی ہیں۔ اب جہاں تک تعلق ہے اس سوال کا کہ ہمارے خیالات مثبت کس طرح ہوں ، اور ہم ’’پازیٹوتھنکنگــ‘‘ کیسے اپنائیں… یاد رکھیں، مثبت سوچ کا تعلق طمانیت اور خوشی سے ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کسی چیز کو حاصل کر لینے یا کسی چیز میں کامیاب ہوجانے کو خوشی کا نام دے دیتے ہیں۔ حقیقتا ایسا بالکل بھی نہیںہے۔ ہمارے ارد گرد کے ماحول نے کہیں نہ کہیں ہمارے ذہن میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ بڑا کام ہمیں بڑی کامیابی دے گی اور بڑی کامیابی ہمیں خوشی فراہم کرے گی۔اگر خوشی کے حصول کے لیے صرف کامیابی ہی سب کچھ ہوتی تو آج نیند اور ڈپریشن کی گولیاں کھانے والوں میں سر فہرست ،معاشرہ کے رئیس اور دولتمند نہ ہوتے۔ ’’خوشی‘‘۔۔۔ کامیابی کے مرہون منت نہیں ،ہاں۔۔ البتہ کامیابی ،’’ خوشی‘‘ کی ضرور محتاج ہے۔ امریکہ کی معروف ہارورڈیونیورسٹی کے مطابق ،وہ کاروباری افراد جو خوش اور مطمئن ہوتے ہیں،انکا کام 31 فیصدزیادہ منافع بخش، انکی سیل 37فیصدزیادہ، اور ان کا کاروبار تین گنا زیادہ تخلیقی ہوتا ہے۔ گویا خوشی کا تعلق آپ کے کام کے ساتھ بالکل ایسے ہی ہے جیسے سیاہ رات میں چمکتے ہوئے ستارے آسمان کو حسن بخش دیں۔ مشکلات کے اندھیرے میں بھی بامِ فلک پر اپنی روشنی سے نئے رستوں کی نوید سنادیں۔ آپ کا کام جتنا بھی کٹھن ہو، لیکن آپ اسے اپنی طبیعت پر کبھی بھی بوجھ نہ بننے دیں۔ شان ایکر(Shawn Achor (، مشہور امریکی مصنف اور سپیکر اپنی معروف تصنیف "The Happiness Advantage" میں لکھتا ہے جو کہ یقینا سو فیصد درست ہے کہ یہ زندگی کے حالات نہیں جو ہمارے زاویہ نگاہ کو تبدیل کرتے ہیں، بلکہ یہ وہ نکتہ نظر ہے جس سے ہم ان حالات و واقعات کو دیکھتے ، اور اس کا اثر قبول کرتے ہیں۔ان ساری باتوں کے بعد آپ یہ ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ حالات تو سب کے لیے یکسر نہیں، تو خوش رہنے کے مواقع یکسر کیسے ہوسکتے ہیں؟ یہی سوال جب یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے شعبہ نفسیات کے پروفیسر سے پوچھا گیا تو ان کا یہ کہنا تھا کہ حالات کا تعلق ہماری خوشی کے ساتھ صرف اور صرف 10فیصد ہے ، باقی نوے فیصد صرف ہماری "Intentional Activities"ــ یعنی دانستہ سرگرمیاں ہیںجو ہمیں خوشی سے ہمکنار نہیں ہونے دیتیں۔ اب وہ سرگرمیاں کیا ہیں،کیا وہ ایسے لوگوں کی سنگت ہے جو ہمیں منفی رویہ اپنانے پر مجبور کرتی ہیں، یا وہ عوامل جن سے آپ کو تقویت پہنچتی ہے ، ان سے دوری کے باعث آپ خوش نہیں ہیں؟ کبھی وقت ملے تو تنہائی میں بیٹھ کر ضرور سوچیے گا کہ ایسی کونسی سرگرمیاں ہیں جو آپ کے ذہنی سکون اور خوشی میں خلل کا باعث بنتی ہیں اور کونسی سرگرمیاں آپ کو خوشی محسوس کرنے میں مدد کرتی ہیں۔ چند روز قبل فرانسیسی اہل قلم اور نوبل انعام یافتہ، اندرے ژیدا (Andre Gide)کا ایک قول پڑھا تو بہت بھلا پایا، ان کا یہ کہنا ہے کہ ہمارا خوش رہنا صرف ہماری ذاتی بقا کے لیے مفید نہیں بلکہ یہ ہماری اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔کیوں کہ ہمارے رویہ کا اثر صرف ہماری ذات تک محدود نہیں ہوتا بلکہ دوسروں پر بھی اپنا اثر ضرور چھوڑتا ہے ۔ میں اور آپ ، معاشرے کا ایک ایسا حصہ ہیں ، جیسے دریا کی سطح پر تیز لہر ہو، وہ تنہا اٹھتی ہے لیکن اس ایک لہر سے کئی لہریں بنتی چلی جاتی ہیں۔ ہماری حیات ایک آئینے کی طرح ہے اور ہمیںنظرآنے والے ہر چہرے کا عکس بیک وقت سینکڑوں چہروں پر دکھائی دینے لگتا ہے ۔ ایک چہرہ اگر غبار آلود ہوجائے ، تو کئی چہرے غبار آلود ہوجائیں گے۔ کبھی سوچیئے گا کہ آپ خوش ہوں لیکن ارد گرد بسنے والے منہ لٹکائے نظر آئیں،تو کیا آپ کو کبھی آپ کی خوشی، خوش کر پائے گی؟ بالکل نہیں۔ کیوں کہ ہماری ـ’’خوشی‘‘ کا تعلق اس بات سے ضرور ہے کہ ہمارے آس پاس رہنے والے ہم سے کس قدر خوش ہیں۔ ہمارے مذہب نے ہمیں خوشیاں بانٹنے کی تلقین کی۔ اپنے رستے سے دوسرے مسافروں کی آسانی کے لیے پتھر تک ہٹانا سکھایا ہے، تاکہ ہم خوشیاں بانٹنا ، آسانیاں تقسیم کرنا سیکھ جائیں۔ یقین کیجیئے، جو سکون اور خوشی دوسروں کے لیے راحت بننے میں پائی جاتی ہے، اس کا کوئی اور بدل نہیں۔ کسی کے لیے آسانی پیدا کرنا کوئی مشکل کام تو نہیں۔ اس کے لیے بھری جیب کا ہونا بھی ضروری نہیں۔ صرف ایک دل کا ہونا ضروری ہے، میری مراد’’زندہ دل‘‘۔ بقول اقبال: ’’دلِ زندہ‘‘ بھی کر خدا سے طلب آنکھ کا نور دل کا نور نہیں