محسن انسانیت حضرت محمدﷺ نے غریب کے لئے الگ اور امیر کے لئے الگ قانون کو معاشروں کی تباہی کا بڑا سبب بیان فرمایا تھا، سرور کونینؐ کے فرمان کی اس آفاقی سچائی کا ادراک غیر مسلم فلاسفر نے بھی کیا اور کہا کہ’’ جن معاشروں کی اشرافیہ خود کو قانون سے مستثنیٰ خیال کرے ان معاشروں کی تباہی یقینی ہے‘‘۔وزیر اعظم عمران خان قانون کی بالادستی اور امیر، غریب کے لئے ایک قانون کے وعدے اور دعوے کر کے اقتدار کی کرسی تک پہنچے۔عمران خان امارت و غربت کے لئے ایک قانون کا وعدہ کس حد تک وفا کر پائے، اس کا اندازہ ان کی ناک تلے قتل کی دو المناک واقعات سے لگایا جا سکتا ہے۔پہلا قتل وزیر اعظم ہائوس سے چند کلو میٹر دور اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون میں جعفر ہائوس میں ہوا ،ملک کے ایک ارب پتی سرمایہ دار کے بیٹے ظاہر جعفر نے ملک کے ایک بااثر سابق سفیر کی بیٹی نور مقدم کی جان ہی نہیں لی بلکہ مقتولہ کے مرنے کے بعد اس کا سر تن سے جدا کرکے اس سے فٹ بال کی طرح کھیلتا رہا۔دوسرا واقعہ بھی وفاقی دارالحکومت میں ہی پیش آیا جس میں سفاک قاتل نے اپنی جنسی ہوس مٹانے کے لئے ایک ماں کے سامنے پہلے اس کے معصوم بیٹے یوسف گلفام کو قتل کیا پھر زیادتی کے بعد ماں کی بھی جان لے لی۔قانون نافذ کرنے والوں نے دونوں مجرم گرفتار کر کے ملکی عدالتوں کے سامنے پیش کر دیے ہیں۔عدالتیں مظلومین کو کس حد تک انصاف فراہم کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اس سے بھی اہم بات قتل کی ان دو لرزہ خیز وارداتوں پر معاشرے اور حکومت کا ردعمل ہے۔ نور مقدم کو قتل کرنے کے بعد جس سفاکانہ انداز میں اس کا سر کاٹا گیا اس پر سوسائٹی، میڈیا کا غم وغصہ فطری عمل ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے چوک چوراہوں پر شمعیں روشن کرکے حکومت سے انصاف کا مطالبہ کرنے پر کسی بھی ذی شعور کو اعتراض نہیں۔البتہ اعتراض ہے تو سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے دوہرے معیار پر ہے۔تعجب تو یہ ہے کہ نور کے قتل پر انسانیت کا درد رکھنے والوں کے کلیجے پھٹ گئے لیکن نسیم بی بی اور اسکے معصوم بیٹے کا مظلوم خون ان کے دلوں میں کیوںکوئی ارتعاش پیدا نہ کر سکا۔ ماں بیٹے کے بہیمانہ قتل پرحکو مت کا سر مہری کا رویہ سماج کے اجتماعی رویے سے بھی زیادہ افسوس ہے۔نسیم اور گلفام کے بہیمانہ قتل پر کسی حکومتی وزیر مشیر کو ہمدردی اور انصاف کی فراہمی کے لئے خیر کے دو کلمے کہنے کی توفیق تک نہیںہوئی۔ اس لئے کہ انکا تعلق نام نہاد پوش اور ماڈرن فیملی سے نہیں تھا۔یہیں سے امارت اور غربت کی اس خلیج کا آغاز ہوتا ہے،جسے پاٹنے کی آج تک پاکستان کے کسی حکمران اور قانون کو توفیق نہیں ہوئی۔ میڈیا نے بھی گلفام کے قتل پر محض اپنی ریٹنگ کے لئے خبر چلائی اور پھر چند دن بعد گلفام کی زخمی ماں کے جان کی بازی ہار دینے کی خبر دے کر اپنی ذمہ داری پوری کر دی۔ مگر دوسری جانب نور مقدم کے قتل کے محرکات کی جزیات تک آج بھی میڈیا اور حکومتی کار پردازوں کا موضوع بحث بنی ہوئی ہیں، یہاں تک کہ نام نہاد لبرلز اور قدامت پسند اپنے اپنے موقف پر واضح طور پر تقسیم ہو گئے ہیں۔ معاشرے کے اس رویہ کو برداشت کیا جا سکتا تھا اگر حکومتی سطح پر انہیں امیر اور غریب شہریوں کے بجائے تین معصوم انسانوں کا قتل سمجھا جاتا۔ نور مقدم کے قتل پر حکومتی ایوانوں میں ہلچل ہوئی ، سینٹ میں انسانی حقوق کی کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا جس میں وزارت داخلہ کے ایڈیشنل سیکرٹری اور آئی جی اسلام آباد کو بھی طلب کیا گیا۔آئی جی نے کمیٹی کے ارکان کو اس سفاکانہ قتل میں ہونے والی پیش رفت سے ہی آگاہ نہیں کیا بلکہ کمیٹی کو یہ بھی درخواست کی کہ نور کے والدین نہیں چاہتے کہ ان کی بیٹی کے قتل کے محرکات وجوہات اور اسباب اور حقائق پبلک کئے جائیں۔ لیکن انسانی حقوق کی اس حکومتی کمیٹی کے کسی بھی رکن کی زبان پر معصوم یوسف اور اورنسیم کا نام تک نہ آیا اور وہ غریب ومقتول ماں بیٹا ’’میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں‘‘کی منہ بولی تصویر بنے درجہ بندی کے مارے سما ج سے سوال کر رہے ہیں کہ کیا ہمار ا خون ویسا ہی خون نہیں تھا جو امیروں کی رگوں میں دوڑتا پھرتا ہے۔ اور دوسری طرف مقتولہ نور کے والدین کی درخواست پر وفاقی وزیر انسانی حقوق شریں مزاری نے معاملے کو پبلک نہ کرنے کی حمایت کی ،سینیٹر مشاہد حسین صرف اتنا منوا پائے کہ معاملے کے کچھ بنیادی حقائق پبلک کر دیں اور حساس موضوعات کو ان کیمرہ رکھا جائے۔بدقسمتی سے کمیٹی کے لئے قاتل اور جرائم کے بڑھتے واقعات کے محرکات جاننے کے لئے اقدامات کرنے کی بجائے نور کے قتل کے محرکات کو پبلک کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ زیادہ اہم رہا اور ساراجلاس نور مقدم قتل کیس کے گرد گھومتا رہا۔ یورپ میں اٹھارہویں صدی میں جرائم کے خاتمے کے لئے جرائم کے اسباب کو سمجھنے اور ان کے تدارک کے لئے کام شروع ہو گیا تھا۔ یورپ میں آج جرم کی وجوہات جاننے کے لئے انسانی دماغ کی سکیننگ اورجسم میں ہارمونز پر تحقیقات ہورہی ہیں،وہاں اٹھارہ سو ستر سے جرائم کاری کی سائنس کے ذریعے جیل میں قید مجرموں کے ذہن کوسمجھنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ۔ مجرموں کے پیدائشی یا حالات کے تحت قاتل بننے کے تعلق کو سمجھنے پر تحقیق ہو رہی ہے۔ان معاشروں میں یہ بھر پور احساس پایا جاتا ہے کہ معاشرے مجرموں کوختم کرنے سے نہیں ،جرائم کے اسباب ختم کرنے سے پاک ہوتے ہیں۔ سینیٹرولید اقبال اس بات پر حیران ہیں کہ ملک میں ماہرین نفسیات کی تعداد 450 ہے‘بہتر ہو گا سینیٹر صاحب یہ بھی معلوم کر لیں کہ ان 450ماہرین میں سے کتنوں نے جرائم کے اسباب جاننے کے لئے ملک میں تحقیقات کی ہیں۔یہاں تو قانون حرکت میں آتا ہی جرم کے ارتکاب کے بعد ہے۔جرم ہونے کے بعد پولیس مجرم کو عدالت کے حوالے کرکے بری الذمہ ہو جاتی ہے تو عدالتیں ناقص تحقیقات کو جواز بنا کر مجرموں کو چھوڑنے پر مجبور۔ منٹو نے کہا تھا اگر موجودہ قتل وخون کی لہروں کا نفسیاتی جائزہ نہ لیا گیا تو مجھے خوف ہے کہ حالات ابتر ہو جائیں گے اور بربریت کا دور شروع ہو جائے گا ۔ لیکن شروع کیا اب توشروع ہو چکا ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ پون صدی پہلے جو بات منٹو کی سمجھ میں آ چکی تھی ہماری حکومتوں کی سمجھ میں آج تک کیوںنہ آ سکی۔ حکومتی ایوانوں میں کسی نور کے قتل کے بعد ارتعاش پیدا ہوتا بھی ہے تو معاملہ عام کرنے نہ کرنے پر غوروفکر ہوتا ہے سینٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کے اجلاس، قابل افسوس سماجی رویوں اور عمران خان کی حکومت پر مظہر عباس کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎ بے حسی کی بھیڑ میں وہ کھو گیا خوف تھا جس کا کل وہی ہو گیا