یہاں ہر کوئی خوف کے کاروبار سے وابستہ ہے،دوسروں کو خوف زدہ کر کے اپنا دھندہ چلاتا ہے۔سیاست کا دھندہ ، حکومت کا دھندہ، یہاں تک کہ قلم کا دھندہ بھی۔ایک قلمکار نے تصویر یوں بنائی ہے کہ سیاسی فلم درد ناک اختتام کی طرف بڑھ رہی ہے اور ہیرو ولن بننے والا ہے، تصویر کے ایک کونے میں دوسروں کو رلانے کا دعوی کرنے والا خود روتا نظر آ رہا ہے ۔یہ خیالی تصویر پیش گوئی ہے، تجزیہ ہے،خواہش ہے یا خوف کا کاروبار؟ ایک اور خیالی تصویر میںدعوی کیا گیا ہے کہ تاریخ کے ایک بہت بڑے سیاسی لیڈر کے ساتھ بہت نا انصافی ہو رہی ہے ،ڈرایا گیا ہے کہ اس سے سوتیلوں سا سلوک نہ کرو، مر گیا تو قبر میں لیٹ کر ساری عمر رلاتا رہے گا۔ڈرانے والے انسانی نفسیات جانتے ہیں۔جانتے ہیں کہ رعائتیں لینے کے لیے دوسرے کو اس کے انجام سے خوفزدہ کرنا ضروری ہے ۔ دو ڈھائی تجزیہ کارتو فارن فنڈنگ کیس میں خوشی سے پھولے نہیں سما رہے ۔قوم کو بتا رہے ہیں کہ چند دن کی بات ہے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کے بعد تحریک انصاف قصہ پارینہ بن جائے گی اور حکومت کا وجود خود بہ خود صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اتحادی اس قدر ناراض ہو چکے ہیں کہ جانے کو تیار بیٹھے ہیں اور گئے تو حکومت کی کرسی دھڑام سے زمین پر آ رہے گی۔کچھ یہ بھی کہتے رہے کہ مہنگائی اس قدر بڑھنے والی ہے کہ چائے کے کپ کے عوض لفافہ بھر کے پیسے ادا کرنے ہوں گے اور ڈالر تین سو روپے تک جانے والا ہے ۔ خوف کے اس کھیل کے کھلاڑی صرف اپوزیشن یا اپوزیشن کے حمایتی اینکرزہی نہیں ہیں بلکہ حکومت کے اتحادی بھی اس فارمولے سے بھرپور استفادہ کر رہے ہیں۔چودھری برادران بتا رہے ہیں کہ ہمیں ناراض کرنے کا خطرہ مول نہ لیجیے، ہم نے پہلو بدلا تو نہ صرف پنجاب میں حکومت بچانا مشکل ہو جائے گا بلکہ مرکز میں بھی بے چینی پیدا ہو جائے گی۔ایم کیو ایم حکومت کو خوف میں مبتلا کر کے مزید ایک وزارت کی خواہش مند ہے۔جب ان سے پوچھیں کہ آپ سے تو دو وزارتوں کی بات ہوئی تھی آپ تیسری کیوں مانگتے ہیں تو جواب ملتا ہے فروغ نسیم کی وزارت تو حکومت نے اپنی ضرورت کے تحت اپنی مرضی سے دے رکھی ہے ، ہم اسے شمار نہیں کرتے۔یعنی حکومت کو پارلیمنٹ میں اکثریت کھو دینے کے خوف میں مبتلا کر کے چھ سیٹوں والی پارٹی تین وزارتوں کی خواہش مند ہے اور پنجاب میں پانچ سیٹوں والی پارٹی کے من میں وزیر اعلی بننے کے لڈو پھوٹتے رہتے ہیں۔ اتحادیوں کے شکووں اورمولانا کی دھمکیوں سے تو حکومت خوف کا شکار نہیں ہوئی مگر اب بتایا گیا ہے کہ ہواؤں کا رخ بدل رہا ہے۔ہوا کا رخ کب اور کیسے بدلتا ہے؟ یہ رخ کب کس سمت سے کس سمت کی جانب ہو جاتا ہے ؟ یہ ہوائیں آندھیاں کب بنتی ہیں؟ ان بدلتی ہواؤں سے کس کے باغ لہلہانے لگتے ہیں اور کسے اپنی کچی جھونپڑی کے گرنے کا خوف لاحق ہو جاتا ہے؟ان سوالوں کا جواب تو قدرت ہی جانتی ہے جو ہواؤں پہ قادر ہے ۔مگر ایسے درد مند لوگ ضرور موجود ہیں جو ایسے نازک موقع پہ سمجھاتے ہیں کہ اپنے کچے گھر کی فکر کرو ان منہ زور ہواؤ ں سے ٹکر نہ لو۔سیاست میں مصلحت پسندی کو سمجھو ، وقت کی نزاکت کو پرکھنا سیکھو۔ نیک کام کرو، کوئی بیمار ہے تو اس پہ ترس کھاؤ، اسے جانے دو۔ مر گیا تو سیاسی طور پر عذاب بن جائے گا،آنے والی سیاسی مشکلات سے خوف کھاؤ،خود کو مشکل میں پڑنے سے بچاؤ۔ویسے بھی نومبر کا مہینہ ہے ، سردیاں آ رہی ہیں، کچے گھروں میں سردیاں اور بھی منہ زور بن کے آتی ہیں، بحث مت کر و، اپنی فکر کرو، اپنا گھر بچاؤ۔ خوفزدہ کرنے کا یہ کھیل پرانا ہے جو ہر سطح اور ہر جگہ پرکھیلا جاتاہے۔یہ خوف اپنے ساتھ مصلحت پسندی لاتا ہے ، سمجھوتے کے اصول بتاتا ہے، لین دین کا کھیل سکھاتا ہے۔اور اس کے بعد احتساب کا نعرہ اسی سمجھوتے کی گود میں دم توڑ دیتا ہے۔اصول پسندی مصلحت پسندی کے ہاں گروی رکھ دی جاتی ہے اور سیاسی کاروبار ملکی منفعت کا راستہ چھوڑ کا چھانگا مانگا کا رخ کر لیتاہے۔ ہم بحیثیت مجموعی خوفزدہ قوم ہیں، ہر کوئی ہمیں خو ف کا شکار کر کے اپنا مال بیچتا ہے۔دوسرا پانی پینے سے بیمار ہو جاؤگے ، ہمارا پانی پیو۔ عام دودھ پینے سے بچوں کی ہڈیاں کمزور رہ جائیں گی، ہمار ا دودھ پیو۔ امتحان میں نمبر اچھے نہیں آئیں گے، فیل ہو جاؤ گے، بچنا چاہتے ہو تو تعویذ لو۔ ایکسیڈنٹ سے بچنا چاہتے ہو تو گلے میں پیسے ڈالو۔ٹائر پھٹ جائے گا ، ایکسیڈنٹ میں مر جاؤ گے فورا ٹائر تبدیل کراؤ۔ہمیں خوف کے نظام میں جکڑ کر بہت سے لوگ اپنا کاروبار چلاتے ہیں۔خوف کا یہ دائرہ عام آدمی سے لے کر حاکموں کے ایوانوں تک پھیلا ہوتا ہے۔انہیں بھی ان کے پیر و مرشد بتاتے ہیں کہ مشکل وقت سے بچنا ہے تو پہاڑوں پہ چلے جاؤ۔کاروبار حکومت کامیابی سے چلانا چاہتے ہو تو ایسے شخص کو وزیر اعلی بناؤ جس کا نام ’’ع‘‘ سے شروع ہوتا ہو۔کل میانوالی میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے اعتراف کیا کہ وہ خوف کا شکار ہوئے انہیںنواز شریف کی رپورٹس دکھا کر بتایا گیا کہ پلیٹ لیٹس گر چکے ہیں، گردے خراب ہو گئے ہیں،دل کا مسئلہ بھی سنگین ہے ، اگر انہیں باہر نہ جانے دیا گیا تو وہ جان سے چلے جائیں گے۔گویاانہوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے خوفزدہ ہو کر نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت دی۔ خوف کا کاروبار اور کاروبار حکومت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔خوف کی موجودگی میں احتساب کا نظام نہیں پنپ سکتا۔ خوف پر قابو پائے بغیر مصلحت پسندی سے جان نہیں چھڑائی جا سکتی۔ خوف سے نمٹے بغیر بڑے فیصلے نہیں کیے جا سکتے۔ خوف کی موجودگی میں فیصلے ہوئے تو ’’دو نہیں ، ایک پاکستان‘‘ کا خواب شرمندہ ٔ تعبیر نہیں ہو سکتا۔خوف ہتھکڑیوں کا نام ہے جو حکمرانوں کے ہاتھوں کو انصاف کی فراہمی کے لیے اٹھنے سے روکتا ہے۔ خوف سے آزاد ہونا ضروری ہے ۔خوف کے کاروبار سے وابستہ افراد کو سخت پیغام دینا ضروری ہے کہ وہ بلیک میل ہونے والے نہیں۔خوف کے کاروبار سے وابستہ افراد کی حوصلہ شکنی ضروری ہے چاہے ان کا تعلق سیاست سے ہو، ریاست سے ہو یا قلم اور کیمرے سے ۔