یہ مارکیٹنگ اور کمرشلائزیشن کا دور ہے۔ زندگی سے جڑی ہر شے اشتہاری اور اشتہاراتی ہو چکی ہے۔ مارکیٹنگ اور ایڈورٹائزمنٹ(Advertisment)کا یہ سونامی آج کے دور کے انسان کی زندگی سے سکون اور خوشی بہا کر دور لے چکاہے اور ہم مارکیٹنگ گزیدہ لوگوں کو اس کی خبر بھی نہیں ہوتی کہ ہم کارپوریٹ دنیا کے لالچ اور دولت کی ہوس کا کس بری طرح شکار ہوئے ہماری زندگیاں کارپوریٹ مافیا نے کس انداز میں یرغمال بنا لیں۔ مارکیٹنگ اور اشتہارات کا کاروبار اس وقت گھنائونی صورت اختیار کر لیتا ہے جب دوا ساز کمپنیاں خوف کی مارکیٹنگ کرتی ہیں۔ جی ہاں دنیا کی بڑی بڑی دوا ساز کمپنیاں میڈیا کے ذرائع اور ڈاکٹروں کے گٹھ جوڑ سے صحت مند لوگوں کو بیماریوں کے خوف میں مبتلا کرنے کی مارکیٹنگ کرتی ہیں۔ اس طرح دنیا کا ہر صحت مندانسان خود کو کسی نہ کسی بیماری کے دہانے پر محسوس کرتا ہے۔ بیماریوں کا یہ مسلسل خوف ایک مستقل ذہنی اذیت ہے اور ذہنی دبائو اگر مسلسل رہے تو اچھا بھلا صحت مند انسان کسی نہ کسی بیماری کی پکڑ میں ضرور آ جاتا ہے مسلسل ذہنی دبائو انسانی قوت مدافعت کو متاثر کر کے بیماریوں کو دعوت دیتا ہے۔ آسٹریلیا میں کچھ سال پہلے ایک مشہور دوا ساز کمپنی کی کانفڈشیل رپورٹ افشا ہوئی اس رپورٹ میں اس فارماسوٹیکل کمپنی اور ایک میڈیکل کالج کے نصاب ترتیب دینے والے ڈائریکٹرز کے درمیان راز دارانہ کمیونیکیشن تھی۔ جس میں فارما سوٹیکل کمپنی نے تجاویز دی ہوئی ہیں کہ انسانی جسم میں طبیعت کا ایک معمولی سا اتارچڑھائو جو اگرچہ غذا کے ردوبدل سے آسانی سے ٹھیک ہو سکتا ہے اسے ایک خوفناک اور بڑی بیماری کے طور پر میڈیکل کے طلباء کو پڑھایا جائے اس کا نام بھی تجویز کیا کہ اسے irritable bow syndrome(IBS)کہا جائے یہ کانفیڈنشل بات چیت نوے کی دہائی میں ہوئی اس سے پہلے IBSبیماری کا کوئی وجود نہ تھا۔ دواساز کمپنیاں ‘ٹی وی اخبارات ‘ ریڈیو کے ذرائع استعمال کر کے صحت مند لوگوں کو اس خوف میں مبتلا کر دیتی ہیں کہ ان میں فلاں وٹامن کی شدید کمی ہو چکی ہے اور فلاں وٹامن اگر انہوں نے گولیوں کی شکل میں روزانہ استعمال نہ کیا تو انہیں جلد ہی کوئی مہلک بیماری لاحق ہو جائے گی۔ خوف کی مارکیٹنگ کرنے پر دوا ساز کمپنیاں‘ کروڑوں اربوں لگاتی ہیں اس کے لئے سیمینار کئے جاتے ہیں ورکشاپس کی جاتی ہیں۔ لوگوں کے مفت ٹیسٹ کرنے کے لئے کیمپس لگائے جاتے ہیں۔ بیماریوں میں مبتلا افراد کے اعداد و شمار بڑھا چڑھا کر میڈیا میں پیش کئے جاتے ہیں۔ بیماریاں اگرچہ زندگی کا حصہ ہے۔ ہر شخص کبھی نہ کبھی ضرور بیمار ہوتا ہے لیکن ہمہ وقت مہلک بیماریوں کے خوف میں مبتلا رہنا بجائے خود ایک بیماری نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ہم لوگ اکثر ان بیماریوں کے بارے میں معلوماتی مضمون پڑھ رہے ہوتے ہیں یا ویڈیوز دیکھ رہے ہوتے ہیں جو ہمیں لاحق ہی نہیں ہوتیں۔ اس لئے کہ غیر ارادی طور پر ہم اس کے خوف میں مبتلا ہوتے ہیں۔نامحسوس طریقے سے پورا عالمی سماج خوف کی اس مارکیٹنگ اور بیماریوں کی سوداگری کی وجہ سے صحت کے ایسے جنون میں مبتلا ہو چکاہے جو بجائے خود ایک بیماری ہے۔ اب اس سارے گھنائونے کھیل کے ردعمل کے طور پر سچائی کی آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں۔ مغرب میں بھی طب سے وابستہ سائنسدانوں نے اس پر آواز اٹھائی ہے اور اس سارے عمل کو انہوں نے unhealthy obsession with healthکا نام دیا ہے۔ یہ آوازیں جو انسانیت کے حق میں اور ایک حقیقی صحت مند عالمی سماج کے لئے اٹھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دوا ساز کمپنیاں اتنا بڑا مافیا بن چکی ہیں کہ ہماری زندگیاں اور ہماری صحت ان کے قبضے میں ہے۔ یہ ہمیں ہر صورت بیماری دیکھنا چاہتی ہیں۔ مثلاً سوشل فوبیا SBبھی ایک ایسی ہی خود ساختہ بیماری ہے جس میں آپ کو یقین دلا دیا جاتا ہے کہ اگر آپ مجمع میں بات کرنے سے گھبراتے ہیں تو آپ سوشل فوبیا نامی نفسیاتی بیماری کا شکار ہو چکے ہیں اس کے علاج کے لئے آپ سائیکائٹرسٹ کے پاس جائیں اور دوائوں کے پلندے کھائیں۔ بڑے جمع میں بات کرتے ہوئے گھبرانا ایک فطری سی بات ہے۔ اس میں کسی طور دماغ کے کیمیکل کا توازن نہیں بگڑتا۔ گھبراہٹ کی یہ کیفیت عارضی سی ہوتی ہے مگر کیا کریں کہ فارما سوٹیکل مافیا نے ہر صورت صحت مندوں کو بیماری میں مبتلا کرنا ہے۔ اس لئے اگر آپ کہیں گے آپ بیمار نہیں ہیں اور بالکل تندرست ہیں تو یہ مافیا اس کو بھی ایک بیماری ڈکلیئر کر دے گا اور اس کا نام رکھا جائے denial disorder syndromeاور اس کو طب کی کتابوں میں DDSکے نام سے پڑھایا جائے گا اور پھر اس کے علاج کے لئے آپ کو دوائیں کھانا پڑیں گی۔ بانو قدسیہ کی ایک بات مجھے یاد آتی ہے۔ وہ کہیں لکھتی ہیں کہ بیماریوں کے بارے میں معلومات اکٹھے کرتے رہنا بھی ایک بیماری ہے اور سچی بات یہ ہے کہ ہمارے سماج کو اب یہ بیماری لاحق ہو چکی ہے یہاں باقاعدہ بیماریوں کے دن منائے جاتے ہیں۔ بیماری کا چرچا ہوتا ہے علامات بتا بتا کر ہر شخص کو اس خوف میں مبتلا کر دیا جاتا ہے کہ وہ جلد یا بدیر اس بیماری میں مبتلا ہونے والا ہے۔ خوف کی مارکیٹنگ کرتے ہوئے بیماریوں کی جو معلومات ہم تک پہنچتی ہیں وہ corporate fundedہوتی ہیں اور اس مافیا کا مقصد یہی ہے کہ صحت مند انسانوں کو ہر صورت بیمار کر دیا جائے گا یا پھر بیماری کے خوف میں مبتلا کر دیا جائے اور یہ مافیا اس کے لئے نئی سے نئی خود ساختہ بیماریاں ایڈورٹائز کرتا ہے۔ خوف کی مارکیٹنگ ، بیماریوں کی اس سوداگری کا حصہ ہے!!