جو معاشرہ زندہ ہو اور شدت احساس کی نعمت سے بھی سرفراز ہو وہ کسی ایک فرد کی حادثاتی موت سے تڑ پ اٹھتا ہے اور جو معاشرہ بے حس ہو وہاں آئے روز سینکڑوں افراد کے بے موت مارے جانے پر بھی کوئی آنکھ نم ہوتی ہے اور نہ ہی کسی کے ضمیر میں کوئی خلش پیدا ہوتی ہے۔ جمعرات کو صادق آباد کے قریب علی الصبح 4بجے انتہائی خوفناک حادثہ پیش آیا۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق دو گاڑیوں کے تصادم میں اس وقت تک 22افراد ہلاک اور 104شدید زخمی ہو چکے ہیں۔ اتنے بڑے جانی نقصان پر وزیر ریلوے شیخ رشیداحمد نے جو مشینی سا اورجذبات و احساس سے عاری بیان دیا ہے اس نے دکھ اور درد کی شدت میں اور اضافہ کر دیا ہے۔ یہ ایک فارمولا قسم کا بیان ہے جو شیخ رشید ہر حادثے کے موقع پر جاری کر دیتے ہیں۔ جب سے شیخ صاحب تحریک انصاف کی حکومت میں وزیر ریلوے مقرر ہوئے ہیں تب سے لے کر اب تک 70چھوٹے بڑے ریلوے حادثات ہو چکے ہیں۔22جانوں کے نقصان اور 104افراد کے ہسپتالوں میں پہنچ جانے اور ٹرینوں کی تباہی کے باوجود ریلوے کے وزیر شیخ رشید احمد جائے حادثہ پر پہنچے اور نہ ہی وزیر اعظم یا ان کا کوئی نمائندہ اظہار ہمدردی کے لئے آیا اور نہ ہی صوبائی حکومت کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو صادق آباد جانے کی توفیق ہوئی۔ صادق آباد حادثے سے کہیں کم شدت کا ایک حادثہ 6جنوری 2017ء کو لودھراں میں پیش آیا تھا۔ اس حادثے میں 8افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں 16سکول کے بچے بھی تھے ظاہر ہے انتہائی افسوسناک حادثہ تھا اور لواحقین کے ساتھ اظہار ہمدردی انسانی جذبات کا عین تقاضا تھا۔اگلے روز ہی تحریک انصاف کے سربراہ جناب عمران خان لودھراں پہنچے۔ انہوں نے ہلاک ہونے والے بچوں کے ورثاء سے اظہار افسوس کیا اور ایک دھواںدھار پریس کانفرنس میں سا وقت کے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔ یقینا یہ ایک جائز مطالبہ تھا۔ مگر اب اتنے بڑے حادثے پر اظہار افسوس اور اظہار ہمدردی کے لئے وزیر اعظم بن جانے والے عمران خان جائے حادثہ پر گئے اور نہ ہی انہوں نے موجودہ وزیر ریلوے شیخ رشید احمد سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا اور نہ ہی ان کی خراب و خستہ کارکردگی پرکوئی گرفت کی۔ عربی زبان کی ایک مثال ہے کہ عین الغضب کو رائی بھی پہاڑ دکھائی دیتی ہے اور عین الرضا کو کو جبل بھی تنکا نظر آتا ہے۔ عربی میں عین آنکھ کو کہتے ہیں۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ انسانی ٹریجڈی کو بھی سیاست کی عینک لگا کر دیکھا جاتا ہے۔ ریلوے کے ایک سابق افسر سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ بے شک سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے زمانے میں بھی بہت سے ریلوے حادثات ہوئے تھے اور ریلوے کئی دہائیوں پر پرانے مسائل پر قابو نہ پا سکا مگر ایک بڑا بنیادی فرق یہ ہے کہ خواجہ صاحب نے اپنی سیاست کو ریلوے کے معاملات سے بالکل الگ تھلگ رکھا ہوا تھا۔ وہ ریلوے ہیڈ کوارٹر میں ہونے والی کسی پریس کانفرنس کو صرف اس محکمے کے معاملات تک محدود رکھتے اور یہاں کوئی سیاسی بات نہ کرتے جبکہ شیخ رشید احمد ریلوے ہیڈ کوارٹر میں ہی بیٹھ کر اپنی سیاست چمکاتے اور ’’چور‘ڈاکو اور لٹیرے وغیرہ‘‘ والے بیانات بھی یہاں سے جاری کرتے ہیں‘ یوں شیخ صاحب نے ریل اور سیاست کو گڈ مڈ کر دیا ہے۔ شیخ صاحب نے ریلوے حکام اور ماہرین کے ساتھ اپنی پہلی میٹنگ میں افسران کو ڈانٹ دیا اور حزب اختلاف کے اظہار پر شدید برہمی کا اظہار کیا جس پر ایک اعلیٰ افسر نے صدائے احتجاج بلند کی اور لمبی چھٹی کی درخواست محکمے کو بھیج دی۔ شیخ صاحب کا میسج لائوڈ اور کلیر تھا کہ اب یہاں وہی چلے گا جو خوشامد سے کام لے گا اور ’’بقراط‘‘ بننے کی کوشش کرنے کا ارادہ رکھتا ہو وہ کہیں اور ٹھکانا ڈھونڈ لے۔ شیخ رشید احمد میڈیا ماسٹر ہیں۔ یہاں ریلوے میں بھی انہوں نے اس آرٹ سے کام لے کر بعض ’’نئی ٹرینیں‘‘ چلا دیں کچھ واقفان حال کا کہنا ہے کہ یہ نئی ٹرینیں دراصل پرانی ہی ٹرینیں ہیں مگر جن کی ’’ری شفلنگ‘‘ کر کے نئی گاڑیاں پرانے ریلوے ٹریکوں پر دوڑا دی گئی ہیں‘ واللہ اعلم۔ اس کا نتیجہ وہی ہوا جس کے بارے میں پنجابی زبان کا یہ محاورہ صادق آتا ہے کہ ’’اگے دوڑ پچھے چوڑ‘‘ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے شیخ صاحب سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔’’شیخ صاحب کا استعفیٰ‘‘ سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن چکا ہے۔ یوں تو شیخ صاحب اکثر یہ دعویٰ کرتے رہتے ہیں کہ ان کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہوتا ہے مگر اس معاملے میں ایک پرانے لطیفے کے مطابق شیخ صاحب کو کچھ سنائی نہیں دے رہا۔ استعفیٰ کے معاملے میں شیخ صاحب نے نہایت دلچسپ موقف اختیار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں آٹھ مرتبہ وزیر رہ چکا ہوں مگر استعفیٰ دینے کی نوبت کبھی نہیں آئی۔ ابھی تک تو میرے ضمیر کو کچھ نہیں ہوا مگر جب ضمیر مں کچھ جنبش ہوئی تو میں بلاول کے ہاتھ پر استعفیٰ رکھ دوں گا۔ ریل کا جب کوئی حادثہ ہوتا ہے یا محکمہ ریلوے کی نااہلیت کا کوئی شاہکار سامنے آتا ہے تو ’’سودیشی ریل‘‘ بہت یاد آتی ہے ۔شوکت تھانوی نے سودیشی ریل کے نام سے یہ شاہکار افسانہ 1929ء میں لکھا تھا۔ اس افسانے نے شوکت تھانوی کو شہرت کے بام و عروج تک پہنچا دیا۔ اس افسانے کا ترجمہ کئی ہندوستانی و عالمی زبانوں میں ہو چکا ہے۔ اس افسانے کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک مسافر لکھنو کے ریلوے اسٹیشن پہنچتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کو انگریز راج سے آزادی مل چکی ہے۔ مسافر جب ٹکٹ لینے کھڑکی پر پہنچا تو ریلوے کلرک کہتا ہے ک اب پرانے ٹکٹ نہیں چلیں گے اور نئے ٹکٹ ابھی چھپے نہیں۔ مسافر نے بہت منت سماجت کی تو کلرک نے اسے کچھ بھائو تائو کر کے سیکنڈ کلاس کا ایک جعلی ٹکٹ جاری کر دیا۔ یہ ٹکٹ لکھنو سے کانپورکا تھا۔ مسافر جب سیکنڈ کلاس کے ڈبے میں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ وہاں تو تھرڈ کلاس کا ٹکٹ رکھنے والے بھی بہت سے مسافر براجمان ہیں۔ ان مسافروںنے کہا کہ اب ہمیں آزادی مل گئی ہے۔ اب کلاسوں کا فرق ختم۔ جس کا جہاں جی چاہے گا وہاں بیٹھے گا۔ بیچارا حیران پریشان مسافر مرتا کیا نہ کرتا۔ کہیں دبک کر بیٹھ گیا۔ یہ دیکھ کر تو اس کی سٹی گم ہو گئی کہ ڈبے میں بہت سے مسافر کانپور کے بجائے بریلی جانے والے بیٹھے ہیں۔ کانپور اور بریلی والے آپس میں گتھم گتھا ہیں۔ انجن کے ڈرائیور کا دور دور کوئی اتا پتا نہیں۔ کوئلے والا کوئلہ خریدنے گیا ہوا ہے۔ وہ آئے گا تو کوئلہ جلے گا اور انجن چلے گا۔’’سودیشی ریل‘‘ یعنی اپنے دیس کی ریل مسافروں کی زیادہ تعداد بریلی کی تھی اس لئے فیصلہ ہو گیا کہ سودیشی کانپور کی بجائے بریلی جائے گی۔ جب پلیٹ فارم پر کھڑی ٹرین کے سامنے کانٹے والے ‘ سٹیشن ماسٹر‘ گارڈ اور انجن ڈرائیورکے درمیان توتکار کا سلسلہ بڑھا تو گفتگو کے دوران ایک سیاسی لیڈر بار بار یہ کہتا سنائی دیا کہ ’’ایک ملک کا انتظام چلانا بچوں کا کھیل نہیں‘‘ بعینہ یہی بات گزشتہ روز شیخ رشید احمد نے کہی کہ ’’ریلوے کے معاملات ٹھیک کرنا بچوں کا کھیل نہیں‘‘ ادب ہمیشہ قوموں کی اجتماعی سوچ اور ان کے سماجی رویوں کا عکاس رہاہے۔ شوکت تھانوی کی ’’سودیشی ریل‘‘ کو اتنی وسیع پذیرائی اس لئے ملی کہ تھانوی صاحب آزادی سے 18برس پہلے ہی یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ ہندوستانی شعور اس منزل کو نہیں پہنچا کہ جہاں انسان اپنی بے قابو فطرت کو قانون اور ضابطے کا پابند کر لیتا ہے۔ معاف کیجئے ’’پاکستانی شعور‘‘تو اس معاملے میں ابھی اور بھی پیچھے ہے۔ ریلوے کے معاملات ٹھیک کرنے کے لئے کسی ’’میڈیا مائنڈ‘‘ کی نہیں سنجیدہ فکر شخص کی ضرورت ہے۔