چولستان میں 22 واں سالانہ خواجہ فرید روہی امن میلہ گزشتہ روزجھوک فرید چولستان میں منعقد ہوا۔ اس میلے کا آغاز 21 سال قبل سجادہ نشین دربار عالیہ خواجہ فریدؒ خواجہ معین الدین کوریجہ نے شروع کیا ۔اب دیکھتے ہی دیکھتے یہ میلہ چولستان کے بہت بڑے ایونٹ کی حیثیت اختیار کر گیا ۔ میلے میں تصوف سمینار ، سرائیکی مشاعرہ ، قوالی ، کافی رنگ ، سرائیکی ثقافتی رنگوں کے ساتھ ساتھ مختلف تقریبات شامل تھیں، میڈیکل کیمپ بھی لگایا گیا ۔ میلے میں ملک بھر سے عقیدت مندوں نے شرکت کی ۔ دربار فرید کے سجادہ نشین خواجہ معین الدین کوریجہ جو کہ علالت کے باعث تقریبات میں شریک نہ ہو سکے نے اپنے پیغام میں کہا کہ خواجہ فرید نے انسانیت کو محبت اور امن کا درس دیا ، یہی وجہ ہے کہ آج نہ صرف چولستان بلکہ پوری دنیا میں آپ کا نام احترام و عقیدت سے لیا جاتا ہے ۔ خواجہ فرید امن میلے کے موقع پر سرائیکی فاؤنڈیشن کی طرف سے جام اظہر مراد ، ملک مقصود کھوکھر اور عالمگیر خان نے ادبی ثقافتی تقریب منعقد کی ، جس میں سرائیکی رہنما راشد عزیز بھٹہ سمیت دیگر رہنماؤں نے کہا کہ خواجہ فرید نے 17 سال چولستان میں قیام کر کے چولستان کو امر کر دیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب ٹورازم کی طرف سے چولستان ریلی کے موقع پر مقامی تہذیب و ثقافت کا خیال نہیں رکھا اور نہ ہی چولستان کے مسائل اجاگر ہوئے ۔ وسیب کے ادیبوں ، شاعروں اور دانشوروں کا یہ کہنا درست ہے کہ چولستان کو اسی طرح تہذیب کا گہوارا بنایا جائے ، جس طرح خواجہ فرید نے بنایا ۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا خواجہ فرید نے 17 سال چولستان میں قیام کر کے چولستان کو امر کر دیا ، خواجہ فرید نے روہی کو دعا دیتے ہوئے فرمایا ’’ ایہا روہی یار ملاوڑی ہے ‘ شالا ہووے ہر دم ساوڑی ہے ‘ ونجٖ پیسوں لسڑی گٖاوڑی ہے ‘ گھن اپنے سوہنے سئیں وو کنوں‘‘ ۔ اسی طرح خواجہ فرید نے روہی کے ایک ایک ذرے سے پیار کیا اور تو اور خواجہ فرید نے روہی کے جانوروں کو بھی ان الفاظ میں دعا دی ’’ نازو جمل جمیل وطن دے ‘ راہی راہندے راہ سجٖنْ دے ‘ ہوون شالا نال امن دے ‘ گوشے ساڈٖے ہاں دے ہِن ۔ ‘‘ خواجہ فرید نے اپنے چولستان میں قیام کے دوران وہاں کے عام آدمی سے اس قدر محبت کی کہ وہ امر ہو گئے ۔ آج فریدیات کے طالب علم خواجہ فرید کے اس شعر ’’ پُھلو ڈہے تے منت لیسوں ‘ تھورا چڑھیسوں لالو لاڑ تے ‘‘ کی تشریح کرتے ہیں تو وجد میں آ جاتے ہیں کہ پُھلو ڈٖاہا یا لالو لاڑ کوئی سردار ، تمندار ، نواب یا مخدوم نہ تھے بلکہ عام روہیلے تھے اور خواجہ فرید کی محبت سے امر ہو گئے ۔ خواجہ فریدؒ بادشاہ تو نہیں تھے مگر بادشاہوں کے بادشاہ ضرور تھے ۔ کئی ملکوں کے بادشاہ ان کے مرید تھے لیکن اس حقیقت سے بھی انکارنہیں کہ آج کے ’’خوش عقیدہ مولوی‘‘ خواجہ فریدؒ کو جتنا مرضی ماورائی مخلوق بنانے یا دھرتی سے جدا کرنے کی کوشش کریںلیکن ہم کہتے ہیں کہ خواجہ فریدؒ نے تصوف کی شاعری بھی کی ہے لیکن اس سے زیادہ اپنی مٹی اور اپنی دھرتی کی شاعری کی ہے ۔ وہ دھرتی کے شاعر تھے ، ان کے پیری مریدی کے حوالے سے انکار نہیں مگر آج کے پیری مریدی کے مقابلے میں وہ بہت بڑے انسان تھے، انسان دوست تھے اور فرشتوں کے رُتبے سے بڑھ کر عظیم انسان تھے ۔ خواجہ فریدؒ دھرتی کے شاعر تھے ، خواجہ فریدؒ نے اس وقت اپنی زبان میں شاعری کی جب تخت و تاج کی زبان فارسی ، اُردو اور انگریزی تھی اور سرائیکی کو کوئی پوچھتا نہ تھا ۔ خواجہ فریدؒ نے سرائیکی صنف میں کافیاں اس وقت لکھیں جب غزل اور نظم عروج پر تھی ۔ خواجہ فریدؒ نے کمال ہنر مندی سے حمد ، نعت ، غزل ، نظم اور قصیدے کو بھی کافی کے روپ میں ڈھال کر پیش کر دیا۔خواجہ فریدؒ نے اپنی شاعری میں بدیسی قصے لیلیٰ ، فرہاد کا ذکر برسبیل تذکرہ ایک آدھ مرتبہ کیا ، جبکہ اپنے دیس کے عشقیہ کردار سسی پنوں اور ہیر رانجھے کا باربار کیا ۔ یہ تمام باتیں اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہیں کہ خواجہ فریدؒکو اپنے وطن ، اپنے وسیب اور اپنی مٹی سے بے پناہ محبت تھی ۔ اس سے بڑھ کر اپنی دھرتی سے محبت کا اظہار کیا ہو سکتا ہے کہ اپنی دھرتی پر چرنے والے مویشیوں کے گوبر کو بھی اپنے لئے شفا سمجھتے ہیں،ایک اور جگہ بھینسوں کے اسی خشک گوبر کو چشمِ بصیرت کیلئے نور قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: پاہ ہنباہ تے دھوڑ مہیں دی ڈٖسدا نور اَکھیں دا کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ خواجہ فریدؒ کی دُعائوں سے روہی جو نئے سرے سے آباد و شاد ہو رہی ہے ، دھرتی کے اصل وارثوں کے ہاتھوں سے کیوں نکلی جا رہی ہے جن کی 70پشتیں روہی کے صحرائوں میں دفن ہیں‘ روہی ان کے ہاتھ سے کیوں نکل رہی ہے ؟ آج اگر صدیوں بعد تھوڑا پانی کے وسائل ہوئے ہیں تو کیا وہ ان زمینوں کے حقدار نہیں ؟ اور کیا ہم نے غور کیا ’’صحرائی حیات‘‘ کی بقا کیلئے لکھ لکھ چھیڑو کی جگہ ’’شکاری چھیڑئوں‘‘ نے کیوں لے لی ہے؟ کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ روہی کا سنگھار کالا ہرن ، چنکارہ ، بارہ سنگھا اور کالے خرگوش کو کون کھا گیا ہے ؟ روہی میں تلور ، مرغابی ، باز اور کونج نے آنا کیوں کم کر دیا؟ اور روہی کا تیتر ، کشمیرا ، چرگ ، بھوکڑ ، چکری اور دوسرے پرندے کہاں گئے؟ شاید ان تمام باتوں کو سمجھانے کیلئے اور روہی بچانے کیلئے روہی کو ایک مرتبہ پھر ایک اور خواجہ فریدؒ کی ضرورت ہے اور سرائیکی دھرتی کو ایک اور خواجہ فریدؒ دریافت ، تلاش اور تخلیق کرنے کی ضرورت ہے ۔ خود خواجہ فریدؒ کی زبانی معمولی رعایت کے ساتھ ہم خواجہ فرید سئیں کی خدمت التجا کرتے ہیں کہ: اپنْی روہی آپ وسا توں پٹ شکاری ٹکانْے چولستان کا ذکر آیا ہے تو میرے ذہن میں ایک آئیڈیا ہے کہ چولستان کی زمین لٹیروں ‘ غاصبوں اور لینڈ مافیا کو دینے کی بجائے یہاں50لاکھ ایکڑ پر مشتمل دنیا کی سب سے بڑی چولستان یونیورسٹی بنائی جائے اور اس کے ملحقہ ایک سو کے لگ بھگ مختلف کالجز ہوں ‘ اس میں مقامی افراد کے مخصوص کوٹے کے علاوہ پاکستان بھر اور دنیا بھر سے طالب علموں کو تعلیم کے مواقع مہیا کئے جائیں اور ملک ریاض جیسے بڑے بڑے بلڈرز کو دعوت دیکر چولستان میں ہاؤسنگ سکیمیں بنائی جائیں جو کہ یونیورسٹی کے انڈر ہوں۔ مگر میں اپنی تجویز بارے جس سے بات کرتا ہوں وہ کہتے ہیں تم پاگل ہو گئے ہو ، اپنا علاج کراؤ۔ لیکن خواب دیکھنے کا حق تو دیوانے کو بھی حاصل ہے۔کئی کالموں میں اس منصوبے بارے بات کر چکا ہوں ، حکمرانوں کو درخواستیں بھی بھیجیں کہ چولستان میں الاٹمنٹیں بند کی جائیں ، درخواستیں ردی کی ٹوکری میں ڈال دی گئی اور الاٹمنٹیں آج بھی جاری ہیں ۔